نظمیں۔۔۔ سلیمان جاذب

 

کاش

 

کاش وہ رات بھی کبھی آئے

چاند جب آسماں پہ روشن ہو

میرے آنگن میں تو اتر آئے

چاندنی یوں سمیٹ لے مجھ کو

تیری خوشبو لپیٹ لے مجھ کو

میں تری ذات میں سما جاؤں

اور تری روح میں اتر جاؤں

میری سانسوں میں تیری خوشبو ہو

تیرا پیکر ہی میرے ہر سو ہو

کاش ایسی بھی رات آ جائے

ہاتھ میں کائنات آ جائے

٭٭٭

 

 

 

مائے سوہنے

 

مائے ….مائے سوہنیے

میں اگر چاہوں بھی

خاکِ پا اوڑھ کے قدموں کی ترے

تیرے ہر حکم کی تعمیل کروں

تم پہ یہ زیست فدا کر دوں میں

زندگی بخش ہیں باتیں تیری

پر، تجھے بھی نہیں معلوم کہ اک بول ایسا ہے ترا

میں جو سنتا ہوں تو سرشار سا کر دیتا ہے

مجھ کو جو زخم ہیں دنیا دیتی

اُن کو پل بھر میں وہ بھر دیتا ہے

تیرے اس بول کی قیمت کیا ہے؟

تُو بھی یہ جان نہیں سکتی ہے

ایسی قیمت کہ چکانا مشکل

اور یہ بول ہے جی جان سے پیارا مجھ کو

زندگی بخش ترا بول کہ انمول ہے یہ

تُو مری بات کو سنتی ہے تو پھر کہتی ہے

’’جی مری جان کے ٹکڑے …. بولو‘‘

چند لمحوں میں ….ہواؤں میں …. فضاؤں اندر

کیا بتاؤں کہ حلاوت سی تو بھر دیتی ہے

یہ حلاوت یہ حرارت مجھ کو

کبھی بے آس نہیں ہونے دیتی

مختصر سا یہ ترا بول ہے انمول بہت

سر پہ یہ دھوپ میں سایہ سا کیے رکھتا ہے

ماں …. ترا قرض چکاؤں کیسے!

٭٭٭

 

 

 

 

سِلے ہونٹوں کا دُکھ

 

کارِ دنیا میں الجھ کر میں بھی

آخرش بھول گیا …کیا ہے محبت کرنا

عہدِ حاضر کے خداؤں سے بغاوت کرنا

کیا کہوں بھول گیا ہوں میں محبت کرنا

تیری آنکھیں نہ پریشاں زلفیں

کارِ دنیا میں الجھ کر میں نے

تیری الفت کو گنوا کر میں نے

آخرش میں نے یہ جاذب جانا

ہونٹ سی کر بھی نہیں، کچھ بھی کسی کو ملتا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے