- S. Eliot
________________________________________
Mistah Kurtz – he dead—1
penny for the Old Guy–2
We are the hollow men
We are the stuffed men
Leaning together
Headpiece filled with straw. Alas!
Our dried voices, when
We are quiet and meaningless
As wind in dry grass
Our rats’ feet over broken glass
In our dry cellar
Shape without form, shade without colour,
Paralysed force, gesture without motion;
Those who crossed
With direct eyes, to death’s other kingdom
Remember us — if at all — not as lost
Violent souls, but only
As the hollow men
The stuffed men.
II
________________________________________
Eyes I dare not meet in dreams
In death’s dream kingdom
These do not appear:
There, the eyes are
Sunlight on a broken column
There, is a tree swinging
And voices are
In the wind’s singing
More distant and more solemn
Than a fading star.
Let me be no nearer
in death’s dream kingdom
Let me also wear
Such deliberate disguises
Rat’s coat, crow’s skin, crossed staves
In a field
Behaving as the wind behaves
No nearer —
Not the final meeting
In the twilight kingdom
III
________________________________________
This is the dead land
Here is cactus land
Here the stone images
are raised, here they receive
The supplication of a dead man’s hand
Under the twinkle of a fading star.
Is it like this
In death’s other kingdom
Waking alone
At the hour when we are
Trembling with tenderness
Lips that would kiss
Form prayers to broken stone.
IV
________________________________________
The eyes are not here
There are no eyes here
In this valley of dying stars
In this hollow valley
This broken jaw of our lost kingdoms.
In this last of meeting places
We grope together
And avoid speech
Gathered on this beach of the tumid river
Sightless, unless
The eyes reappear
As the perpetual star
Multifoliate rose 9
Of death’s twilight kingdom
The hope only
Of empty men.
V
________________________________________
How we go round the prickly pear
Prickly pear prickly pear
Here we go round the prickly pear
As five o’ clock in the morning. 10
Between the idea
And the reality
Between the motion
And the act
Falls the Shadow
For Thine is the Kingdom 11
Between the conception
And the creation
Between the emotion
And the response
Falls the shadow
Between the desire
And the spasm
Between the potency
And the existence
Between the essence
And the descent
Falls the shadow
For Thine is the Kingdom.
For Thine is
Life is
For Thine is the
This is the way the world ends
This is the way the world ends
This us the way the world ends
Not with a bang but a whimper.
٭٭٭
1925
کھوکھلے انساں ۔۔۔ منظوم ترجمہ : ستیہ پال آنند
________________________________________
[ حوالہ جات کے علاوہ مترجم کا تحریر کردہ ایک وضاحتی نوٹ آخر میں ملحق کیا گیا ہے ]
Mistah Kurtz — he dead. [1]
A penny for the Old Guy.[2]
کھوکھلے انساں ہیں ہم
بھُس بھرے پتلے ہیں ہم
(کھڑے ہیں ) اک دوجے سے سٹ کر
اپنے کنٹوپوں میں بھوسہ بھرے ہوئے، افسوس!
اور جب ہم آپس میں
کھسر پسر کرتے ہیں
ہم سب کی سوکھی آوازیں
ایسے ہی لا یعنی اور لا صوت ہیں جیسے
سوکھے گھاس میں چلتی ہوا (کا اک جھونکا)ہو ۸
یا اپنے سوکھے تہہ خانے میں
ریزہ ریزہ شیشے پر چلتے چوہوں کے پاؤں
خاکے ہیں قالب کے بغیر، سایے ہیں رنگوں سے خالی
فالج مارا جسم (ہو جیسے )، یا حرکت سے تہی اشارہ؛
سیدھی ٹِکی ہوئی آنکھوں سے (دیکھتے دیکھتے )
وہ سب جو اُس پار گئے ہیں
ملک عدم کو
ان کی ہم سب یاد ہیں، لیکن
(ان کی، اپنی جیسی) ، متشدد گم گشتہ روح کی طرح نہیں
(ان کے لیے تو)
صرف کھوکھلے انساں ہیں ہم
بھوسہ بھرے ہوئے پُتلے ہیں۔ ۱۸
II
________________________________________
آنکھیں، مجھ میں سکت نہیں ہے جن کو خواب میں بھی ملنے کی
خوابوں جیسی ملک عدم کی قلمرو میں
ان آنکھوں کا دخل نہیں ہے ؛
وہاں تو یہ
اک خستہ حال ستون پہ دھوپ سی ٹکی ہوئی ہیں
اسی جگہ پر پیڑ کوئی اک جھوم رہا ہے
اور آوازیں ہوا کے سرگم میں مدغم
ایسے لگتی ہیں
جیسے اک مدھم پڑتے تارے کی دوری سے بھی زیادہ
دور بھی ہوں اور سنجیدہ بھی ۲۸
موت کے خواب آسا اس ملک کے
پاس پھٹکنے سے میں باز رہوں تو بہتر
سوچ سمجھ کر
پہنوں گا میں بھیس بدلنے کی خاطر
چوہے کا چوغا، زاغ کی چمڑی، اور صلیب کی صورت جیسے
کھیت میں گاڑے چوبی تختے
ہو کی جیسے عادت ہے، میں (دور اڑوں گا )
پاس نہیں پھٹکوں گا اس کے ۔ ۔
کبھی نہیں (ہو گا) شام کے کہرے جیسے ملک میں اپنا
(فیصلہ کن) بالآخر ملنا ۳۸
III
________________________________________
مردہ ہے یہ دھرتی
تھور (اگاتی) مردہ ہے یہ دھرتی
اس پر پتھر کے کتبے گاڑے جاتے ہیں
اور اک مدھم تارے کی جھلمل چھایا میں
اک مردہ انسان کے اٹھے ہوئے ہاتھوں سے وہ
لیتے ہیں منتیں اور مرادیں
کیا ایسا ہی اہتمام ہے
موت کی اس دوجی اقلیم میں
ایک اکیلا صبح جاگنا
اس لمحے میں ہونٹ ہمارے ۴۸
کانپ رہے ہوتے ہیں شفقت، نرم دلی سے
خستہ کتبے کو ہم
ان ہونٹوں سے بوسہ دے کر
دعا کی قرات دہراتے ہیں
IV
________________________________________
یہاں پہ آنکھیں کوئی نہیں ہیں
کوئی نہیں ہیں یہاں پہ آنکھیں
مرگ آسا تاروں کی اس وادی میں
کھوکھلی اس وادی میں
اپنی گم گشتہ اقلیموں کے اس ٹوٹے حلق کے اندر
کیا یہ باقی بچی ہوئی وہ قطعہ ارض ہے، جس میں
ہم (اندھوں کی طرح سے )چھو چھو کر ہی اک دوجے کو ۵۸
بات چیت سے اجتناب (کرتے ہیں )
مل بیٹھے ہیں چڑھے ہوئے اس دریا کے ساحل پر
نا بینا، اس لمحے تک
جب آنکھیں لوٹ آئیں گی
جیسے یہ لافانی تارا
متعدد پتّیوں والا اک گل[۳ ]
موت کی اس دھندلی اقلیم میں
اک امید فقط ہے (باقی)
خالی خولی انسانوں کی۔
V
________________________________________
Here we go round the prickly pear ۶۸
Prickly pear prickly pear
Here we go round the prickly pear
At five o’ clock in the morning۔ [ایک]
سوچ، حقیقت۔ دونوں کے مابین
اک حرکت اور پورے عمل کے بیچ
(اگر کچھ ہے تو)
اک سایہ یا پرتو ہی ہے
For thine is the Kingdom [دو]
(کیونکہ تمہاری ہی اقلیم ہے )
حمل ٹھہرنے ۷۸
اور ولادت کے مابین(ہمیشہ)
جذبہ اور ( اس کے ) اقدام
کے درمیان (اک)
سایہ پڑتا رہتا ہے۔
Life is very long [تین] ( جیون اک لمبا عرصہ ہے )
(شہوت) کے ہیجان سے
انزالی لمحے (تک)
اپنے ’ہونے ‘
اور اس کے ’جوہر ‘کے بیچوں بیچ
گراوٹ (کے لمحے تک) ۸۸
سایہ ہی پڑتا ہے
For Thine is the Kingdom
(کیونکہ تمہاری ہی اقلیم ہے )
(صرف) تمہاری ہی ہے
زیست ہے
کیونکہ تمہاری ہی ہے (مولا)
دنیا اسی طرح سے اپنی موت مرے گی
دنیا اسی طرح سے اپنی موت مرے گی
دنیا اسی طرح سے اپنی موت مرے گی
نہیں دھماکے سے، بس رِیں رِیں کی سُبکی سے۔ ۹۸
۔۔۔۔۔
۱۔ جوزف کانراڈ (1857-1924) Joseph Conradکے ناول ’دی ہارٹ آف ڈارک نیس‘The Heart of Darkness کے ایک منظر کی باز گشت۔ مسٹر کُرٹز Mr. Kurtz کے دم نزع الفاظ ہیں۔ "The horror! The horror!”۔ مسٹر کُرٹز ایک بین الاقوامی کمپنی کے کارکن کے طور پر افریقہ کے جنگلوں میں جاتا ہے اور وہاں شیطان صفت بد کردار ہو جاتا ہے۔ یہ الفاظ ایک افریقی ملازم کے ہیں۔
۲۔ انگلستان میں گائی فاکس Guy Fawkes کا دن ایسے منایا جاتا ہے کہ بچے راہ چلتے لوگوں اور آس پڑوس کے گھروں سے ایک ایک پنس مانگ کر اور پیسے اکٹھے کر کے آتش بازی کا سامان خریدتے ہیں۔ گائی فاکس کا پُتلا بنا کر اسے نذر آتش کرتے ہیں اور گاتے ناچتے ہیں۔ 1605ء میں گائی فاکس نے انگلستان کی پالیمینٹ کو بارود سے اڑانے کی سعی کی تھی جو ناکام ہو گئی تھی۔ یہ دن اس کی یاد میں منا یا جاتا ہے۔ بچے راہگیروں یا گھروں سے پیسہ مانگتے ہوئے عموماً یہ جملہ دہراتے ہیں۔ A penny for the Old Guy.
۳۔ [ اطالوی شاعر دانتے ؔ کی پیرا ڈائیزو (Dante’s Paradiso) جو اس کے ایپک Divine Comedy ’’ڈیواین کامیڈی‘‘ کا تیسرا باب ہے ]کا ایک منظر جس میں (دوزخ سے رہائی کے بعد) روحیں خدا کے آس پاس جھکی ہوئی کچھ کہہ نہیں پاتیں لیکن رقص کی سی حرکات کر رہی ہیں۔
ایک: بچوں کی گائی جانے والی ایک نرسری راِیم Nursery Rhyme جسے طنزیہ لہجے میں بدل دیا گیا ہے۔ اصل سطر یوں ہے۔ Here we go round the Mulberry bush.مترجم نے اس کا اردو ترجمہ مناسب نہیں سمجھا کیونکہ اردو میں یہ ایک لا یعنی سعی تھی۔
دو اور تین: یہ اقتباسات مسیحی دعا کے کچھ الفاظ ہیں۔ دعائیہ سطر یہ ہے۔
"For Thine is the Kingdom, and the power, and the
glory, forever and ever. Amen.”
٭٭٭
تحقیقی اور تنقیدی حاشیہ آرائی
________________________________________
ایلیٹ نے خود تحریر کیا تھا کہ اس نے اپنی اس نظم کا عنوان یعنی The Hollow Men ولیم مورِس William Morris (1834-96)کی نظمThe Hollow Land اور رڈیارڈ کپلنگ Rudyard Kipling (1865-1936)کی نظم The Broken Men کو آپس میں ضم کر کے لیا ہے۔ ایلیٹ اکثر اپنی تلمیحوں اور کنایوں کی تشریح کر دیتا ہے لیکن نقّادوں کے مطابق اس نظم کے عنوان میں شیکسپییِر کے ڈرامے ’’جولیس سیزر‘‘ کا حوالہ بھی موجود ہے۔ جوزف کانریڈ Joserph Conrad (1857-1924)کے ناول Heart of Darknessکے کردار کُرٹز(Kurtz) جس کو Hollow sham اور Hollow at the core کہا گیا ہے، کو بھی اس عنوان کا سرچشمہ کہا جا سکتا ہے۔
انگریزی میں ایلیٹ پر اس قدر تنقیدی مواد موجود ہے کہ مندرجہ ذیل حواشی کو شاید غیر ضروری قرار دیا جائے لیکن راقم الحروف کو، انگریزی کا استاد اور اردو کا قاری ہونے کے حوالے سے اس بات کا تجربہ ہے کہ اردو قاری عموماً انگریزی تنقید پڑھنے کی زحمت نہیں اٹھاتا، اس لیے یہ حوالہ جاتی مواد پیش کیا جا رہا ہے۔
اس نظم کی آخری سطر This is the way the world endsاس سطر کی تین بار قرات اور پھر اختتامی سطر Not with a band but a whimper کیا اس کی کلیدی سطور ہیں ؟ جب ایلیٹ سے یہ سوال پوچھا گیا تو اس نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ ان کا براہ راست تعلق صرف اور صرف گائی فاکس کے گن پاؤڈر پلاٹGun Powder Plot سے تھا اور گائی فاکس کو جب پھانسی کے پھندے کی جانب کھینچ کر لے جایا جا رہا تھا تو وہ واقعی whimper یعنی ریں ریں کر رہا تھا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اس کے ذہن میں ہائیڈروجن بم کا تصور تھاجس کے ایک دھماکے سے پوری دنیا تباہ ہو سکتی ہے، اس کا جواب نفی میں تھا۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگر وہ یہ نظم آج (یعنی ۱۹۵۰ء میں ) لکھتا تو کیا وہ یہ سطور شامل کرتا، اس کا جواب تھا، نہیں ۔ ۰کچھ تنقید نگار اس نظم کو تین مختلف نکتہ ہائے نظر سے دیکھتے ہیں۔ دانتےؔ کے اور قدیم عیسائی مفروضوں کے مطابق ’روح کے تین میں سے موت کی کسی ایک قلمرو میں داخل ہونے ‘ کے بارے میں یہ تین صوبہ جات ہیں۔ یہ ہیں۔ (۱) موت کی خوابناک قلمرو dream kingdom، (۲) موت کی کہر آلود اقلیمkingdom twilight اور (۳) اصلی ملک عدم۔ ایلیٹ کا منشا، بادی النظر میں، قاری کو یہ بتانے کا ہے، کہ ہمیں، یعنی زندہ لوگوں کو، وہ لوگ جو پہلے ہی موت کی سرحد میں داخل ہو چکے ہیں، کن نظروں سے دیکھیں گے۔ (سطر 10-18اردو میں ) اس بات کی غمازی کرتی ہیں۔ ان سطروں میں ’’آنکھوں ‘‘ کا استعارہ بار بار آیا ہے۔ Eyes I dare not meet in dreams (اردو ترجمہ) ’’آنکھیں۔ ۔ ۔ جن میں سکت نہیں ہے خواب میں بھی مجھ کو ملنے کی‘‘ (سطر۔ ۔ 19 ) ان چھیدتی ہوئی، سوراخ کرتی ہوئی نظروں کی طرف اشارہ ہے جو دانتے ؔ کی بی ایٹرِسؔ Beatrice کی یاد دلاتی ہیں۔
سطر (58 سے ) آگے Gathered on this beach of the tumid river، اردو ترجمہ ’’مل بیٹھے ہیں چڑھے ہوئے دریا کے اس ساحل پر‘‘ میں دانتے ؔ کی Inferno کے تیسرے اور چوتھے ابواب سے منظر کشی کشید کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں Inferno کے اندر موجود ایک دائرے کا ذکر آتا ہے، جسے Limbo (بمعنی: اعراف) کہا گیا ہے۔ اس میں روحیں بے بس سی چاروں طرف ایک دوسرے کو ٹٹولتے ہوئے پھر رہی ہیں۔
نہ تو دوزخ کے اندر جانے کا سیدھا راستہ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی اللہ سے عفو و معافی کی کوئی سبیل نظر آتی ہے۔ اللہ سے براہ راست کلام سے عاری یہ روحیں around the prickly pear رقص کرتی ہیں۔ (اردو ترجمہ نہیں دیا گیا ہے اور بچوں کی اس نرسری رائم کو یونہی رہنے دیا گیا ہے )۔ خار دار جھاڑیوں کے ارد گرد رقص سے مراد ان باطل خداؤں کی پرستش ہے، جس میں لوگ مصروف رہتے ہیں۔
اختتامیہ نوٹ
________________________________________
1926ء میں ایلیٹ کے نئے مجموعے پر (جس میں یہ نظم بھی شامل تھی) تبصرہ کرتے ہوئے Allen Tate نے ایک نکتہ یہ پیش کیا کہ ان نظموں میں عموماً اور Hollow Men میں خصوصاً ایلیٹ کی شاعری سے اساطیری عناصر غائب ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ صرف ایک حد تک صحیح ہے کیونکہ اس نظم میں بھی دانتے ؔ سے مستعار شدہ علائم اور گائی فاکس کے براہ راست حوالہ جاتی جملوں کے علاوہ Conrad اور Frazer سے استفادہ بھی موجود ہے۔ یہ استفادہ بڑی حد تک بین المتونیت (intertextuality)کا ہے، نہ کہ دیو مالائی عناصر کی فی زمانہ جدید تفسیر کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایلیٹ نے ایذرا پاؤنڈ Ezra Pound سے یہ بھی کہا تھا کہ اس کی یہ نظم post-Waste ہے، یعنی ’’ما بعد ویسٹ لینڈ‘‘ ہے۔ یہ بھی صرف ایک حد تک ہی صحیح ہے، کیونکہ بچوں کی نرسری رایم کا ’کورس‘ chorus اور بھٹکتی ہوئی روحوں کا اعراف میں رقص نما طواف اسی تکنیک کے کل پرزے ہیں جو ویسٹ لینڈ میں اپنے عروج پر تھی۔
٭٭٭