غزلیں ۔۔۔ صابرہ امین

دردِ ہجراں سے جو سینے میں سسکتی ہے غزل

صورتِ اشک اِن آنکھوں سے ٹپکتی ہے غزل

 

مرے اشکوں کا سمندر بھی بجھا سکتا نہیں

آتشِ ہجر میں پیہم جو دہکتی ہے غزل

 

بیتے لمحات کی بارات گذرتی ہو کہیں

ایسے یادوں کے دریچوں سے جھلکتی ہے غزل

 

اس محبت میں جدائی کے عذابوں کو لیے

خوف کے سائے میں ہر شام ٹھٹھکتی ہے غزل

 

جس طرح روئے کوئی طفل کھلونے کے لئے

ایسے ناکامیِ الفت پہ بلکتی ہے غزل

 

دل کے تاروں سے نکلتے ہیں وہ نغمے جن پر

عشق کی راہوں میں بےباک تھرکتی ہے غزل

 

جیسے جذبات دھڑکتے ہوں مرے دل میں کہیں

یوں شبستان میں بے تاب دھڑکتی ہے غزل

 

عشق کی مے سے ہے لبریز مرا سارا وجود

بن پئے میرے رگ و پے میں بہکتی ہے غزل

٭٭٭

 

 

 

 

جب قدم سوئے یار اٹھتا ہے

پاؤں دیوانہ وار اٹھتا ہے

 

سوچتے ہم ہیں بارہا اس کو

درد بھی بار بار اٹھتا ہے

 

آس بڑھتی ہے اس کے آنے کی

راہ سے جب غبار اٹھتا ہے

 

دل کی روداد دل لگی ہو جب

پیار سے اعتبار اٹھتا ہے

 

جو بھی اٹھتا ہے اس کی محفل سے

ہو کے وہ اشک بار اٹھتا ہے

 

کیا کہیں اس کی خوش کلامی کا

آدمی زیرِ بار اٹھتا ہے

 

باز آئے ہم اس کی چاہت سے

اب نہ ہم سے یہ بار اٹھتا ہے

 

میرے دل سے وہ اس طرح نکلے

جس طرح اعتبار اٹھتا ہے

 

آنکھ سے اٹھتی ہے حیا پہلے

بعد اس کے وقار اٹھتا ہے

 

باپ کی آنکھ بند ہونے پر

شجرِ سایہ دار اٹھتا ہے

 

ہو کے مایوس آدمی رب سے

ہر کسی کو پکار اٹھتا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے