وہ جو ہمیں دھوکہ دیتے ہیں
کوئی جواز تو رکھتے ہوں گے
اپنے من میں کھوٹ چھپائے
ہم انجان سے بن جاتے ہیں
وہ بھی سچے، ہم بھی برحق
اپنے تئیں ہم سب سچے ہیں، خالص بھی ہیں
گرد ہمارے جتنے سنگی، ساتھی ہیں یا
رشتہ دار، محلّہ والے، مولوی، مُلّا، سَنت، پروہت
سب سچے ہیں
صدیوں پہلے کی بوسیدہ پُستک دیکھو
سب لوگوں نے اپنے اپنے سچ ہی لکھے
لیکن یہ بھی سچ ہے جاناں
سچ کی کڑواہٹ کو آخر کس نے چکّھا
سیہ، سفید تو کچھ بھی نہیں ہے
اک مٹیالی، دھوئیں کے جیسی دھُند ہے جس میں
ہم سب اپنے دل کی آنکھیں وا کرتے ہیں
گہری دھُند سے چھانٹ پھٹک کر
من کو بھاتا سچ لیتے ہیں
علم و دانش کی ٹاکی سے، عمریں لگا کر چمکاتے ہیں
اپنے سچ کو ثابت کرنے، نئی کتابیں لکھتے ہیں
اور خوش ہوتے ہیں
واصف علی واصف بھی سچا
اوشو بھی حق پر
بدّھا، عیسیٰ، موسیٰ بھی سچ
داتا، وارث شاہ، بھٹائی، رومی بھی حق
لیکن جاناں
اتنے سچ کو جھیل سکیں گے؟
اتنی تلخی!!
افف خدایا!!
یوں نا کر لیں
سچ کے جنازے پر پھولوں کی مہکی سی اک چادر ڈالیں
گرم جلیبی منہ میں رکھیں
حمد پڑھیں پھر
قل ہو اَللہ تین پڑھیں اور
سر کو جھکائے، اپنا اپنا رستہ پکڑیں
حق باہو ہے، داتا حق ہے
کھَڑی شریف کا بابا حق ہے
سیہون کی سرکار بھی سچی، تھڑے پہ بیٹھا باوا سچ ہے
واصف علی واصف بھی سچا
اوشو برحق
وہ سب سچے، ہم بھی برحق،
پھر بھی جانم
دھوکہ سرزد ہو جائے تو
کوئی جواز تو رکھتے ہیں نا!
٭٭٭