دن گزرتے جا رہے ہیں ۔۔۔ اختر شمار

دن گزرتے جا رہے ہیں

ہم بھی مرتے جا رہے ہیں

بعد تیرے

ہم دکھوں کے

آنسوؤں کے باد و باراں میں

نہتے دل کے ساتھ

بے پناہی راستوں پر

پاؤں دھرتے جا رہے ہیں

دن گزرتے جا رہے ہیں

لمحہ لمحہ خوف کے مارے ہوئے

رات دن کے وسوسوں میں

کیا خبر کیا بیت جائے اگلے پل

اس سفر میں ذہن سوچوں کے تھپیڑوں

سے ہے شل

اور ہم خود ہی سے ڈرتے جا رہے ہیں

دن گزرتے جا رہے ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے