رشید حسن خان اللہ کو مانتے تھے۔ ایک ردِّ عمل ۔۔۔ حنیف سید

 

محبِ مکرم

 

عالمی فلک ۳ میں شائع محترم رؤف خیر صاحب کے مضمون کے مطابق، رشید حسن خان نے مثنوی سحر البیان کے ایک مخطوطے کی نقل کے لیے کالی داس گپتا رضا سے کہا تھا، جس کو کالی داس گپتا رضا نے محترم رؤف خیر صاحب سے منگوا کر رشید حسن خان صاحب کو خود پہنچا دیا۔ محترم رؤف خیر صاحب نے یعقوب میراں مجتہدی کی بچی کی شادی میں رشید حسن خان کو سلام کرتے ہوئے خود کو متعارف کرایا تو رشید حسن خان صاحب نے عصا کے سہارے فوری اُٹھ کر اُن کو گلے لگایا اور فرمایا: ’’میں اپنی کتاب میں آپ کا شکریہ ادا کر رہا ہوں۔‘‘

آگے محترم رؤف خیر صاحب لکھتے ہیں: ’’حیدرآبادی ادیب شاعر پریشان تھے کہ رؤف خیر صاحب سے ملنے کے لیے خان صاحب سیٹ سے اُٹھتے ہیں اور کچھ شکریہ ادا کرنے کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ آخر ماجرا کیا ہے؟‘‘ اس حیرت کا جب محترم رؤف خیر صاحب کو اندازہ ہو گیا تو رشید حسن خان کا بھی اس حیرت سے دوچار ہو جانا لازمی تھا۔ کیوں کہ رشید حسن خان کے پاس دوسروں کے قد ناپنے کے بے شمار دراز فیتے تھے۔

اور پھر یہ بھی کہ رشید حسن خان نے مخطوطے کے لیے کالی داس گپتا رضا سے کہا تھا، جس کو کالی داس گپتا رضا نے کسی طرح رشید حسن خان کو مہیا کروا دیا۔ جس کے عوض میں رشید حسن خان نے کالی داس گپتا رضا کا شکریہ ادا کر دیا۔ بات ختم ہو گئی۔ ہاں محترم رؤف خیر صاحب کا شکریہ ادا کرتے تو کالی داس گپتا رضا کرتے۔ جب رشید حسن خان نے محترم رؤف خیر صاحب کا شکریہ ادا نہ کیا تو محترم رؤف خیر صاحب کے تن بدن میں ایسی آگ لگی کہ اُنھوں نے ڈاکٹر ٹی۔ آر۔ رینا کے خطوط اور خان صاحب کے وطن شاہ جہاں پور کے ذمہ دار شاعروں ادیبوں سے رابطہ کر کے رشید حسن خان کے نماز نہ پڑھنے اور خدا کو نہ ماننے کو اپنے مضمون میں بار بار دہرانے کی حد کر دی۔ اس مد میں یہ: ’’کوئی کیا کرتا ہے؟ محترم رؤف خیر صاحب کو اس سے کیا؟ وہ تو خود کو دیکھیں۔‘‘

مجھے لگتا ہے محترم رؤف خیر صاحب نے رشید حسن خان کے خطوط ٹھیک سے پڑھے نہیں۔ کیوں کہ ڈاکٹر ٹی۔ آر۔ رینا کے ذریعے 1827 خطوط میں تقریباً 60% خطوط میں رشید حسن خان نے لوگوں کے لیے دعائیں کی ہیں۔ ڈاکٹر نیر مسعود رضوی کی بچی کے لیے لکھا ہے: ’’خدائے پاک (اگر وہ کہیں ہے) اس بچی کو جلد تر شفا دے۔‘‘ اس جملے میں عقیدت کی بازگشت ساتوں آسمان پار کرتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ کوئی سمجھے تو سہی۔

رشید حسن خان کا ایک خط جو ڈاکٹر ٹی۔ آر۔ رینا نے رشید حسن خان کے خطوط جلد دوئم میں صفحہ ۵۹۵ پر میکشؔ اکبرآبادی کے نام شائع کیا ملاحظہ فرمائیں۔

بنام میکشؔ اکبرآبادی

F/4, Jubilee Hall

Mall Road, Delhi۔7

۱۲؍مئی۱۹۷۲ء

مخدومِ بندہ۔ نیاز مندانہ آداب بجا لاتا ہوں۔

گرامی نامے نے سرفراز کیا۔ اپنی بے توفیقی کیا عرض کروں ۵۹ء دہلی آیا تھا، خیال یہ تھا کہ اوّلین فرصت میں تاج محل کو دیکھوں گا۔ اب تک وہ ساعتِ سعید نہیں آئی ہے۔ ہر سال پروگرام بناتا ہوں اور رہ جاتا ہوں۔ اِس جنگ کے دوران بارہا یہ خیال آیا کہ خدا نکردہ اس عمارت کو کوئی نقصان پہنچ گیا تو کیا ہو گا۔ آنکھیں محروم ہی رہیں گی۔

اس بار پھر یہ ارادہ کیا ہے کہ اکتوبر کے شروع میں سفر کیا جائے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس طرح آپ کی خدمت میں حاضری دے کر سعادت اندوزی کی جا سکے گی۔ اور یہ واقعی بڑے شرف کی بات ہو گی۔ دعا فرمائیے کہ اس بار اس سعادت سے محروم نہ رہوں۔ میں تو خدا کو مانتا ہوں، پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ فسخ العزائم کے پھیر میں کیوں مبتلا کر دیا گیا ہوں۔

چوں کہ اس بار اِس سفر کے لیے آپ سے توجّہ کا طلب گار ہوا ہوں، اس لیے اس کی امید ہے کہ اب یہ سفر ضرور انجام کو پہنچے گا۔ میں یونی ورسٹی کے ہوسٹل میں رہتا ہوں اور وہاں کا پتا اوپر درج ہے۔ ملتمس ہوں کہ کبھی کبھی گرامی ناموں سے سرفراز کیا جاتا رہوں۔ آپ کا یہ شعر اکثر دہراتا رہتا ہوں۔ کیا بے مثال، بلیغ اور پر کیف شعر ہے:

بوئے گل، رنگِ چمن اور یہ عمرِ گزراں

سب ٹھہر جائیں گے، کوئی اُسے روکے تو سہی

مندرجہ ذیل جملے رشید حسن خان نے خط کے حاشیے میں لکھے ہیں جن کو ڈاکٹر ٹی۔ آر۔ رینا شائع کرنے سے بھول گئے۔ اس لیے رشید حسن خان کے دستی خط کی زیراکس ثبوتاً ارسال کر رہا ہوں:

وہ جملے اس طرح ہیں: ( اگر ممنون صاحب کو آپ کے طفیل میں سر چھپانے کی جگہ مل گئی تو خواہ آپ کی بزرگی کے لیے یہ کوئی بات نہ ہو۔ لیکن میری نیاز مندی کے لیے یہ بہت بڑی بات ہو گی۔ ایسی ہی باتوں پر سجدۂ شکر واجب ہو جاتا ہے۔ )

خادم رشید حسن

مندرجہ بالا خط کو غور سے دیکھیں۔ رشید حسن خان نے جس میں خود کو (مخدومِ بندہ۔ میں تو خدا کو مانتا ہوں۔ میری نیاز مندی کے لیے یہ بہت بڑی بات ہو گی۔ ایسی ہی باتوں پر سجدۂ شکر واجب ہو جاتا ہے) اور آخر میں رشید حسن خاں نے اپنے دونوں خطوط میں خود کو خادم اور خادم کے بعد رشید حسن خان کے بجائے صرف رشید حسن لکھا یعنی کہ اپنی خان صاحبی خود اُڑ الی۔ دیکھا محترم رؤف خیر صاحب وہ خدا کو بھی مانتے تھے اور خانوادوں کو بھی۔ محترم رؤف خیر صاحب نے رشید حسن خان کے خطوط پڑھے ہی نہیں۔ محترم رؤف خیر صاحب نے تو شکریہ ادا نہ کرنے کا انتقام لیا ہے۔

محترم رؤف خیر صاحب کے مضمون کے مطابق اگر کوئی شخص کہے: ’’میں خدا کو نہیں مانتا۔‘‘ تو یہ اُس کا ذاتی عمل ہے اس کا کسی اور سے کیا لینا دینا۔ کسی بندے کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ کسی کے دین و ایماں کے اقرار و انکار کے مسئلے پر اپنا حکم جتائے۔

رشید حسن خان کے بارے میں یہ کہ اُن کے متن کی قرأت، کلاسکی ادب کی تفہیم، صحتِ اِملا، اصولِ اِملا، اصولِ تدوین، اصولِ تحقیق، اخلاقیاتِ تحقیق، تصوّف اور تحقیق، متنی تنقید، مشرقی شعریات، علومِ بلاغت اور اصولِ اِملا، قواعدِ زبان اور مشرقی شعریات، شاعر اور علومِ بلاغت، وغیرہ ہیں، اُنھوں نے مختلف موضوعات پر ہند و پاک کی یونی ورسٹیوں، سیمیناروں اور اِملائی ورکشاپوں میں ۳۰۵؍ لکچر دیے۔ اِس کے ساتھ ہی اُنھیں اُن کے کام پر دہلی ساہتیہ کلا پریشد ایوارڈ، یو۔ پی اردو اکاڈمی ایوارڈ، غالبؔ ایوارڈ، میرؔ ایوارڈ، اکاڈمی لکھنؤ سے اِمتیازِ میرؔ اِعزاز، کراچی سے نیازؔ فتح پوری ایوارڈ، مہاراشٹر اردو اکاڈمی سے نیشنل ایوارڈ، لاہور سے محمد طفیلؔ ادبی ایوارڈ، دہلی اردو اکاڈمی سے کل ہند بہادر شاہ ظفرؔ ایوارڈ، ہریانہ اردو اکاڈمی سے نیشنل حالیؔ ایوارڈ، بھوپال سے مدھیہ پردیش اردو اکاڈمی ایوارڈ، یو۔ پی اردو اکاڈمی سے مولانا ابو الکلام آزادؔ ایوارڈ، اور بے حساب اِنعامات سے نوازا گیا۔ انھوں نے تقریباً ۳۰ نایاب کتابیں اردو ادب کو دیں۔ جو مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، جامعہ نگر، نئی دہلی اور انجمن ترقّی اردو ہند و پاک سے شائع ہوئیں۔ وہ اگر یہ سب نہ کرتے تو صرف املا ہی ان کو حیات بخشنے کے لیے کافی تھا۔

’’بے سند ہوتے ہوئے مستند سمجھے گئے‘‘ اِس مد میں محترم رؤف خیر صاحب سمجھ لیں، جب رشید حسن خاں کی سروس کے لیے دہلی سے ان کے انٹرویو کے لیے کال لیٹر آیا تو وہ گئے ہی نہیں، سوچا گیا: ’’ممکن ہے کہ اُن کو کال لیٹر ملا ہی نہ ہو‘‘ دوبارا کال لیٹر جاری کیا گیا۔ رشید حسن خان پھر بھی نہ گئے۔ وجہ دریافت کرنے پر رشید حسن خان نے بتایا: کال لیٹر میں انٹرویو لینے والے کا نام نہ تھا۔ اِس پر یونی ورسٹی میں ان کا انٹرویو لینے کے لیے کوئی تیار نہ ہوا۔ اس کے ساتھ یہ بھی تھا کہ تقرری کے لیے وہ بے سند بھی تھے۔ اس پر یونی ورسٹی کی کمیٹی نے یہ طے کیا: ’’اُن کی تقرری کے لیے نہ تو سارٹی فیکٹ کی ضرورت ہے اور نہ ہی انٹرویو کی۔‘‘ یہ سچ ہے کہ ان کے پاس کوئی ڈگری نہ تھی، لیکن بر صغیر ہند و پاک کی شاید ہی کوئی یونی ورسٹی باقی ہو جس میں اُنھیں اردو املا، قواعد زبان و شاعری، اصول تحقیق و تدوین، مشرقی شعریات کلاسکی ادب کی تفہیم، تصوّف، متن کی قرأت اور لُغت کی ترتیب و تدوین پر لکچر دینے کے لیے مدعو نہ کیا گیا ہو۔ ہندستان کی مختلف یونی ورسٹیز میں اُنھیں ایم فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کے مقالات کا ممتحن بنایا جاتا رہا۔ وہ مستند یوں ہی نہیں سمجھے گئے، ان کے کام نے اُن کو مستند کیا۔ رہی مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے کروڑوں کے نقصان کی بات۔ انھوں نے تو (علی گڑھ تاریخ ادبِ اُردو) میں ہونے والی خامیوں کی اپنے مضمون میں نشان دہی کی تھی اور وہ مضمون ماہ نامہ تحریک دہلی ماہ اکتوبر ۱۹۶۳ء میں شائع ہوا تھا۔ ان خامیوں کو کمیٹی نے محسوس کیا، اسی لیے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے وائس چانسلر نے اس کتاب کے سبھی نسخے بازار سے واپس لے کر پروجیکٹ ختم کر دیا۔

یہاں یہ بھی کہ مرزا غالب ؔنے 891، شبلیؔ نے 1119، اقبالؔ نے 1450 اور رشید حسن خان نے 1827 خطوط لکھے۔ اوروں کے خطوط میں اِدھر اُدھر کا بھی ذکر ہے، لیکن رشید حسن خان کے سارے خطوط ادبی ہیں۔

پروفیسر گیان چند جین نے رشید حسن خان کو ’’خداے تدوین‘‘، پروفیسر رفیع الدّین ہاشمی(لاہور، پاکستان) خاتم المدّوِنین) اور شان الحسن حقّی (کراچی، پاکستان) نے ’’اردو میں اصولِ تدوین کا مُجدّد‘‘ کہا ہے۔ تو یہ تھے رشید حسن خان۔

محترم رؤف خیر صاحب کے اِس مضمون کے بارے میں میرے دریافت کرنے پر مدیر احمد نثارؔ صاحب نے بتایا تھا: ’’مضمون پڑھ کر شائع کیا ہے۔‘‘ مضمون سے صاف عیاں ہے کہ رشید حسن خان کے محترم رؤف خیر صاحب کا شکریہ ادا نہ کرنے سے بھڑک کر بغض و کینہ، حسد و انتقام کی بدبو سے بھبکتا دوسروں کی پگڑی اچھالنے کے لیے محترم رؤف خیر صاحب نے لکھا ہے یہ مضمون۔ یوں تو محترم رؤف خیر کا یہ مضمون کئی رسائل میں شائع ہوا، ناچیز نے جب اُن کا مضمون عالمی فلک میں پڑھا تو مجھے محسوس ہوا کہ رؤف خیر صاحب اپنی شہرت کے لیے رشید حسن خاں کی موت کے بعد اُن کی پگڑی اچھالنے پر تلے ہیں تو میں نے مع ثبوت کے کہ رشید حسن خاں خدا کو ہی نہیں خانوادوں کو بھی اس قدر مانتے تھے کہ ان کے سامنے اپنے نام کے آخر میں خان تک لکھنے کو مناسب نہ سمجھتے تھے۔ عالمی فلک میں لکھے گیے مضمون کے جواب میں جب خدا کو ماننے کا ثبوت محترم رؤف خیر کو مل گیا تو اُن کو مطمئن ہو جانا چاہیے تھا اُس کے بعد بھی محترم رؤف صاحب کو ’سمت‘ میں وہی مضمون شائع کروانے کا مطلب یہ ہوا کہ محترم رؤف خیر واقعی بدلے اور اپنی شہرت کے لیے محترم رشید حسن خان کی ناجائز طور سے پگڑی اچھالنے پر تلے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ مضمون ’سمت‘ میں شائع ہونا اشد ضروری ہے۔ تاکہ لوگ حقیقت سے واقف ہو سکیں۔

حنیف سیّد۔ 9319529720

۳۴؍۱۲، سوئی کٹرہ، آگرہ۔

٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے