آج بھی مجھے اچنبھے میں دیکھ کر وہ بوڑھا بول ہی پڑا، ’’یہ پانچ قبریں میرے پانچ دوستوں کی ہیں۔ ان پانچوں کا مجھ پر جو احسان ہے وہ میں کبھی نہیں اتار سکتا، ایسا احسان بھلا کب کسی نے، کسی کے ساتھ کیا۔ اب میرا فرض ہے کہ میں روز ان کی قبروں پر آؤں اور ان کی ارواح کے لئے دعائیں مانگوں۔‘‘
’’مجھے بھی اسی بات پر حیرت ہوتی کہ ان پانچ مختلف ناموں والی قبروں سے آپ کا بھلا کیا رشتہ ہے۔ جو آپ روز بلا ناغہ آتے ہیں۔ شاید ان سے آپ کا احسان کا رشتہ ہو؟ویسے تاریخ کے صفحات ایسے محسنوں کے ناموں سے بھی بھرے پڑے ہیں۔ جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر کے بھی دوسروں کی مدد کی۔ یقیناً اس کے پیچھے کوئی کہانی ہو گی۔‘‘
’’بجا فرمایا، یہ میرے دوستوں کی قبریں ہیں۔ ان پانچوں نے میرے لئے کچھ ہٹ کر کیا تھا۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ہم سبھی دوست ایک تجارتی سفر کیلئے بمبئی سے کراچی، ایک بحری جہاز میں روانہ ہوئے۔ اس وقت کسے معلوم تھا کہ ہماری زندگیاں بدلنے والی ہیں۔ تیسری شب ایک بھیانک طوفان میں ہمارا جہاز پھنس گیا، تجربے کار کپتان اور عملے کے دیگر افراد نے بہت کوششیں کیں، مگر وہ اسے تباہ ہونے سے بچا نہیں سکے، خوش قسمتی سے ہم سبھی چھ دوستوں کو ایک بچاؤ کشتی مل گئی۔ اور ہم اس میں سوار ہو گئے۔ اور اپنی آنکھوں سے جہاز ڈوبتے دیکھتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ شاید ہم ہی بچ پائے ہیں۔ صبح ہم نے پایا کہ ہم تھے اور دور دور تک پھیلا سمندر تھا۔ افراتفری میں کھانے کی کوئی چیز بھی اپنے ساتھ نہیں لا سکے تھے۔ کئی دن اسی بھوک پیاس کے عالم میں گذر گئے۔ ہم سبھی کی حالت انتہائی خستہ ہو چکی تھی مگر ایک دوست کی حالت تو بہت ہی خراب لگ رہی تھی۔ ہم سبھی سوچوں میں گم تھے، اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے تبھی اس نے اپنی نحیف آواز میں کہا کہ میں مر جاؤ تو پلیز مجھے سمندر برد نہیں کرنا، اپنے استعمال میں لے لینا، یہ میری تم سے گذارش بھی ہے اور آخری وصیت بھی۔ یہ کہتے ہوئے اس کی گردن لڑھک گئی۔ سبھی کے منہ سے نکلا نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔ ہم سے یہ نہیں ہو پائے، ہم کس طرح اپنے ہی۔۔۔ ؟
ہمارے دلی جذبات ہونا ایک بات تھی اور کئی دنوں کی بھیانک اور نا قابل برداشت بھوک ہونا دوسری بات، ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی یہ مکروہ فعل سر انجام دینا پڑا۔ تبھی اس حقیقت کا انکشاف ہوا کہ زندگی سے بڑھ کر پیاری کوئی دوسری چیز، انسان کو نہیں ہوتی۔ جب بات اس کی زندگی پر بن آتی ہے تو وہ اسے بچانے کیلئے سب کچھ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔
خیر جناب، ایک ایک کر کے میرے دوست مرتے رہے، اور ہم ہر مرنے والے کو کھاتے رہے جہاں تک کہ سبھی مر گئے اور آخر میں، میں بچا۔ میں کئی دنوں تک اکیلا کشتی میں پڑا رہا، تبھی خوش قسمتی سے مچھیروں کے ایک ٹرالر نے مجھے دیکھ لیا، یوں میں بچ پایا اور آج آپ کے سامنے ہوں۔‘‘
وہ اٹھا اور خاموشی سے جانے لگا۔
’’اگر آخر میں آپ ہی بچے تھے تو ان کی یہ قبریں کہاں سے آ گئیں۔ کیوں قبروں کے لئے تو۔۔۔ ؟‘‘ میں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں آواز دی۔
وہ مڑا اور شہادت کی انگلی اپنے سر پر رکھتا ہوا بولا، ’’خود ہی سوچ لو۔‘‘
٭٭٭