غزلیں ۔۔۔ محفوظ اثر

 

برا ہے وہ تو یہ اچھا نہیں ہے

کوئی اُس شخص سے ملتا نہیں ہے

 

نظر میں اُس کی میں اُس کا نہیں ہوں

قصور اس میں مگر میرا نہیں ہے

 

اُسے اُس کی اَنا نے مار ڈالا

وہ زندہ ہے مگر زندہ نہیں ہے

 

ہجومِ رنج و غم ہیں ساتھ اُس کے

کسی لمحے بھی وہ تنہا نہیں ہے

 

ملاقاتیں کریں احباب سے کیا

ہمارے پاس تو پیسہ نہیں ہے

 

سجے ہیں عکس آئینوں میں لیکن

کوئی چہرہ بھی اُس جیسا نہیں ہے

 

اثرؔ سمجھے گا کیا وہ دوسروں کو

جو اپنے آپ کو سمجھا نہیں ہے

***

 

 

 

 

آئینہ ٹوٹا تو چہرہ بھی چلا جائے گا

رونمائی کا وسیلہ بھی چلا جائے گا

 

دھوپ میں کون گوارا کرے احساں اُس کا

پل میں دیوار کا سایہ بھی چلا جائے گا

 

مل کے ہر شخص سے بدلی ہوئی تو بات نہ کر

ورنہ برسوں کا بھروسا بھی چلا جائے گا

 

نام کے واسطے یہ خرچ تو نادانی ہے

اِس میں پرکھوں کا اثاثہ بھی چلا جائے گا

 

لطف خوشبو کا اُٹھا لے ابھی پت جھڑ میں مگر

شاخ سے پھول کا رشتہ بھی چلا جائے گا

 

سر پہ گر جائے گی دیوار یہ ڈر رہتا ہے

خود گرا دیں تو یہ خدشہ بھی چلا جائے گا

***

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے