غزلیں ۔۔۔ قمر صدیقی

ہماری نیند کوئی سو گیا ہے کیا

جو تھا خوابوں کا زیور کھو گیا ہے کیا

 

سبھی چہروں پہ ہے کیوں بد حواسی اب

سبھی کا جیسے یاں کچھ کھو گیا ہے کیا

 

کوئی فریاد اب سنتا نہیں وہ بھی

کہیں پر چیف جسٹس ہو گیا ہے کیا

 

یہ کیوں تالاب دریا اور سمندر ہیں

یہاں پر کوئی آ کر رو گیا ہے کیا

 

قمر کا آئینے میں صرف چہرہ ہے

سراپا بھیڑ میں اب کھو گیا ہے کیا

 

یوں ہی شاداب چہرہ ہو نہیں سکتا

چھلک کر اشک چہرہ دھو گیا ہے کیا

 

اُگے ہیں چار سو نفرت کے پودے کیوں

دلوں میں زہر کوئی بو گیا ہے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

پیش منظر میں ہے کچھ اور کچھ پسِ منظر میں ہے

کچھ حقیقت، کچھ فسانہ رام اور بابر میں ہے

 

غم کے مارو! مختصر ہے عرصۂ تیرہ شبی

اور اس کے بعد سب کچھ پنجۂ داور میں ہے

 

خواب سارے ہو گئے ہیں نیند سے اب ماورا

پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

 

حال، ماضی اور مستقبل سبھی تو اس کے ہیں

ہستی اپنی اس کی خاطر صیغۂ مصدر میں ہے

 

قاتلا خنجر ترا اس آب سے محروم ہے

اک چمک بجلی سی جو بسمل کے اب تیور میں ہے

 

چار سو اک ہو کا عالم، ہر طرف سناٹا ہے

اب قمر بھی یوں ہی سا بیکار بیٹھا گھر میں ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے