یوں تو گھر میں کئی ایسے تالے تھے جن کی چابیاں کھو گئی تھیں اور کچھ چابیاں ایسی تھیں جن کے تالے عرصے سے نہ ملتے تھے۔ لیکن کنجیوں کے چاندی ایسے چمکتے چھلے میں کسی اٹیچی کیس کی ایک ایسی منہ بند چابی تھی جو بڑی بڑی چابیوں میں کھسکتی، جھولتی، بجتی، یوں ہی چلی آ رہی تھی۔ سوائے سلمی کے کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ چھوٹی سی کاپی چھلے میں آئی تو کیسے۔
خود سلمی کو ایک عرصے تک علم نہ ہو سکا کہ منظور کی آمد پر گھر کی ساری فضا کیسے تبدیل ہو گئی ؟ وہی نصیر بھائی تھے کہ اسے ایسے سمارٹ، ایسے خوبصورت، ایسے پیارے لگتے تھے اور وہی نصیر بھائی تھے کہ بارش میں بھیگے ہوئے بازاری کتے کی طرح ان کی ساری شخصیت کان لپیٹے پھرنے لگی تھی۔ اور تو اور سلمی کو تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ گھر کی ساری دیواریں اور لمبی ہو گئی ہیں، کمرے کچھ پھیل گئے ہیں اور منڈیریں نیچے لٹک آئی ہیں۔
منظور کی آمد سے پہلے سلمی اس دو منزلہ کی شہزادی تھی۔ وہ کنگرو کے لاڈلے بچے کی طرح تھی۔ جسے گھر کے تمام افراد اپنی اپنی پوٹ میں چھپائے پھرتے تھے۔ امی ابا کی تو خیر وہ لاڈلی تھی ہی لیکن اپنے چچا زاد کی آنکھ کا تارا بننا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
نصیر بھائی تو ایسے نقص بین واقع ہوئے تھے کہ صاف ستھری پلیٹ میں انگلی پھیر کر کہیں سے مٹی نکال لاتے تھے۔ حیرانی کی بات ہے کہ عمر کے ساتھ ساتھ وہ نصیر بھائی کو بھی عزیز ہو گئی تھی، اب تو انہیں نہ میلے چکٹ کپڑوں پر اعتراض تھا نہ اونچی ایڑی کی جوتی پہننے پر۔ اتنی بڑی فتح کے بعد جب منظور صاحب اس گھر میں آئے تو سملی کو محسوس ہوا کہ ساری کائنات گھوم رہی ہے اور گھومتے گھومتے صابن کے بلبلے کی طرح پھوٹ جائے گی۔
منظور صاحب اس گھر میں کیوں ائے ؟ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک تو وہ نصیر بھائی کے دوست تھے، دوسرے بڑے شہروں میں آسانی سے رہنے کو جگہ نہیں ملتی تھی۔ اسکے علاوہ منظور صاحب، امی کے دور کے رشتہ دار تھے اور حساب لگانے پر سلمی نے اندازہ لگایا تھا کہ ایک طرح وہ اسکے نانا تھے۔
سلمی کو اس رشتہ پر تو کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ منظور صاحب اتنی کم عمر میں بالکل ناناؤں کی سی حرکتیں کرتے تھے۔ ان کی آمد سے پہلے خیال تھا کہ اس گھر میں سوائے اس کے کسی اور کو خود پسند ہونے کا حق نہیں پہنچتا۔ اس کی رائے اصول ہے، اس کی خواہش حکم۔ لیکن جب منظور صاحب وارد ہوئے تو سلمی کو پتہ چلا کہ اس چھوٹی سی جھیل میں کہیں سے سمندر کا مینڈک آن ٹپکا ہے۔ ہر بات پر طنز یہ مسکراہٹ، ہر لمحے پر تیوریاں۔
بھلا یہ بھی کسی نے سنا تھا کہ سلمی نے نیلا سوٹ پہنا ہو اور گھر کے سارے لوگ ما شاء اللہ کرتے پھریں۔ نصیر بھائی ہانپ ہانپ کر باتیں کریں اور منظور صاحب اخبار کی تصویروں کو مونچھیں لگاتے پھریں۔ اس روز تو اور بھی قیامت آ گئی تھی۔ نیلے سوٹ کے ساتھ سیاہ چوڑیاں بھی پہن رکھی تھیں لیکن اتنا جھٹکانے کے باوجود منظور نے ان کی طرف دیکھا ہی نہیں تھا۔
جب کھانے کے بعد وہ ہاتھ دھونے کو سلفجی پر جھکی ہوئی تھی تو منظور پاس کھڑا ہاتھوں پر سابن مل رہا تھا۔ سلمی نے گیلی انگلیوں سے قمیص کی بانہہ اوپر کر دی تھی اور چھن چھن کرتی سیاہ چوڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ کلائی پر اتر آئی تھیں، لیکن نا نا تیوڑی ڈالے صابن کی جھاگ کا گولا بناتا رہا، جیسے گولا بنانا ایسا ہی ضروری ہو۔ اسی لئے تو سلمی ہاتھ دھوتے ہی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ اسے احساس ہونے لگا کہ گھر کا ماحول یکسر بدل گیا ہے۔
ماحول کے تبدیل ہونے سے وہ اس قدر پریشان نہ تھی، وہ تو صرف یہ چاہتی تھی کہ ایک بار نا نا بھی نصیر بھائی بن جائے اور اسی طرح جھوٹ موٹ کے روٹھوں کو مناتا رہے۔ اس نے ہر ممکن جتن کر دیکھا لیکن نا نا اپنی رنگین ٹائیاں اور امریکن بش شرٹ پہنے متواتر تیوری چڑھائے اپنے کام پر جاتا رہا۔
آخر جب سلمی کے نیلے پیلے سوٹ اپنی رنگینی کھو چکے اور جھیل کی مچھلی سمندری مینڈک کے سامنے ہار مان گئی تو ایک دن سلمی کو اس کی امی نے اوپر والی منزل کی صفائی کرنے بھیجا۔ نصیر بھائی کے کمرے میں سے آوازیں آ رہی تھیں۔ نا نا اور وہ سڑے بجھے انداز میں کسی کا ذکر کر رہے تھے۔ سلمی دروازے کی آڑ میں کھڑی ہو گئی۔ نصیر بھائی کہہ رہے تھے
” تعجب ہے کہ وہ تم سے اس قدر مختلف ہے ”
پھر نا نا بولا ” ہاں سبھی کہتے ہیں۔ اس کا رنگ صاف ہے اور میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں، ویسے وہ ذرا موٹی ہے ”
” کاش تم مجھے اس کی کوئی فوٹو دکھا سکتے ” نصیر بھائی نے کہا
” میرے اٹیچی کیس میں ہے، شام کو دکھاؤں گا ”
اب نصیر بھائی نے لمبی سانس لی اور بڑے افسوس سے بولے، ” میں حیران ہوں تم زندہ کیسے ہو ”
نانا نے بڑی دیر تک اس بات کا جواب نہ دیا۔ پھر تقریباً اپنے آپ سے بولا ” جب پانی سر سے گذر جائے تو انسان زندہ رہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ”
سلمی کو اس بات کی قطعی امید نہ تھی۔ سارا دن وہ بستر پر پڑ کر روتی رہی۔ اب تک اسے کبھی کبھی امید بندھ جاتی تھی کہ اب نا نا نے ہتھیار ڈالے کہ ڈالے۔ لیکن صبح کی گفتگو سن کر وہ مایوس ہو چکی تھی۔ اب اس کے جی میں اٹیچی کیس کھولنے اور تصویر دیکھنے کی تمنا کے سوا کچھ نہ رہا لیکن کبھی اٹیچی کی چابی نہ ملتی اور کبھی منظور کمرے میں ہوتا۔
اس شام بادل چھائے ہوئے تھے۔ نصیر اور منظور سینما دیکھنے جا چکے تھے۔ آج سلمی نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ نصیر سے ضرور ملے گی اور اس کی تسلی کر دے گی کہ وہ اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اتنا بڑا فیصلہ کر چکنے کے باوجود اس کی ساری توجہ اٹیچی کیس کی طرف تھی جس میں کسی گوری موٹی لڑکی کی تصویر تھی۔
جب اندھیرا خاصا ہو گیا اور چیزوں کے ہیولے دھندلا گئے تو وہ اوپر والی منزل میں گئی۔ اس نے منظور کے سرہانے تلے، کتابوں کی میز پر، سنگار میز کی درازوں میں، ہر جگہ اٹیچی کیس کی چابی تلاش کی لیکن اس نیم اندھیارے میں اسے چابی نہ ملی۔ تھک ہار کر وہ اٹیچی کے قریب پہنچی تو اسے یوں محسوس ہوا کہ جیسے سارا دن غوطے مارتی رہی اور ایک سیپ بھی ہاتھ نہ آئی۔ اور اب کوئی البیلی موج آپی آپ اس کے قدموں میں سیپوں کا ڈھیر لگا گئی ہے۔ اٹیچی کیس کے تالے میں ایک منہ بند کلی ایسی چابی لگی ہوئی تھی۔
وہ ابھی اچھی طرح سے تصویر دیکھ بھی نہ پائی تھی کہ سیڑھیوں پر قدموں کا شور اٹھا۔ اس نے جلدی سے تصویر اخبار تلے رکھی۔ گڈمڈ ٹائیاں اور رو مال اندر ٹھونسے اور اٹیچی کا ڈھکن بند کر دیا لیکن اٹیچی کی چابی اس کی بھیگی بھیگی ہتھیلی میں ہی رہ گئی۔
جب منظور اور نصیر آ گئے تو وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور مٹھی بھینچ کر بولی، ” جی، آپ نے امی کی چابیاں تو نہیں دیکھیں ؟ ”
منظور نے کمرے کی بتی جلائی اور پھر تعجب سے بولا، ” امی جی کی چابیاں ؟ ”
” شام سے نہیں مل رہی ہیں، امی کہتی ہیں کہ صبح وہ ادھر بھی آئی تھیں ”
” دیکھ لیجئے، شاید یہیں ہوں ”
لیکن وہ چابیاں ڈھونڈنے کی بجائے مٹھی میں سیپ کا موتی چھپائے نیچے اتر آئی۔ سلمی کو کبھی بھی یہ خیال نہ آیا کہ عین اس دن منظور ان کا گھر چھوڑ کر چلا جائے گا۔ جب وہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی تو منظور بغیر دستک دیئے اندر آ گیا۔ اسکے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور وہ نصیر بھائی کی طرح ہانپ رہا تھا۔
” بہت بہت مبارک ہو سلمی، ” وہ بولا ” افسوس میں رات کی تقریب پر یہاں نہ ہوں گا ورنہ ”
” آپ جا رہے ہیں ؟ ” سلمی نے حیران ہو کر پوچھا۔
"جی ”
"کیوں ؟ ”
"اس لئے بھئی کہ ہم تمہارے نا نا ٹھہرے اور نا نا ایسی تقریبوں پر آبدیدہ ہو جایا کرتے ہیں۔ اور ہاں سلمی، تم نے میرے اٹیچی کیس کی چابی تو نہیں دیکھی کہیں ؟ ”
اس کے جی میں آیا کہ تکیے تلے سے چابی نکال کر اس کے سامنے پھینک دے۔ لیکن وہ نفی میں سر ہلا کر بولی، ”
میں نے تو دیکھی نہیں، کھو گئی کیا ؟ ”
منظور کی تمام تیوریاں جیسے آنکھوں میں آنسو بن کر پھیل گئیں اور وہ آہستہ سے بولا، ” آپ چابی کو پوچھتی ہیں، یہاں پتہ نہیں کیا کیا کھو گیا ہے ”
بلونت بھرے سمندری مینڈک کو یوں باتیں کرتا دیکھ کر سلمی کا دل دھک دھک کرنے لگا۔
” اور ہاں، نصیر تو نہ جانے کب آئے گا، اسے میرا سلام اور مبارکباد دیجئے گا۔ یہ تصویر ہے، اسکے پیچھے میں نے تمام تفصیلات لکھ دی ہیں۔ نصیر سے تاکید کیجئے گا کہ ضرور اس کا پتہ لگوائے۔ ”
سلمی نے بڑھ کر تصویر ہاتھ میں لے لی اور اس کا چہرہ مجسم سوال بن گیا۔ منظور نے لمبی سی سانس لی اور آہستہ سے بولا، ” ایک یہ دکھ ہی کیا کم تھا کہ اپنی اکلوتی بہن کو فسادات میں کہیں کھو آیا۔ اب نیلے سوٹ اور کالی چوڑیاں بھی چھوڑنا پڑیں۔ ”
سلمی کے لبوں کے کنارے کانپنے لگے اور وہ بمشکل بولی، ” یہ آپ کی بہن کی تصویر ہے ؟ ”
منظور نے کندھے جھٹکے اور آہستہ سے اعتراف کیا، ” جی ” پھر جیسے اپنے آپ سے کہنے لگا، ” پانی سر سے گزر جائے تو انسان زندہ رہنے پر مجبور ہو جاتا ہے "۔
ایسے کئی واقعات انسان کی زندگی میں سے ہو کر گزرتے ہیں۔ ان ننھی ننھی موج دار وارداتوں کا گھاؤ آپ ہی آپ مندمل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ کون جانتا ہے کہ چاندی کے چمکتے چھلّے میں ایک ایسی منہ بند چابی بھی ہے، جسے گھماتے گھماتے سلمی کبھی بہت دور جا نکلتی ہے اور اس کا چھوٹا سا بچہ اس کی ٹھوڑی پکڑ کر پوچھتا ہے، ” کیا بات ہے امی ”
اور وہ چابی کو مٹھی میں بھینچ کر کہتی ہے، ” کچھ بھی نہیں، کچھ بھی تو نہیں میرے لال ! ”
٭٭٭