میرا جی اور شونیتا کا تصور ۔۔۔ نادیہ عنبر لودھی

وحشت میں انسان کا آخری سہارا مذہب ہوتا ہے اور جس کے پاس یہ سہارا نہ ہو تو اس کی داخلی شخصیت ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ میرا جی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا انہوں نے اپنی وحشت کو خود پر طاری کر لیا اور اسی وحشت نے انہیں ختم کر دیا۔ میراں جی کے ظاہری حلیے کا پراگندہ پن، ان کی عجیب عادتیں، صاف گوئی اور غربت نے انہیں لوگوں کی نظروں میں منفی تاثرات کی حامل ایک مجہول سی شخصیت بنا دیا تھا۔ لوگ ان کے من میں چھپے حساس دل تک نہ پہنچ سکے اور میرا جی مر گئے۔

میرا جی کی شاعری اور ان کی نظموں کی انوکھی فضا، ان کے مضامین میں تنوع، ان کی وسیع سوچ اور جدیدیت سے بھرپور تنقیدی شعور نے انہیں اردو ادب کے جدید شاعروں کی پہلی صف میں لا کھڑا کیا۔

میرا جی کی شخصیت نفیِ ذات کا منہ بولتا ثبوت تھی اور ان کی شاعری اس سے بھی آگے کی چیز ہے۔

میرا جی کے شعور نے انہیں مصرعوں کی کانٹ چھانٹ سے آزاد کیا اور نظریہ شونیتا نے ان کے الفاظ کو امر کر دیا۔ شونیتا یعنی سوچنے کا ایسا قاعدہ جس کی رُو سے ایک ایسی سوچ تک آگہی کہ اس کائنات میں کچھ بھی، یعنی کوئی شے، کوئی بھی خیال، کوئی بھی نظریہ، کوئی بھی تصور، کوئی بھی اصول قائم بالذات نہیں ہے یعنی کسی شے کی کوئی اصل نہیں ہے۔ شونے کا مطلب ہندی میں صفر ہے۔ مطلب زیرو۔ شونیتا شونے سے ہے zero جو ایک عددی علامت ہے۔ شونیہ کے ایک معنی تو یہ ہے کہ 0۔ یعنی کہ نہیں ہے۔ اس کے مطابق اس کائنات میں موجود ہر چیز معدوم ہے۔ ہر شے پر غیاب کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ حقیقت کی اصل محض ایک واہمہ ہے۔ اپنی مطلق حیثیت سے شونیتا انسانی وجود میں (جو عارضی وجود ہے) عدم وجودیت یا آزادی مطلق کا احساس ہے۔

اس آزادی کے احساس کو میرا جی نے اپنی شخصیت پر بھی طاری کیا اور اپنے فن میں بھی اس کو لاشعوری طور پر برتا ہے۔ لیکن اس کی بنیادیں شونیتا کی جڑوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ شونیتا کی یہ نفی محض “نہیں “ میں نہیں ہے بلکہ وجود یا وجود کے احساس سے ورا جو وجود ہے اس کا احساس ہے، اس کی نفی بھی ہے۔ شونیتا کے تصور کو بہتر طور سمجھنے کے لیے ہمیں یوں سمجھنا چاہیے کہ حقیقت یا وجود اپنی جگہ پر ہے لیکن شونیتا کی فہم کے بغیر اس کا علم ممکن نہیں ہے شونیتا انسانی وجود میں (جو عارضی وجود ہے) عدم وجودیت یا آزادی مطلق کا احساس ہے۔ اسی آزادی کے احساس کو جینے کی کوشش میں میرا جی نے اپنی عجیب و غریب وضع قطع بنا کر اپنی ذات کی نفی کرنے کی کوشش کی۔ وہ شونیتا کے تصور سے بخوبی واقف تھے ان کے اشعار پر ہندی کے اثرات واضح ہیں الفاظ کے چناؤ سے خیالات تک۔ وہ خود کو ایک آزاد روح سمجھتے تھے لیکن جب آزاد ہو نہیں پاتے تھے تو اپنی نفی کرنے لگتے یہ ہی انداز اُن کی نظموں کی انفرادیت ہے۔

اندرونی کشمکش بیرونی ماحول کی شدت پسندی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتی بلکہ نفی اور اثبات کا کھیل کھیلتی رہتی ہے۔ یہ ہی کھیل میرا جی کے وجود میں جاری رہتا تھا کبھی ان کے من موجی فطرت حاوی ہو جاتی اور کبھی زیر۔ جس کا اندازہ میرا جی کی حالت ناگفتہ بہ سے ہوتا۔ وحشت کی بھرمار ان کے وجود میں ایسی آگ بھر دیتی کہ وہ اس آگ کو آنسووں سے بجھانے لگتے۔ سکون آور کیف کے لیے شاید ان کے پاس اور کوئی حل نہیں تھا یا وہ وجود کی نفی کرتے کرتے تھک جاتے تھے۔ شونیتا کے تصورات میرا جی کے مضامین میں بھی نمایاں ہو کر سامنے آئے ہیں ۔ ان کی نظر مغربی تنقیدی افکار پر بہت گہری تھی اور نظم نگاری کے فن سے وہ بخوبی واقف تھے۔ ان کی نظمیں گہری معنویت لیے ہوئے ہیں جن کی تہہ میں کئی عناصر بکھرے ملتے ہیں جن میں نفی کا جذبہ شدت سے ابھرتا چلا جاتا ہے اور اثبات کی طرف بڑھتے ہوئے ان کے قدم روک دیتا ہے وہ صفر کی دہلیز پر کھڑے ہو کر سوچتے ہیں کہ سب شونے ہے۔ لیکن وہ آس اور امید کا دامن بھی تھامے رکھتے ہیں۔

 

میرا جی کے چند مصرعے

 

———

کیوں خواب فسوں گر کی قبا چاک نہیں ہے

کیوں گیسوئے پیچیدہ و رقصاں

نمناک نہیں ہے

اشک دل خوں سے

کیوں لمس کی حسرت کے جنوں سے

ملتی نہیں مجھ کو

بے قید رہائی

ملبوس پہ کرنوں کی تمازت

ہے دام نظر کا

اور صبح شب عیش کو گیسو کا مہکتا ہوا جھونکا

مرہون سحر کا

ہوتا ہی نہیں ہے

کیوں دھوئے نہ پیراہن آلودہ کے دھبے

مخمور مسرت

کرنوں کی تمازت

بن جائے نہ کیوں رنگ شب عیش کا اک عکس مسلسل

مجبور اذیت

تو مان لے اس عکس کا منظر

دیتا ہے تجھے جام چشیدہ کی سی لذت

کیوں سوچ رہا ہے

جھوٹا ہے یہ پیالہ

(میرا جی)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے