اداس شام کی ایک نظم ۔۔۔ نوشی گیلانی

وصال رت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش ہے

کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کر دیا ہے

تمہارے ہاتھوں کا لمس جب بھی مری وفا کی ہتھیلیوں پر حنا بنے گا

تو سوچ لوں گی

رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے

امتحان میں ہے

 

ہمارے باغوں سے گر کبھی تتلیوں کی خوشبو گزر نہ پائے تو یہ نہ کہنا

کہ تتلیوں نے گلاب رستے بدل لیے ہیں

اگر کوئی شام یوں بھی آئے کہ جس میں ہم تم لگیں پرائے

تو جان لینا

کہ شام بے بس تھی شب کی تاریکیوں کے ہاتھوں

 

تمہاری خواہش کی مٹھیاں بے دھیانیوں میں کبھی کھلیں تو یقین کرنا

کہ میری چاہت کے جگنوؤں نے

تمہارے ہاتھوں کے لمسِ تازہ کی خواہشوں میں

بڑے گھنیرے اندھیرے کاٹے

مگر یہ خدشے، یہ وسوسے تو تکلفاً ہیں

جو بے ارادہ سفر پہ نکلیں

تو یہ تو ہوتا ہے یہ تو ہوگا

 

ہم اپنے جذبوں کو منجمد رائیگانیوں کے سپرد کر کے

یہ سوچ لیں گے

کہ ہجر موسم تو وصل کی پہلی شام سے ہی

سفر کا آغاز کر چکا تھا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے