غزلیں ۔۔۔ شکیل خورشید

پل تری یاد کے بہانے کے

ہم نہ بھولے، نہ تھے بھلانے کے

 

توڑ ڈالوں نہ کیوں سبھی بندھن

ضبط کے، صبر کے، زمانے کے

 

اب جو بولوں تو کھول کر کہہ دوں

بھید سارے جو تھے چھپانے کے

 

کیسے اس کے بغیر کہہ ڈالوں

تھے جو قصے اسے سنانے کے

 

زندگی اب نہ مجھ کو بھائیں ذرا

تیرے انداز دل لبھانے کے

 

ہم نے سینچے ہیں پھول جیسے شکیل

زخم وہ غم کے تازیانے کے

٭٭٭

 

 

کب تمنا کوئی ہے جینے میں

سانس بس چل رہی ہے سینے میں

 

کوہ کن ہو تو ڈھونڈ لے دل میں

کیا چھپا ہے مرے دفینے میں

 

کچھ الٹ جائے سانس کی ترتیب

ایک وحشت ہے اس قرینے میں

 

اس قدر صاف دل سے کیا مطلب

ٹھیس اک چاہیے نگینے میں

 

بات دل کی نہ لب پہ آ جائے

عذر کیا اور مجھ کو پینے میں

 

شہر میں حبس اس قدر ہے کہ بس

سانس رکتی ہے میرے سینے میں

 

دل میں کچھ درد، کچھ حسیں یادیں

بس یہی دفن ہے خزینے میں

 

اس برس بھی گزر گیا ساون

چاک دامن کے پھر سے سینے میں

 

لوٹ آتی ہے اس کی یاد شکیل

بھیگتے جنوری مہینے میں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے