پیکج ۔۔۔ توصیف بریلوی

’’ہے سوئیٹی…! آج سنیما چلو گی…؟‘‘ واصف نے آتے ہی سوال کیا۔

’’آج موڈ نہیں ہے۔‘‘

’’اوہ کم آن…سوئیٹی!‘‘

’’سمجھا کرو واصف…‘‘

’’اچھا میری بات سنو…اگر تمہیں فلم پسند نہ آئے تو ہم واپس آ جائیں گے ڈئیر۔‘‘

’’آں …او کے۔‘‘

’’سوئیٹی ایک بات بولوں …؟‘‘

’’بات ہی بولنی تھی تو سنیما لانے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘

………………

’’اب خاموش کیوں ہو…؟ بتا بھی دو کیا بات ہے؟‘‘

واصف اپنے ہونٹ پہلے اس کے کان تک لے گیا پھر بغیر کچھ کہے اس کے ہونٹ سوئیٹی کے رخسار پر پھسلتے چلے گئے۔

’’کیا دوستوں کے بیچ یہ بھی ہوتا ہے …؟‘‘سوئیٹی نے آہستہ سے پوچھا۔

’’ہاں‘‘ …اس سے بھی بڑھ کر، واصف نے سرگوشی کی۔

سوئیٹی نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور واصف شروع ہو گیا۔

روزانہ ایک دوسرے کو E۔chatting کے ذریعہ ہونٹوں کے نشان یعنی ’’برقی بوسے‘‘ اور ’’لفظی بوسے‘‘ ummaaahhh… بھیجے جاتے، Voice Note میں بھی بوسوں کی بوچھار ہوتی۔ دونوں ایک دوسرے کو نت نئے القاب سے نوازتے نہیں تھکتے، لیکن سوئیٹی اس کام میں ماہر تھی، وہ کچھ یوں لکھتی تھی…

’’مائی چاند‘‘

’’مائی دھڑکن‘‘

’’مائی سانسیں‘‘

’’مائی شہزادے‘‘

’’My Prince‘‘

’’مائی بچّہ‘‘

’’مائی بابو‘‘

’’مائی زندگی‘‘

’’مائی جگر کا ٹکڑا‘‘… وغیرہ وغیرہ۔

جب وہ واصف کو بچہ کہتی تو اس کو ایسا لگتا کہ وہ ابھی بھی بہت چھوٹا سا بچہ ہے اور ایک خوبصورت پری اس کو پیار کر رہی ہے۔ اسی لئے بار بار خود کو بچہ کہلانا اسے بہت اچھا لگتا تھا۔

دونوں پارک میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ ایک نئی نویلی ماں اپنے بچے کے Parambulator کو دھیرے دھیرے دھکیلتی ہوئی آئی۔ اس میں بیٹھا بچہ نہایت خوبصورت تھا۔ جب اس کی ماں اس سے باتیں کرتی تو وہ ہنسنے لگتا اور ہاتھ پیر چلاتا۔ یہ دیکھ کر واصف دل ہی دل میں خوش ہوا اور سوئیٹی سے کہنے لگا…

’’جب میں شادی کروں گا…میرا بھی ایک چھوٹا سا واصف ہو گا، میں اسے بہت پیار کروں گا۔ اور تم…؟‘‘

’’Yes my prince …میں بھی اسے بہت پیار کروں گی۔‘‘

’’جب وہ پیدا ہو گا تو تم اسے ملنے آؤ گی نا…؟‘‘ واصف نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے بچوں کی طرح ہاں کروانا چاہا۔

’’ضرور ملنے آؤں گی اپنے بابو کے بابو سے۔‘‘ سوئیٹی نے واصف کا گال دھیرے سے چھوتے ہوئے بات پوری کی۔

’’اور …تم اس کے ہونٹوں کو بھی چومنا جیسے میرے …‘‘

’’اچھا جی…اور آپ کی وائف، وہ یہ سب دیکھ کر کیا سوچے گی؟‘‘

’’کچھ نہیں سوچے گی؟‘‘، تم میری دوست ہو اور وہ تمہارا بھی تو بیٹا ہو گا۔

’’اور پیکج بھی دینا…‘‘

’’Naughty Boy شرم نہیں آتی…‘‘ سوئیٹی شرماتے ہوئے بولی۔

’’اس میں شرم کی کیا بات ہے، مجھے تمہارا Package بہت پسند ہے، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ میرے بے بی کو بھی …‘‘ وہ اپنا جملہ پورا کرتے کرتے رہ گیا اور دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں سنجیدگی سے دیکھنے لگے۔

دھیرے دھیرے یہ سنجیدگی اس قدر بڑھی کہ دونوں دوستی کی حدوں سے تجاوز کر بہت آگے نکل گئے۔ کالج ختم ہونے کے بعد دونوں نے شادی کی اور آرام و اطمینان سے رہنے لگے۔ واصف نے اپنا بزنس سنبھال لیا تھا اور سوئیٹی بھی ایک ہاؤس وائف ثابت ہوئی۔ دونوں بڑے پیار سے رہتے تھے، لیکن شادی کے بعد اب گھومنے پھرنے کے مواقع بہت کم ہو گئے تھے۔ پھر بھی سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا۔

پتہ ہے اس گھر میں شاید ایک چھوٹا سا واصف آنے والا ہے …کہتے ہوئے سوئیٹی شرما گئی، واصف یہ خبر سن کر خوشی سے پاگل ہو گیا اور سوئیٹی کو گود میں اٹھا کر گھومنے لگا۔ میں بہت خوش ہوں سوئیٹی…!میں بہت خوش ہوں۔ A Lot Of Thanks…..!۔ اس کے قہقہے پورے گھر میں گونج گئے۔

’’Congratulations واصف…!بیٹا ہوا ہے‘‘۔

’’Ohhh Thank You Doctor …اب وہ دونوں کیسے ہیں؟‘‘

’’دونوں ایک دم ٹھیک ہیں۔‘‘

’’مم میں مل سکتا ہوں …؟‘‘

’’ہاں ضرور، کچھ دیر میں‘‘، کہتے ہوئے ڈاکٹر آگے بڑھ گئی۔

سوئیٹی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے …تم ٹھیک تو ہو نا؟

’’ہاں …میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘

مجھے اتنی بڑی خوشی دی ہے تم نے میں بتا نہیں سکتا، کہتے ہوئے اس نے بچے کو گود میں اٹھا لیا اور بچہ رونے لگا۔

’’واصف آج چار دن ہو گئے ہیں، یہاں مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔‘‘

’’Relax …تم پریشان نہ ہو میں نے ڈاکٹر سے بات کر لی ہے، آج شام تک تمDischarge ہو جاؤ گی۔ اچھا تم آرام کرو، مجھے ایک کام ہے میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔‘‘

دوپہر کا وقت ہو رہا تھا اور وہ اپنے بچے کو دیکھ دیکھ کر مسرور ہو رہی تھی کہ تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔ Come in …، کہہ کر وہ دروازے کی طرف دیکھنے لگی۔ Light Pink Cotton Suit میں ملبوس ایک پر وقار خاتون اندر داخل ہوئی۔ اس کی آنکھوں پر کالا چشمہ، سر پر باقاعدہ دوپٹہ اور پیروں میں عمدہ کوالٹی کے سینڈل تھے۔ اس کے پیچھے ایک ملازم بھی تھا جس کے ہاتھوں میں ڈھیر سارے تحفے اور پھول تھے، جنھیں رکھ کر وہ چلا گیا۔

’’میں نے آپ کو پہچانا نہیں …‘‘

’’کیسے پہچانیں گی جب ہم آج پہلی بار مل رہے ہیں تو…‘‘ اس خاتون نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

’’میں آپ کے واصف کی بہت خاص دوست رہی ہوں‘‘ اس نے سوئیٹی سے قریب ہو کر آہستہ سے کہا۔

’’اور آپ کے Baby سے ملنے آئی ہوں‘‘ کہتے ہوئے اس نے بچے کو بڑے پیار سے اپنی گود میں اٹھا لیا اور اس کے ساتھ کھیلنے لگی۔

سوئیٹی کو یہ سب بہت ناگوار گزر رہا تھا، ابھی وہ کچھ کہنے ہی والی تھی کہ دروازے پر واصف نمودار ہوا۔ کچھ دیر تعجب، تذبذب اور پہچاننے میں گزارنے کے بعد وہ حیرت سے بولا، ’’رخسار تم…‘‘

رخسار مسکرا رہی تھی، واصف حیرت زدہ اس کو دیکھ رہا تھا اور سوئیٹی واصف کے چہرے کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایک پل کے لئے سکوت طاری ہو گیا۔

’’تم یہاں کیسے رخسار…؟‘‘

’’بس یوں ہی، چھوٹے سے واصف سے ملنے آئی ہوں جو بقول تمہارے میرا بھی بیٹا ہے، اس لئے اپنا ایک وعدہ پورا کرنے آئی ہوں۔‘‘

’’میں اسے Package دینے آئی ہوں جیسا کہ تمہاری خواہش بھی تھی۔‘‘ اس بار رخسار کے لہجے میں تھوڑی تلخی بھی شامل تھی۔ اس نے بچے کے ہونٹوں کو چوما اور پھر اس کے چہرے پر بوسوں کی بارش کر دی۔

’’Package ٹھیک تھا نا…؟‘‘ کہہ کر وہ واصف کا جواب سنے بغیر ہی وہاں سے چلی گئی اور سوئیٹی واصف کو گھور رہی تھی، جو ابھی بھی بت بنا کھڑا تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے