اختر شمار کے غم میں ۔۔۔ منصور آفاق

صبح پانچ بجے آنکھ کھلی تو اس خبر نے خانۂ دل ویران کر دیا کہ اختر شمار نے اپنی جان آفریں سپردِ حق کر دی ہے۔ بے یقینی سے در و دیوار کو دیکھا۔ زندگی کی بے ثباتی پر نظر ڈالی۔ ڈیپریشن خواب گاہ میں پھیل گیا۔ ارد گرد پڑی ہوئی چیزیں بے مایہ لگنے لگیں جنہیں بڑے شوق سے جمع کیا تھا۔ پتہ چلا کہ گیارہ بجے جنازہ ہے۔ دس بجے خالد ندیم شانی اور راول حسین کے ساتھ اختر شمار کے گھر پہنچ گیا۔ اس کے بیٹوں سے ملا۔ کچھ اور آئے ادیبوں شاعروں سے ملاقات ہوئی اور ایک درد سا سینے سے اٹھا۔ یعنی دکھ برداشت سے باہر ہو گیا تھا۔ میں وہاں سے اٹھ کر واپس گھر آگیا، دوا کھائی اور اپنے آپ کو زندہ رکھنے کا اپنے آپ سے وعدہ کیا۔ ابھی دو تین پہلے قائم نقوی نے بھی وفات پائی تھی۔ وہ بزرگ بھی بہت پرانے دوست تھے مگر اختر شمار ہے کہ دماغ سے نکلتا ہی نہیں۔

میں نے زندگی کے بارے میں اختر شمار کے نظریات پر ایک بے رحمانہ نگاہ ڈالی۔ غربت کے ایام سے لے کر ایک اچھی زندگی تک تمام مراحل کو جستہ جستہ دیکھا۔ بے شک انسانی زندگی منافقانہ طرزِ عمل کی آویزش کا نام ہے۔ نیکی و بدی کی جنگ جاری ہے مگر جنگ کے اپنے اپنے درجات ہیں۔ اسی جنگ میں کبھی انسان ماورائی ہیرو بن جاتا ہے تو کبھی انقلابی، کبھی یو گی بن جاتا ہے تو کبھی صوفی۔ یہیں کہیں سے من و تو کی تکرار شروع ہوتی ہے۔ انسان طبقوں میں تقسیم ہونے لگتا ہے۔ ویسے بنیادی طبقے صرف دو ہوتے ہیں۔ ایک طاقتور اور دوسرا کمزور طبقہ۔ باقی ساری اسی کی شکلیں ہیں۔ ظالم، مظلوم آجر و اجیر، حاکم و محکوم وغیرہ۔ کائنات کا دائرہ جوں جوں تنگ ہوتا ہے، فرد کی اجتماعی طاقتیں یک جاہو کر مزاحمت میں تبدیل ہوتی جا تی ہیں تب فرد کے اندر احساسِ ذمہ داری اور جواب دہی کے جذبات جاگنے لگتے ہیں۔ وہ دنیا کو زیادہ سے زیادہ طاقت ور دکھائی دینا چاہتا ہے وہ سمجھتا ہے وہ لوگوں میں رہ کر ان سے ماورا ہو گیا ہے۔ اسے یگانگت کا وہ درجہ میسر آنے لگتا ہے۔ یہاں ذات کا شعور ایک طرح کی بیماری بن جاتی ہے۔ جسے شعور بد بھی کہا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہی شعور ذات کائنات کی بنیادی سچائی اور آگہی ہے۔ لیکن وہ وقت کا مقروض رہتا ہے کیوں کہ کائنات کا پہیہ الٹا نہیں چل سکتا۔ اب کوئی اپنے ہونے کی نفی کرے، اپنے آپ کو گھسیٹتا پھرے زمین پر رینگے یا خود کشی کے بارے میں سوچے اسے اپنے ساتھ ساتھ کائنات کی موجودگی کا اعتراف بھی کرنا ہی پڑتا ہے۔ اسے خدا کا شعور بھی کہا جا سکتا ہے اور دنیا کا شعور بھی۔ یہی شعور ایک ایسی فلم بھی ہے جس کے ناظر ین پر فرض ہے کہ وہ اسے دیکھیں اور پھر اس کی محرومیوں پر آنسو بہاتے ہوئے مسرت محسوس کریں۔

ڈاکٹر اختر شمار اسی شعور کے درمیان کہیں بہہ رہا تھا۔ اس نے تقریباً تیس سال تک بالکل گوشت نہیں کھایا پھر اس کے بعد کبھی کبھار کھا بھی لیتا تھا۔ وہ صوفی بھی تھا اور دنیا دار بھی۔ اگرچہ زندگی اور خدا دونوں کانچ مزاج رکھتے ہیں مگر وہ دونوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ دو دن پہلے وہ اچانک ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔ خدا کے تعاقب میں روانہ ہو گیا۔ یقیناً جو کچھ اس نے جان لیا وہ آج تک کوئی نہیں جان سکا کیوں کہ کبھی کوئی گیا ہوا پلٹ کر آیا ہی نہیں۔ وہ شاید یہی جاننا چاہتا تھا۔ ہری پور میں کہیں کوئی تھا۔ شاید اب بھی ہے۔ جن سے وہ یہ کائناتی راز و نیاز کرتا تھا۔ زندگی کے آخری دن بھی انہی کے ساتھ گزارے۔ تقریباً ہفتہ بھر پہلے واپس آیا تھا۔ جب وہاں سے آ رہا تھا اس دن فون پر بات ہوئی تھی مگر اس وقت تک اس کی آواز میں ایک انوکھی چمک موجود تھی۔ مجھے کب پتہ تھا کہ یہ اس شخص سے میری آخری گفتگو ہے؟

1991 میں جب میں نے اختر شمار کی پہلی کتاب کا دیباچہ لکھا تھا تو اسے ایک صوفی قرار دیا تھا جس پر لوگوں نے بہت اعتراضات کئے کہ یہ حق کیلئے لڑنے جھگڑنے والا شخص صوفی کیسے ہوتا ہے تو میں نے ہمیشہ یہی کہا کہ صوفی ہوتا ہی وہ ہے جو حق کے لئے آواز بلند کرے۔ اور سب سے پہلے اپنا حق ہوتا ہے۔ فرحت عباس شاہ، غافر شہزاد، شفیق احمد خان سب اس کے پرانے دوست ہیں۔ فرحت نے اس کی وفات پر ماتم کرتے ہوئے کہا ’’ہائے اب میں کس سے لڑا کروں گا‘‘۔ میں نے کئی بار اختر شمار کے حوالے سے کچھ لکھنے کا سوچا اور پھر اپنی سوچ کو موخر کر دیا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ کسی دن میں اس کا نوحہ لکھنے والا ہوں۔ بالکل اسی طرح کی تکلیف مجھے اس دن بھی ہوئی تھی جب مجھے جاوید انور کی موت کی خبر ملی تھی۔ میں نے لکھا تھا۔

رُک گئیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں

دھڑکنیں حرف کی

لفظ مردہ ہوئے

سو گئیں جاگتی گھنٹیاں چرچ کی

اک سپیکر سے اٹھتی اذاں گر پڑی

ایک بہتا ہوا گیت جم سا گیا

مر گئی نظم

قوسِ قزح پہ مچلتی ہوئی

دور تک سرد سورج کی کالی چتا

راکھ چہرے پہ مل مل کے آتی ہوئی

ایڑیوں سے اندھیرے اڑاتی ہوئی

کچھ نہیں چار سو۔۔۔ تیرگی سے بھری دھول ہی دھول ہے

موت کے فلسفے کے شبستان میں

اک سدھارتھ صفت سو گیا خاک پر

رنگ پتھرا گئے

کرچیاں ہو گئیں بوتلیں خواب کی

بہہ گئی ارمغانِ حرم دشت میں

ناگا ساکی سے میت اٹھی خیر کی

صبح ِ عیسیٰؑ سے شام اپنی

خالی ہوئی

ہوچی منہ سے نیام اپنی خالی ہوئی

گر پڑا لورکا بھی

کلائی سے باندھا ہوا

ساڑھے لینن بجے کے بجے رہ گئے

بالکل وہی کیفیت ہے۔ پھر اسی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں دھڑکنیں لفظ کی مردہ ہو گئی ہیں۔ بہرحال انسان کی موت سے جنگ جاری ہے اور آخری آدمی کے آخری سانس تک جاری رہے گی۔

(بشکریہ : روزنامہ جنگ)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے