نیا نگر ۔۔۔ تصنیف حیدر

ناول، دوسری قسط

 

نیا نگر میں ان دنوں نشستوں کا موسم سا آ گیا تھا۔  ہر نشست کے لیے پہلے کوئی بہانہ تلاش کیا جاتا۔  کسی کا جنم دن ہے، کسی کی شادی کی سالگرہ ہے، کسی نے پہلی غزل لکھی ہے، کسی نے فلاں استاد کی شاگردی اختیار کی ہے۔  الغرض طرح طرح کے بہانے ہوتے اور جب کوئی بہانہ ملنا مشکل ہوتا تو یوں بھی نشست رکھ لی جاتی۔  ایسی نشستیں خاص اور عام میں بٹی ہوئی ہوتی تھیں۔  خاص نشستیں وہ ہوتی تھیں، جن میں فدا فاضلی، ارتضیٰ نشاط، قیصر الجعفری یا کوئی ایسا ہی دوسرا بمبیا شاعر ہوتا۔  ایسی نشستوں میں پڑھنے والے کم اور سننے والے زیادہ ہوتے۔  کھانے کا خاص اہتمام ہوتا۔  چائے کے دو تین دور ہوتے اور ساتھ ہی سموسے یا نمکین جیسے دو تین آئٹم بھی تاکہ ایسے معزز مہمانوں کا منہ سوکھا نہ رہے۔  گرمی زیادہ ہوتی تو چائے کی جگہ شربت یا لسی سے تواضع کی جاتی۔  شام سات بجے ہونے والی نشست کی تیاری دوپہر کے فوراً بعد شروع ہوتی۔  پہلے تو گھر میں ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا جاتا، جہاں تیس چالیس آدمی آسانی سے بیٹھ سکیں۔  اگر کوئی فرنیچر ہوتا تو اسے اس کمرے یا ہال سے نکال کر دوسری جگہ شفٹ کر دیا جاتا تا کہ جگہ بنائی جا سکے۔  گدے سلیقے سے بچھائے جاتے اور مہمان خصوصی اور صدر صاحب کے لیے دو گدے ڈالے جاتے، جو جگہ بچ جاتی وہاں چٹائیاں لگائی جاتیں اور پھر تمام جگہوں پر سفید چادریں بچھا دی جاتیں۔  زیادہ تر شعری نشستیں ہی ہوا کرتی تھیں، افسانے وغیرہ کی نشستیں بھی اکا دکا سال میں کہیں ہو جاتیں، مگر اول تو اس میں سامعین ہی کم بلائے جاتے اور اگر لوگوں کو پتہ بھی ہوتا تو وہ غزل کے مقابلے میں گاڑھی ادبی کہانیاں سننے سے پرہیز ہی کرتے۔  کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ دو فریقین آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ایک ہی دن نشست رکھ لیتے اور پھر حاضرین کی اہمیت اور سامعین کی تعداد سے ایک دوسرے کی شعری یا ادبی حیثیت کا اندازہ لگایا جاتا۔  عام طور پر شاعری کی ان نشستوں میں پڑھنے والوں کی جو لسٹ بنتی تھی اس کے حساب سے پندرہ یا سولہ یا کبھی کبھار دس بارہ شاعر ہی اس میں شرکت کرتے تھے۔  مگر ان آفیشیلی طور پر ایسی نشستوں میں کبھی کبھی پڑھنے والوں کی یہ تعداد چالیس سے بھی تجاوز کر جاتی تھی۔  اسی لیے تو اکثر ہی نشست ختم ہوتے ہوتے صبح ہو جاتی۔  حالانکہ نشست کی خاصیت یہ مشہور تھی کہ یہاں مشاعروں جیسی ہو ہلڑ، بد مذاقی اور بے جا تعریف کا وجود نہیں ہوتا مگر نشست کے کامیاب ہونے کی بھی دھیرے دھیرے وہی شرط سمجھی جانے لگی جو کہ مشاعرے کی تھی۔  یعنی کہ اس میں کتنے آدمیوں نے شرکت کی۔  کتنے شاعروں نے کلام سنایا۔  کس کس کو غور سے سنا گیا، کس کو بالکل داد نہیں ملی۔  ان سب باتوں کا ذکر ایک نشست سے دوسری نشست کے درمیانی عرصے میں دوستوں یاروں کے بیچ ہوتا رہتا تھا، جبکہ اس کا موقع کم ملتا تھا۔  حالانکہ زیادہ تر اساتذہ فن اور کامیاب شعرا کے نزدیک جو دن بلکہ رات نشستوں کے لیے بالکل مناسب سمجھی جاتی تھی وہ تھی، سنیچر کی رات۔  جنگل میں منگل اتنا زور دار کیا ہوتا ہو گا جتنا نیا نگر میں سنیچر ہوا کرتا تھا۔  نشست کے لیے مقررہ وقت سے پہلے ہی سننے والوں کے ساتھ ساتھ اہل خانہ کے دوستوں اور کبھی کبھار شوقین پڑوسیوں کا بھی آنا جانا شروع ہو جاتا تھا۔  پہلے چند لوگ جمع ہوتے اور گھر کی عورتوں اور لڑکیوں سے ایک بناوٹی پردہ رکھتے ہوئے سرگوشیوں میں زٹل گوئی، فحش قصوں، اول جلول باتوں کا خوب لطف لیا جاتا۔  ناظم عباسی ہر نشست کی شروعات میں ایک قصہ ایسی ہی پوشیدہ نشست قبل از نشست میں ضرور سناتے۔  اور اتفاق یہ تھا کہ سینکڑوں بار سنے گئے اس قصے کو لوگ ایسی دلجمعی سے سنتے گویا پہلی بار سن رہے ہوں۔  قصہ گو مذہبی نہیں تھا، مگر ایک مولوی کا تھا۔  اردو کی تین چار سو سالہ جو بھی تاریخ رہی ہے، اس میں روایتی مذہب کا ٹھٹھا ہمیشہ ہی شاعروں نے اڑایا ہے۔  اس سے مراد یوں تو دکھاوے کی عبادت پر وار کرنا تھا، مگر رفتہ رفتہ ملاؤں، واعظوں اور ناصحین کا مذاق ادیبوں اور ادب پسندوں کا وتیرہ ہی بن گیا اور پھر کب اس روایت سے نکلے ہوئے لطیفے عوام میں تیر گئے پتہ ہی نہیں چلا۔  اس لیے بعض اوقات ایسے بڑے بڑے ثقہ اور متشرع قسم کے لوگ بھی ملاؤں کے لطیفے سناتے ہوئے مل جائیں گے، جو عام حالات میں مولوی کے احترام کے لیے لڑ مرنے تک کو تیار ہو سکتے ہیں۔  الغرض ناظم عباسی قصہ یوں سناتے:

’ایک مولوی کو کسی کمیونسٹ شخص کی ماں نے دعوت پر گھر بلایا۔  کھانا پروسا گیا تو اہل خانہ اور مہمان کو جتنی بوٹیاں تقسیم ہوئیں۔  اس کے بعد فقط تین بوٹیاں ڈونگے میں بچی رہ گئیں۔  مولوی کی نگاہ بڑی پینی تھی۔  اسے مزید بوٹیاں چاہیے تھیں، مگر کہے تو کہے کیسے۔  بہرحال گلا کھنکھار کر بڑی سنجیدگی سے گویا ہوا۔  قربان جاؤں اپنے آقا صلعم پر، واہ واہ کیا شخصیت تھی آپ کی۔  اوہو ہو ہو ہو۔۔۔۔  کیا بات ہے۔  گھر والوں نے استفہامیہ لہجے میں اس کی طرف دیکھا تو اس نے بات آگے بڑھائی۔  آپ صلعم فرماتے ہیں کہ اگر تمہارے گھر کوئی مہمان آ جائے اور تمہارے ڈونگے میں محض ایک بوٹی ہو تو مہمان کو دے دو اور خود شوربے پر قناعت کر لو، دو بوٹیاں ہوں تو ایک مہمان کو دو، ایک خود تناول کرو اور اگر بفرض محال تمہارے ڈونگے میں تین بوٹیاں ہوں تو ایک خود کھاؤ اور دو مہمان کی پلیٹ میں ڈال دو۔ ‘ اس قصے کو سنا کر اس نے حاضرین پر ایک بھرپور عقیدتمندانہ جوش سے نظر ڈالی مگر اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سمجھتا، وہ کمیونسٹ صاحب اٹھے اور مولوی کی گدی پر دو طمانچے جڑ دیے۔  پھر تو وہ تواضع ہوئی کہ مولوی کی عقل ٹھکانے پر آ گئی۔  کمیونسٹ صاحب کا اعتراض تھا کہ بوٹیاں چاہیے تھیں تو سیدھے سیدھے مانگ لیتا۔  اس کے لیے عالم اسلام کی اتنی عظیم شخصیت کے بارے میں جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ ‘ اسی مولوی کا یا شاید کسی دوسرے سنی مولوی کا ایک قصہ اور سناتے، جو کہ کچھ اس طرح تھا۔

’ممبئی میں چیلا لوگوں کے کئی ہوٹل ہیں۔  اب یہ تو سبھی کو پتہ ہے کہ چیلا مذہب سے مسلمان اور عقیدے سے وہابی ہوتے ہیں۔  کماٹی پورہ کے ایسے ہی ایک چیلا کے ہوٹل میں ایک سنی بریلوی مولوی گھس گیا۔  بھر پیٹ کھانا کھایا اور آخر میں چپکے سے ایک بوٹی پر کہیں سے نکال کر ایک بال چپکا دیا۔  اور لگا واویلہ کرنے کہ ہائے ہائے! کھانے میں نہ جانے کہاں کا بال کھلا دیا۔  اب کبھی الٹیاں کرنے کا ڈھونگ کر رہا ہے تو کبھی بھونڈی بھونڈی گالیاں ہوٹل کے مالک کو بک رہا ہے۔  بے چارہ مالک ہکا بکا تو تھا ہی، اس نے سمجھا بجھا کر مولوی کو چپ کرایا اور ہاتھ جوڑ کر عرض کی کہ بھائی۔  جس پلیٹ میں بال نکلا، اس کے پیسے مت دو، مگر باقی پکوانوں کا تو بل ادا کر دو، جن میں کوئی خرابی نہیں تھی۔  اس بات پر بھڑک کر پہلے تو مولوی نے کسی بہانے سے غوث اعظم پیر دستگیر کی قسم کھائی، پھر نہ جانے کب، اچانک ہی ہوٹل کے مالک پر چلانے لگا کہ تم نے غوث پاک کی شان میں گستاخی کی ہے، تم وہابی جان بوجھ کر ہم بریلویوں کو یہ غلاظت پروس رہے ہو، یہ ایک سازش ہے۔  فلانا ڈھمکانا، الغرض اتنا ہنگامہ کیا کہ ہوٹل کے مالک کے ہوش اڑ گئے، وہ عجیب مصیبت میں پھنس گیا تھا، اس کے ہوٹل میں کئی دوسرے بریلوی مسلمان بھی کھانا کھاتے تھے، کچھ تو مستقل گاہک بھی تھے، اس نے سوچا کہ پتہ نہیں یہ مولوی کون سا دنگا فساد کرا دے چنانچہ بجائے اس سے کچھ لینے کے، مالک نے اسے کچھ دے دلا کر، ہاتھ پیر جوڑ کر رخصت کیا۔ ‘

زٹل گوئی کا بھی ایک ایسا ہی خاموش دور چلتا۔  کئی شاعر آپس میں لکھی ہوئی زٹلیں ایک دوسرے کو سناتے۔  کبھی کبھی مشہور شعرا کے کلام پر لکھی گئی ایسی فحش تضمینیں پیش کی جاتیں کہ سننے والے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے۔  ایک خاص بات جو ان نشستوں میں دیکھی جاتی، وہ یہ تھی کہ بڑے بڑے استاد نئے پرانے شاعروں کے یہاں ’ذم کے پہلو‘ کا بڑا لطف لیتے۔  مجید صاحب نے ایک بار خود اپنے شاگردوں کو اس بارے میں سمجھاتے ہوئے بتایا۔

’اردو شاعری ہی محض ایسا مشکل فن ہے کہ ہر کوئی اس تلوار سے باریک پل سے نہیں گزر سکتا۔  بہت کچھ دھیان دینے کی چیزیں ہیں۔  شتر گربہ نہ ہو، اضافت کے بعد اعلان نون سے بچا جائے، شکستہ بحروں میں بات بیچ سے نہ ٹوٹے اور سب سے اہم ہے ذم کے پہلو کا خیال۔  ذم کے لغوی معنی ہیں برائی کے۔  شعر کہتے وقت یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی کوئی بات تو نہیں ہو رہی، جس سے شاعر کا اصل مدعا پیچھے چھوٹ گیا اور کوئی برائی کا پہلو نکل آیا، جس سے سنجیدہ موضوع پر لوگوں کا دھیان جانے کے بجائے اور الٹا ہنسنے کا کوئی بہانہ مل جائے۔ ‘

کسی نے پوچھا ’استاد اس کی کوئی مثال بھی تو بتا دیجیے۔ ‘

مجید صاحب ایک دو منٹ خاموش رہے۔  پھر کہنے لگے۔  ’غالب کا ایک مصرع ہے، شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے۔  اب کوئی پڑھے تو پوچھے کہ بھئی، شمع بجھتی ہے تو ’اس‘ میں سے دھواں کیسے نکلتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ لفظ دماغ کو ایک فحش سمت میں لے جاتا ہے، اور سننے، پڑھنے والے کو اس پر بے ساختہ ہنسی بھی آ سکتی ہے۔ ‘ ایک دو لوگ اس وقت بھی زیر لب مسکرانے لگے۔  دھیرے دھیرے کئی لوگ ذم کا پہلو ایک دوسرے کی شاعری میں ڈھونڈنے لگے۔  نجیب نے اس بات پر غور کیا تو اسے لگا کہ کیا ایسی شاعری ممکن ہے، جس میں ذم کا پہلو تلاش نہ کیا جا سکے؟ کیا یہ بھی شاعری کی ایک خوبی ہے؟ مطلب کوئی بھی شخص یہ، وہ، اس اور اُس کے استعمال سے خود کو کیسے روک سکتا ہے، اب اس سے پڑھنے والا کوئی تیسرا ہی مطلب نکال کر ہنسنا چاہے تو کیا اسے روکا جا سکتا ہے۔

مجید صاحب کے یہاں شاگردوں کا حال یہ تھا کہ وہ نہ صرف شعر پر اصلاح لیتے تھے، بلکہ ان کا تلفظ بھی درست کروایا جاتا تھا، ان کو معنی آفرینی، علامت، تشبیہہ اور استعاروں کے اسرار بھی سمجھائے جاتے تھے۔  دہلی اور لکھنؤ اسکولوں کے فرق پر لمبی چوڑی باتیں بھی ہوتی تھیں۔  ایک دفعہ مجید صاحب اپنے کسی شاگرد سے غالب کا متداول دیوان پڑھوا کر سن رہے تھے۔  تین چار دوست اور بیٹھے تھے۔  اس نے تلفظ میں چار پانچ جگہوں پر فاش غلطیاں کیں تو جھلا کر بولے۔

’یہ غالب کا کلام ہے میاں! سمجھ کر اور دھیان سے پڑھو، کہیں محفل میں اتنا غلط پڑھو گے تو بے عزتی ہو سکتی ہے۔  ایک دفعہ کوئی صاحب ایسے ہی غلط سلط کلام غالب پڑھ رہے تھے۔  اب اردو میں زیر زبر تو لگے نہیں ہوتے، موصوف نے جب یہ مصرعہ پڑھا کہ” پینس میں گزرتے ہیں وہ کوچے سے جو میرے” تو پینس کے ’ن‘ کو مفتوح کے بجائے مکسور پڑھ دیا۔  یعنی جہاں زبر لگانا تھا، وہاں زیر لگا دیا۔  ایک ذرا سے فرق سے کتنا بھدا مذاق بنا ان کا۔ ‘

مگر شاگرد اور دوسرے لوگوں کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔  مجید صاحب نے غصے سے کہا۔

’آپ لوگوں کو نہ ہندی آئے نہ انگریزی، کس برتے پر اردو شاعری کر رہے ہیں؟‘

یہ بھی سمجھنا مشکل ہے کہ لوگ وہاں کچھ سیکھ بھی پاتے تھے یا نہیں، مگر انہیں یہ اطمینان ہوتا تھا کہ وہ مجید صاحب کی ڈانٹ کھا کر بھی ایک عزت دار زندگی کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔  شاعری سے اور کچھ ملتا ہو یا نہ ملتا ہو۔  اس میں کتنا ہی وقت کھپایا جاتا ہو۔  مگر اردو شاعری کی ایک پرانی روایت ہے کہ اگر دو لوگ موجود ہوں اور ایک آدمی شعر پڑھ رہا ہو تو دوسرا واہ واہ کی صدا ضرور بلند کرے گا۔  یہ واہ واہ، در اصل حوصلہ افزائی بھی کرتی تھی اور قدم بھی تھام لیتی تھی۔  یہ ایک نشے کی طرح تھی۔  اس کے لیے لوگ استاد کی گالیاں کھا سکتے تھے، ان کے گھٹنے دبا سکتے تھے اور انہیں طرح طرح کی مٹھائیاں لا کر کھلا سکتے تھے۔  ان میں سے زیادہ تر لوگ ایسے تھے، جن کی سماجی اور معاشی حیثیت خود بہت مضبوط نہیں تھی۔  جن کے کام دھندے چل بھی رہے تھے، ان کو موئی شاعری کی لت چوپٹ کیے جا رہی تھی۔  وہ شاعری کرتے تھے، کسی رسالے میں چھپنے کے لیے نہیں، ادب میں کوئی بڑا نام بننے کے لیے نہیں۔  بلکہ کسی نشست میں تیس چالیس لوگوں کے درمیان واہ واہ کی گونج سننے کے لیے۔  ایسی تعریف، جو انہیں زندگی کے کسی اور شعبے میں نہیں ملتی تھی۔  اس سے انہیں احساس ہوتا تھا کہ وہ بھی قابل تعریف ہیں، ان کو بھی پسند کیا جا سکتا ہے۔  بھلے ان کی آتمائیں زخمی ہوں، بھلے ان پر بھاری قرضوں کے بوجھ ہوں، بھلے سماجی طور پر انہوں نے کسی کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہو یا خود فریب کھائے ہوں۔  مگر نشستیں ان کی جان تھیں۔  اس کے لیے وہ خوشامدیں بھی کرتے تھے، بے عزتیاں بھی جھیلتے تھے۔  اور گھنٹوں اپنے کام دھندے چھوڑ کر استاد کے گھر دھیان مگن مدرا میں بیٹھے رہ سکتے تھے۔

مجید صاحب کے شاگرد چاہے کتنے زیادہ ہوں، ان کے یہاں نشستوں میں کیسی ہی رونق کیوں نہ لگی رہتی ہو۔  مگر تُرپ کا اکا ابھی بھی یوسف جمالی کے ہاتھ میں ہی تھا۔  یعنی سالانہ مشاعرہ۔  حالانکہ ابھی اس میں وقت تھا۔  مگر یوسف جمالی نے کسی طرح یہ خبر اڑوا دی کہ مشاعرے کی فہرست اندر اندر تیار ہو رہی ہے اور کچھ لوگوں کے نام شامل کیے جا رہے ہیں، کچھ کے نکالے جا رہے ہیں۔  نشست میں جم کر تعریف حاصل کر سکنے والے خوشامدیوں کو اب مشاعرہ پڑھنا تھا۔  مشاعرہ، جس میں ایک پنڈال لگتا ہے، کسی صاحب عزت مقرر، نیتا یا پھر روحانی رہنما کی طرح سٹیج پر کھڑے ہو کر لوگوں پر سحر پھونکنے کا موقع ملتا ہے۔  جہاں کی واہ واہ چار دیواری اور آس پڑوس میں گھر کر نہیں رہ جاتی بلکہ میدان میں بھنگڑا ڈالتی ہے۔  واہ واہ کی تالیاں نہیں، نگاڑے بجتے ہیں۔  سیٹیاں بجتی ہیں۔  تعریف کا بھوت بے تاب ہو کر تانڈو کرنے لگتا ہے، ایسی تعریف جو سر پر چڑھ کر بولتی ہے۔  وہ تعریف جس کا چھوٹا سا حصہ بھی اگر شاعر کی جھولی میں آگرے تو اگلے ایک سال میں تو اس کی عزت میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہو سکتی ہے۔  پھر مشاعرے کی تعریف اور اس میں کامیابی کے ذکر سے ملتے ہیں اور مشاعرے۔  نیا نگر کا مشاعرہ، پھر بھیونڈی کا، پھر اندھیری کا، پھر بھوپال کا، بنارس کا، امرتسر کا، اس کے بعد دہلی میں ہونے والا جشن جمہوریت کا مشاعرہ اور پھر قسمت جاگتے ہی شاعر لوگ تو امریکا اور یورپ کا ٹور کرنے بھی چلے جاتے ہیں اور ایک دو نہیں، اپنے دور سفر میں پورے اکیس بائیس مشاعرے پڑھ کر دنیا جہان کی دولت سمیٹ کر گھر لوٹتے ہیں۔  پھر زندگی بھر مشاعرے ہی مشاعرے ہوتے ہیں۔  بس یہی تو حاصل کرنا ہے۔  اب اشرف نانپاروی کو ہی دیکھیے۔  کل تک اس کے سر پر ایک میلی کچیلی دو پلی ٹوپی ہوا کرتی تھی۔  کرتا پائجامہ بالکل میلا چیکٹ، سلیپریں بھی گھسی ہوئی۔  اس کے بارہ بچے تھے، سات لڑکیاں، پانچ لڑکے۔  بیوی وقت سے بہت زیادہ بوڑھی اور بیمار۔  مگر اس نے مجید صاحب کے یہاں وقت گزارنا شروع کیا۔  مجید صاحب کے ہی مشورے پر اس نے رومانی شاعری چھوڑ کر نعتیں لکھنی شروع کیں اور انہیں ترنم میں پڑھنا بھی۔  اس کی آواز بھی تو بالکل بانسری جیسی تھی۔  گلا منجھا ہوا۔  جب وہ نعت پڑھتا تو عقیدت کے مارے کئی لوگوں کے دل جوش سے رقت زدہ ہو جاتے۔  خود مجید صاحب کی بیوی دوپٹے سے منہ چھپا کر رو دیتیں۔  مجید صاحب کے ہی حکم پر اس نے ممبرا کا پہلا مشاعرہ پڑھا تھا۔  ایک نعتیہ مشاعرہ۔  وہاں اس کی ایسی قدر ہوئی، اتنا ہاتھوں ہاتھ لیا گیا کہ صحیح معنوں میں اس کی آواز کے جادو نے مانو چھتیں اڑانے کا محاورہ سچ کر دیا ہو۔  لوگ مائک پر سے ہی ہٹنے ہی نہ دیتے تھے۔  اس مشاعرے کے بعد تو ایسی کایا پلٹی اس کی کہ کیا بتایا جائے۔  شروع شروع میں ممبئی میں مشاعرے پڑھے، مگر دو تین مہینوں میں نیشنل اور انٹرنیشنل مشاعروں تک وہ پہنچ گیا۔  ایسی دھوم اس کی مچی کہ اسے مجید صاحب تک کے یہاں آنے کی فرصت نہ ملتی تھی۔

۰۰۰

 

نیا نگر کا نقشہ کچھ یوں ہے کہ سڑکیں چوڑی ہیں۔  چوک پر ایک سبز رنگ کی شیعہ مسجد ہے اور بیچوں بیچ ایک ہرا اسلامی جھنڈا گڑا ہوا ہے۔  موسم چونکہ مرطوب ہے، اس لیے ہوا کبھی دھیمی ہوتی ہے، کبھی تیز مگر حبس کی کیفیت بہت کم ہوتی ہے۔  بلڈنگیں عالی شان بھی ہیں، کچھ کامپلیکس ایسے دیدہ زیب بنائے گئے ہیں کہ دور و نزدیک دونوں جگہوں پر دیکھنے سے شاندار معلوم ہوتے ہیں۔  دھیرے دھیرے خالی پلاٹس، جن پر گہرا کائی زدہ پانی اور دنیا جہان کا کچرا تیرتا رہتا ہے، بڑی بڑی بلڈنگوں سے مزین ہوتے جا رہے ہیں۔  گوشت خوروں کا محلہ ہے، چنانچہ کتے بہت زیادہ ہیں۔  رات برات گاڑیوں کی لال روشنیوں کا پیچھا بھی کرتے ہیں۔  ایک بہت بڑی مسجد بازار کے وسط میں بنائی گئی ہے، جس کا رقبہ قریب ڈیڑھ دو ہزار گز سے کم ہرگز نہیں ہے۔  بازار میں باقی دوکانوں کے ساتھ بہت سے ریستوران اور کتابوں کی دوکانیں بھی جلوہ افروز ہیں۔  ایسی ہی ایک کتاب کی دوکان ہے، شہرت بک شوپ۔  اس کتاب میں سکول کی کتابوں کے ساتھ مقبول اردو ہندی ڈائجسٹیں اور پرانے جاسوسی ناول بہت کم قیمت پر دستیاب ہو جاتے ہیں۔  نجیب اکثر یہاں آیا کرتا ہے۔  دوکان مسجد کے بالکل سامنے ہے، مگر ان جاسوسی کتابوں کا ڈھیر دوکان کے پچھلے حصے میں لگا رہتا ہے، جن میں سے کتابیں چھاٹ کر لینی پڑتی ہیں۔  وہ یہاں سے جیمز ہیڈلے چیز، اگا تھا کرسٹی، ہیرلڈ رابنس، سڈنی شیلڈن اور جیفرے آرچر وغیرہ کے تراجم تو لے ہی جاتا ہے، ساتھ ہی ساتھ ستیہ جیت رے کی فیلودہ سیریز اور ابن صفی کے ناولوں کا بھی وہ رسیا ہے۔  جو پیسے بھی اسے اپنے دوستوں، نئے نئے شاگردوں سے ملتے ہیں، وہ کتابوں کے لیے بہت ہیں۔  ایک پرانی کتاب پانچ روپے میں مل جاتی ہے۔  اگر واپس کی جائے تو ان کا دو یا ڈھائی روپیہ واپس بھی مل جاتا ہے۔  خود مجید صاحب کے پاس بہت سی کتابیں ہیں، مگر جب وہ نیا نگر میں آئے تو ان دو ڈھائی ہزار کتابوں کے مختلف کارٹن ان کے ایک دوست قاری مستقیم کے یہاں رکھوا دیے گئے تھے۔  قاری مستقیم کی شوپ میں یوں تو ایک زیروکس مشین لگی ہے اور ساتھ ہی ان کی نئی نئی بیوی ڈیٹا انٹری کا کام بھی کرتی ہیں، چنانچہ ان کے یہاں بھی ادیبوں شاعروں کا اکثر جمگھٹ لگا ہی رہتا ہے۔  ایک سبب یہ بھی ہے کہ دوکان کے برابر زیادہ تر سناٹا رہتا ہے، پرلی طرف صرف ریل کی پٹریاں بچھی ہیں، جہاں سے ہر پندرہ بیس منٹ بعد ایک لوکل ٹرین مسافروں کو لادے دھڑ دھڑ کرتی گزر جاتی ہے۔  مگر اب یہ قاری مستقیم، ان کی نئی نویلی بیوی اور دوست و احباب کے لیے ایک روزمرہ کی سی بات ہو گئی ہے، چنانچہ ان کی گفتگو میں اس دھڑ دھڑ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔  آج قاری مستقیم کی دوکان پر جو دوست جمع ہیں، ان میں ادب نما نامی اردو رسالے کے ایڈیٹر کامل امام، مرزا امانت، ناظم عباسی، نظر مراد آبادی، مجید صاحب اور نیا نگر میں ان کے سب سے گہرے دوست معقول نقوی بھی براجمان ہیں۔  نجیب ایک صوفے پر نظر مراد آبادی اور طائر امروہوی کے درمیان دھنسا بیٹھا ہے۔  اس کا قامت مناسب ہے، رنگ گہرا سیاہ اور پسینے سے بھیگے ہوئے چہرے پر پھوٹتی ہوئی مسیں صاف دکھ رہی ہیں۔  بات یہ ہے کہ آج مجید صاحب کے کہنے پر قاری مستقیم نے ان سبھی دوستوں کو دعوت دی ہے۔  نظر اور طائر نجیب کے خاص بلاوے پر آئے ہیں اور مدعا یہ ہے کہ نجیب کی لکھی ہوئی ایک کہانی ان تمام لوگوں کو سنائی جائے۔  ابھی اردو کے ایک بڑے افسانہ نگار کا انتظار ہو رہا ہے اور چائے پروسی جا چکی ہے۔  مجید صاحب کونے میں بیٹھے قاری مستقیم کی بیوی سے متانت کے ساتھ کھسر پھسر کر رہے ہیں۔  سب طرف ایک دبیز خاموشی ہے، اتنے میں الطاف کیفی اپنے ایک دوسرے دوست شریف حسین کے ساتھ اندر آ جاتے ہیں۔  حالانکہ ان دونوں کو کسی نے بلایا نہیں ہے، مگر ان کی جوڑی پورے نیا نگر میں آوارہ خرامی اور مفت خوری کے لیے کافی مشہور ہے۔  نیا نگر میں الطاف کیفی اور شریف حسین دونوں ہی ابتدا میں یوسف جمالی کے شاگرد رہے تھے، مگر کسی بات پر ان بن ہوئی۔  بات یہ تھی کہ یوسف جمالی کو انہوں نے بر سر محفل کسی بات پر شراب اراب پی کر بہت سی گالیاں بکی تھیں۔  شعر گوئی بھی دوسرے دن سے ہی غصے میں ترک کر دی تھی اور ڈرامے اور افسانہ نگاری کا رخ کیا تھا۔  مگر مسئلہ یہ تھا کہ دونوں کا ہی اردو املا بہت خراب تھا۔  مجید صاحب ان دنوں نیا نگر آئے نہیں تھے۔  ایک روز الطاف کیفی سہہ پہر کے وقت یوسف جمالی کے گھر گئے، یہ یوسف جمالی کے قیلولہ کا وقت تھا کیونکہ وہ دوپہر کا کھانا ہمیشہ دیر سے کھایا کرتے تھے۔  اس وقت کوئی اور تھا نہیں، یہ لگے معافیاں مانگنے۔  یوسف جمالی کا ہاتھ پکڑ کر ان کی عظمت کا بکھان کرنے لگے۔  بتانے لگے کہ اس روز شراب کے اثر نے انہیں اندھا کر دیا تھا جو وہ یوں یوسف جمالی کی شان میں اول فول بک گئے۔  یوسف جمالی یہ سب دیکھ کر اندر ہی اندر خوش تو ہو رہے تھے مگر انہیں الطاف کیفی کی اس کایا کلپ کا سبب سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔  کیا ایسے بھی کسی کا دل پلٹتا ہے، کیا ایسے بھی پتھر موم ہوا کرتے ہیں، اتنا اکڑفوں کرتے تھے، اب شاید سمجھ آئی ہو کہ استاد استاد ہوتا ہے۔  مگر اس معافی تلافی کا راز تب کھلا جب الطاف کیفی نے ایک بڑے سائز کا لفافہ یوسف صاحب کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ ’یہ میری زندگی کا پہلا افسانہ ہے، اپنی لکھنؤ کی زندگی پر لکھا ہے، اگر آپ اسے لکھنؤ سے نکلنے والے سب سے اہم ادبی رسالے ’قلم‘ میں شائع کروا دیں تو میں آپ کا بڑا احسان مند ہوؤں گا۔  مگر اس سے پہلے آپ اس کا املا ضرور دیکھ لیں، وہ کیا ہے کہ میری اردو تھوڑی ناقص ہے، املا کچھ کمزور ہے۔ ‘ یوسف جمالی نے لفافہ تھاما اور ایک بڑا فکر انگیز ہنکارا بھرا۔  الغرض چائے وائے پی کر جب الطاف کیفی رخصت ہونے لگے تو کئی دوسرے لوگ بھی وہاں استاد سے ملنے آن پہنچے تھے۔  کچھ تو ان میں سے الطاف کیفی کو وہاں دیکھ کر سخت حیران بھی ہوئے۔  مگر استاد کی آنکھیں اور الطاف کی جھکی ہوئی پلکیں اور بندھے ہوئے ہاتھ دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ وہ معافی مانگنے آئے ہیں اور اسے حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔  جب دست بستہ کھڑے ہو کر الطاف کیفی نے چلنے کی اجازت چاہی اور استاد نے شفقت بھرا اشارہ بھی کر دیا تو وہ جاتے جاتے اچانک پلٹے اور استاد کے نزدیک آ کر کان میں کہا ’استاد! قلم صرف املا پر چلائیے گا، میرے جملوں پر نہیں۔ ‘ وہ تو چلے گئے، مگر یوسف جمالی کو ان کی اس جرات پر بہت غصہ آیا، وہ آگ بگولہ ہو اٹھے۔  مگر شاگردوں کے آگے مغلظات بکنے سے پرہیز کیا اور بڑی مشکل سے اپنا غصہ ضبط کیا۔  بہرحال اگلے ماہ ’قلم‘ کے شمارے میں جب وہ کہانی شائع ہوئی تو الطاف کیفی کی بہت بھد پٹی۔  ہوا یہ تھا کہ استاد نے کہانی اپنے ایڈیٹر دوست کو بھیجی تھی اور ساتھ میں یہ خط بھی لکھا تھا کہ اس کہانی کے مصنف کا املا دیکھو، چوتھی جماعت کے طالب علم سے بھی گیا گزرا ہے۔  عمر تیس سے زائد ہے، خود کو لکھنؤ کا بتاتے ہیں مگر اردو کا عالم یہ ہے کہ اتنا بھی نہیں معلوم کہ انڈے جیسا عام لفظ عین سے لکھ رکھا ہے۔  اس پر طرہ یہ کہ خود کو اردو زبان کا بڑا ادیب اور افسانہ نگار منوانا چاہتے ہیں۔  چنانچہ وہ کہانی اسی املا کے ساتھ چھاپو تاکہ باقی کے ایڈیٹر اس طرح کے جعلی افسانہ نگاروں سے بچیں اور وہ لوگ بھی عبرت پکڑیں جو املا جیسی بنیادی چیز کے لیے محنت کرنے سے جان چرا کر خود کو اردو کا ادیب کہلوانا چاہتے ہیں۔  ایڈیٹر نے بھی کہانی کے ساتھ ایسا تگڑا نوٹ لگایا کہ الطاف کیفی کو کئی دنوں تک انڈر گراؤنڈ ہونا پڑا۔  وجہ اس کی یہ تھی کہ ’قلم‘ نامی اس رسالے کی کھپت نیا نگر میں کافی زیادہ تھی۔  اور پھر ایسی چیزیں تو لوگ ایک دوسرے کو پڑھواتے بھی ہیں اور شاموں کی چائے اور صبحوں کے ناشتے پر اس کا چرچا بھی خوب ہوتا ہے۔  نفسیاتی طور پر انسان دوسرے کو بے عزت ہوتے ہوئے دیکھ کر اس لیے بھی خوش ہوتا ہے، کیونکہ اس سے اسے اپنی بے عزتیوں پر پردہ ڈالنے کا موقع ہاتھ لگ جاتا ہے۔  بے عزت سب ہوتے ہیں، روز ہوتے ہیں، مگر ہمارے سماج میں لوگ اپنی بے عزتی کی پیٹھ پر دوسرے کی بھاری بے عزتی کا لیپ لگا کر اسے مرہم کی طرح استعمال کرتے رہتے ہیں۔

کچھ دیر بعد وہ مشہور افسانہ نگار بھی تشریف لے آئے اور ان کی اجازت سے چائے کے اگلے دور کے ساتھ نجیب نے اپنی کہانی سنانی شروع کی۔  کہانی ایک غریب دلت لڑکے پر لکھی گئی تھی، جس کا پریوار پچھلے دو تین روز سے بھوکا ہے۔  مگر وہ غریب اور کالا لڑکا اپنے سیٹھ سے دس روپے مانگنے میں بری طرح ناکام ہو جاتا ہے، کیونکہ اسے نوکری پر لگے ابھی کچھ ہی دن ہوئے ہیں اور سیٹھ اس معاشی ظلم آفریں دور کی پیداوار ہے، جہاں پر بھوک کی اجرت ہے محنت۔  چنانچہ پہلے بھوکے رہ کر محنت کرو، پھر ایک مقررہ وقت پر پھینکی ہوئی ہڈی کی طرح پہلے چند روپیے سیٹھ سے حاصل کرو پھر اس کے تلوے چاٹ کر اس کا شکریہ بھی ادا کرو۔  لڑکا جب گھر پہنچتا اور اپنی اس ناکامی کا اعلان کرتا ہے تو سبھی گھر والے مایوس ہو جاتے ہیں کہ انہیں ایک دن اور بھوک کی دلدل میں دھنسے دھنسے رات گزارنی ہو گی۔  مگر اسی وقت دروازے پر دستک ہوتی ہے اور ایک عورت ہاتھ میں کھانے کی تھالی لے کر لڑکے کی ماں سے کہتی ہے کہ شانتی کے یہاں پوجا تھی، اس لیے اس نے یہ کھانا بھجوایا ہے۔

کہانی سننے کے بعد سب لوگ خاموش ہو گئے۔  جن افسانہ نگار کی رائے کا نجیب کو انتظار تھا، وہ کچھ کہتے، اس سے پہلے ہی معقول نقوی اپنی رونی صورت میں ماتھے پر ترشول اگاتے ہوئے بولے۔  ’کیا اچھا ہوتا اگر آپ کی کہانی کا مرکزی کردار کوئی دلت لڑکا نہ ہو کر سید خاندان کا چشم و چراغ ہوتا اور جس گھر پر کھانا آیا ہے، وہ پوجا کا نہ ہو کر خیرات کا ہوتا۔ ‘ مجید صاحب کو یہ بات اس لیے بری لگی کیونکہ وہ خود بھی سید تھے۔  مگر نجیب کو یہ بات زیادہ بری معلوم ہوئی، اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے کہانی میں یاسیت کے دامن میں جھولتے ہوئے انسانوں کو ایشور نامی امید سے محروم نہیں کیا تھا، جبکہ معقول نقوی کے مشورے کے مطابق غریبی کی اس ذلیل گھاس میں لوٹتے ہوئے انسانوں کو خیراتی مدد کے بوٹوں سے کچلتے ہوئے دکھانا زیادہ مناسب تھا۔  مگر کیوں، کس لیے؟ اسی لیے نا تاکہ دنیا اس تماشے میں ذلیل ہونے والے لوگوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح خیراتی نوالوں پر ٹوٹتے ہوئے، اپنی عزت نفس کو مجروح کرتے ہوئے دیکھے! کیا معقول نقوی کی یہ بات سادیت پسندی نہیں تھی؟ کیا دنیا کی مختلف ظالم حکومتوں کے ظلم کو پڑھتے پڑھتے، ان کا ذکر کرتے کرتے، ان کے مظالم بیان کرتے کرتے وہ خود بھی ایذا دہی میں لذت محسوس لگے تھے۔  نجیب نے دیکھا، وہ مشہور افسانہ نگار اٹھے اور مجید صاحب کو ساتھ لے کر باہر نکل گئے۔  باہر ایک ٹرین شور مچاتی ہوئی، پٹریوں کو رینگتی ہوئی گزرتی جا رہی تھی۔  نجیب نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ کہانی کہیں شائع نہیں کروائے گا۔  وہ اسے پھاڑ کر پھینک دے گا اور پھر کبھی کہانی نہیں لکھے گا، پھر چاہے یہ کہانی افسانہ نگار صاحب کو ہی کتنی پسند کیوں نہ آئی ہو۔

۰۰۰

 

نجیب کا چھوٹا بھائی، تنویر اپنے والد کی ایک شاگردہ نسیم بریلوی کے گھر ادھر زیادہ چکر لگانے لگا تھا۔  یا یوں کہیں کہ دن دن بھر اسی کے گھر میں پڑا رہتا تھا تو غلط نہ ہو گا۔  نسیم پتلی دبلی، گوری رنگت کی ایک خوش شکل لڑکی تھی۔  عمر یہی کوئی تیس کے قریب ہو گی، مگر وہ عمر چور تھی۔  ابھی بھی چوبیس سے زیادہ کی نہیں دکھائی پڑتی تھی۔  نسیم کو مجید صاحب کا پتہ کس نے بتایا اور وہ کیسے چھوٹی چھوٹی بے بحر نظمیں لکھتے لکھتے، لمبی لمبی بحروں میں بھی کامیاب غزلیں لکھنے لگی، اس بحث میں پڑنے سے کوئی فائدہ نہیں، مگر اب وہ ادب کی نئی پروین شاکر کے طور پر پہچانی جانے لگی تھی۔  مجید صاحب کی ہی بدولت اس کے اوپر اردو کے دو مقامی اخباروں میں نوآمدہ نقادوں نے دو بھرپور تعریفی کالم بھی لکھے تھے اور اس کی ادب پروری اور اردو کی بقا کے نغمے گائے تھے۔  تنویر وہاں نسیم کے چکر میں جاتا ہو، ایسا نہ تھا۔  بلکہ وہ تو نسیم کی چھوٹی بہن شہناز کو پسند کرتا تھا۔  نسیم جتنی پتلی دبلی تھی، شہناز کا بدن اتنا ہی بھرا بھرا، ناک نقشہ سڈول، ہونٹ قدرتی طور پر سیاہی مائل تھے مگر ان کی تراش اور بھراوٹ ایسی تھی کہ جو دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا۔  وہ اپنی بہن کے ساتھ مجید صاحب کے یہاں آیا کرتی تھی۔  تبھی سے تنویر اس پر فدا تھا، وہ دوڑ دوڑ کر شہناز کی دلجوئی کے سامان کرتا۔  ناشتے، کھانے کی چیزوں کا اہتمام خود کرتا۔  مجید صاحب اور ان کی بیوی بہت کچھ سمجھتے ہوئے بھی تجاہل عارفانہ سے کام لیتے اور نسیم کو تو گویا اپنی شاعری کی اصلاح کے علاوہ اور کسی بات سے غرض ہی نہیں تھی۔  نسیم کے گھر پر شہناز کے علاوہ اس کی ایک بوڑھی ماں تھیں، جو قریب ساٹھ کے پیٹے میں تھیں اور جن کے بالوں میں سیاہی ڈھونڈے سے ملنی مشکل تھی۔  ایک بھائی بھی تھا جس کا نام تھا خالد، جو عمر میں نسیم سے چھوٹا تھا مگر اس پر بھی بڑوں کی طرح ہی حکم چلاتا تھا۔  گھر میں شاعری کے سبب چہل پہل تھی۔  جس کامپلیکس میں وہ لوگ تیرہویں فلور پر رہتے تھے، اس کی کھڑکی میں روز صبح بیٹھ کر نسیم ایک مقررہ وقت پر دانتوں میں گل (مسی) کیا کرتی تھی۔  تمباکو کی اس گھساوٹ سے دانتوں کے درمیان ریخوں پر کالی لکیریں بن گئی تھیں، جو دیکھنے میں بہت بری تو معلوم نہیں ہوتی تھیں، مگر اتنی واضح تھیں کہ اس کے چمکتے ہوئے سفید دانت، دوسری اوبڑ کھابڑ، زردی مائل، ٹوٹی پھوٹی یا بالکل چمکدار بتیسیوں سے بھی کچھ منفرد ہی معلوم ہوتے تھے۔  تنویر بھی اردو شعر و شاعری سے کچھ شغف رکھتا تھا، ابتدا میں وہ نسیم سے چھوٹی موٹی ملاقاتوں یا مجید صاحب کے کہنے پر نسیم کو بلانے کے لیے اس کے گھر پر جایا کرتا تھا۔  ’شاندار کامپلیکس‘ جس میں نسیم کا گھر تھا، تیرہ منزلوں کی چھ سات ایک جیسی نظر آنے والی بلڈنگوں پر مشتمل تھا۔  ہر فلور پر دو گھر تھے، جن کے دروازے آمنے سامنے تھے۔  نسیم کا گھر سڑک کے رخ پر تھا، اس لیے اس کی کھڑکی سے نیا نگر بلکہ پورا میرا روڈ نظر میں آتا تھا۔  چوڑی، پتلی، لمبی سڑکوں کے جال، عالیشان مسجد، بازار، دکانیں، برقعہ پوش عورتیں، ریش دار مرد۔  نسیم کے گھر پر خالد، شہناز اور ان کی بوڑھی اماں معصومہ کے علاوہ سردار نامی ایک شخص اور آتا تھا اور اکثر قیام بھی کرتا تھا۔  یوں تو وہ خالد کے ساتھ کیٹرنگ کا چھوٹا موٹا بزنس سنبھالتا تھا اور ان دونوں کو ہی اکثر شہر سے باہر کبھی گجرات، کبھی راجستھان، کبھی مہاراشٹر اور کبھی کبھار دلی جیسی ریاستوں میں اپنے کام کی غرض سے جانا پڑتا تھا۔  وہ کسی بھی کام کے ملنے پر روزگار کی تلاش کرنے والے لڑکے لڑکیوں کی ایک ٹیم کا اشتہار دیتے، اپنے جان پہچان کے دوسرے لوگوں سے مدد لیتے اور پھر ٹیم تیار کر کے اسے مقررہ جگہ پر ساتھ لے جاتے اور کام دھام نمٹا کر واپس آتے۔  انہیں سال میں قریب چھ بار اس طرح کے کام مل جاتے تھے، ہر بار کا دورہ بیس بائیس دن سے کیا ہی کم ہوتا، خاص طور پر سردی اور اس کے آس پاس کا دور ان کے لیے بہت مصروفیت کا ہوتا کیونکہ اس میں شادیاں خوب ہوتی تھیں۔  سردار لمبے چوڑے قد کا، ایک خوش مزاج لڑکا تھا، جو کہ نسیم کی طرح ہی بریلی سے تعلق رکھتا تھا۔  نسیم کے اہل خانہ کی طرح ہی یوں تو اسے مذہب اور شعر و شاعری سے کوئی شغف نہیں تھا مگر وہ نسیم کی والدہ کی خوشنودی کے لیے اکثر نمازیں بھی پڑھتا اور نسیم کی محبت میں اس کی نہ سمجھ میں آنے والی شاعری بھی توجہ سے سنا کرتا۔  نسیم بھی اسے پسند کرتی تھی اور یہ بات قریب قریب طے ہی تھی کہ وہ دونوں شادی کریں گے۔  نسیم کے اسے پسند کرنے کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ سردار اس کے شوق شاعری اور آزادانہ مزاج کے درمیان کبھی نہیں آتا تھا۔  ویسے بھی نسیم کوئی مرد پرست قسم کی لڑکی نہیں تھی اور نہ اسے عشق و عاشقی کے حقیقی معاملات سے کوئی لگاؤ تھا، وہ کوئی ایسا خواب بھی نہیں سجائے بیٹھی تھی کہ ایک دن کوئی شخص گھوڑے پر سوار ہو کر، چاندنی رات میں، سمندر کے کنارے، پانی کی لہروں کو چیرتا ہوا اس کی طرف آئے گا، اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کہیں دور دیس لے جائے گا۔  اس کی شاعری میں بھی، تب سے ہی، جب سے وہ ڈائری میں اوٹ پٹانگ نظمیں لکھا کرتی تھی، اس قسم کی باتیں نہیں تھیں۔  اس کے موضوعات برسات میں بھیگتے ہوئے چنے کھانا، ٹیرس پر دھوپ میں بیٹھ کر دو کبوتروں کی عشق بازی ملاحظہ کرنا یا پھر بریلی کا وہ جاڑا یاد کرنا جس میں موٹی موٹی دلائیوں اور لحافوں کا ذکر ہوتا۔  مہاوٹوں کی یاد ہوتی، طرح طرح کے پکوانوں، مہمان نوازیوں اور رشتہ داریوں کا ذکر ہوتا، خاص طور پر ان چیزوں کا جن سے بچھڑے اسے یوں تو زیادہ مدت نہیں ہوئی تھی مگر اس کی نظمیں بتاتی تھیں کہ ابھی وہ شہر کی دمکتی ہوئی رونق کی عادی نہیں ہوئی ہے اور اس کے ذہن کی سلیٹ کا زیادہ تر حصہ ممبئی کے بجائے بریلی کی ہی چاک سے رنگا ہوا ہے۔  تنویر کا جب دھیرے دھیرے وہاں جانا بڑھا تو خالد اور سردار سے اس کی دوستی گہری ہوتی گئی۔  مجید صاحب کی مصروفیت بھی اب بڑھ رہی تھی، آئے دن شاگردوں کا ہجوم، نشستوں کا بار اور ہر وقت گھر پر کسی نہ کسی کی موجودگی انہیں الجھائے ہی رکھتی۔  نسیم کی دی ہوئی نظموں کو قطع کر کے نئی غزل عطا کیے ہوئے بھی مجید صاحب کو کئی دن بیت گئے تھے۔  تنویر کو علم تھا کہ نجیب یہ سارے کام کر لیتا ہے، چنانچہ ایک دن اس نے نسیم کو بغیر بتائے ایک تازہ غزل بڑے بھائی سے لکھوا کر نسیم کے آگے رکھ دی۔  جب اس نے خوشی سے چونکتے ہوئے نئی غزل پڑھی، جو اسے بہت پسند بھی آئی تھی تو اس نے سوال کیا

’ابا (وہ مجید صاحب کو ابا کہنے لگی تھی) کو آخر وقت مل گیا میرے لیے۔ ‘

تنویر نے اسے جب حقیقت حال سے آگاہ کیا تو وہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ نجیب کا شکریہ ادا کرنے اسی شام مجید صاحب کے گھر وارد ہوئی۔  حسب دستور اس کے ساتھ اس کی چھوٹی بہن شہناز بھی آئی تھی۔  اور ان دونوں کے ساتھ خود تنویر بھی اپنے گھر میں مہمانوں کی طرح داخل ہوا تھا۔  وہ والد سے کچھ شرمندہ شرمندہ سا تھا کہ اس نے ان سے پوچھے بغیر ہی ایک نئی غزل لکھوا کر نسیم کو پہنچا دی تھی۔  نجیب اس وقت دوسرے کمرے میں لیٹا ابن صفی کا کوئی ناول پڑھ رہا تھا۔  بنیان اور نیکر میں ملبوس آرام سے ناول پڑھنے میں وہ اس قدر مگن تھا کہ اسے معلوم ہی نہ ہوا کہ گھر پر کوئی آیا بھی ہے۔  تنویر نے ہی آ کر اسے اطلاع دی اور ساتھ میں ایک دو خوشامدانہ جملوں کے ساتھ یہ عرضی بھی لگائی کہ وہ تنویر کو والد کے غصے سے بچا لے۔  نجیب جب کپڑے تبدیل کر کے ہال میں آیا تو چٹائی پر نسیم اور شہناز بیٹھے ہوئے تھے۔  برابر ہی گول تکیے سے ٹیک لگائے دو گدوں پر مجید صاحب نیم دراز تھے، ان کی آنکھیں بند تھیں اور ہاتھ میں ایک کاغذ کا پرزہ تھا۔  وہ نسیم کے سامنے بیٹھ گیا۔  رسنا کے دو گلاس، آدھے بھرے، آدھے خالی سامنے ایک ٹرے میں رکھے تھے، جن کو وہ دونوں لڑکیاں تھوڑی تھوڑی دیر میں چھوٹی چھوٹی چسکیاں لے کر مزید خالی کر رہی تھیں۔  غالباً نجیب کے بیٹھنے کی دھمک سے مجید صاحب کے استغراق میں خلل پڑا۔  پہلے تو انہوں نے ایک نظر اسے دیکھا، پھر مسکراتے ہوئے کہا۔

’بہت اچھی غزل لکھی ہے! مبارک ہو!‘

نجیب نے ہڑبڑا کر کہا۔  ’میں نے نہیں لکھی ابا! انہی کی غزل ہے، میں نے تو بس اصلاح کر دی ہے۔  اور وہ بھی کہیں کہیں۔۔۔۔ ‘

نسیم نے شفقت سے نجیب کے گھٹنے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔  ’میرا بھیا بہت بڑا شاعر بنے گا۔  دیکھیے ابھی سے اتنی اچھی نظر ہے اس کی، لیکن نجیب بھئی، تم سے شکایت بھی ہے مجھے! بہن کے گھر جھانکنے بھی نہیں آتے تم؟‘ یہ کہہ کر اس نے ایک نظر شہناز کی طرف دیکھا، جیسے اپنے گھر جھانکتے رہنے کی وجہ بھی بتا رہی ہو۔  نجیب نے اس دن غور سے شہناز کو دیکھا۔

گلاس کی کناری اس کے ہونٹوں میں دبی ہوئی تھی۔  گہرے بھورے رنگ کے سوٹ میں دوپٹہ ذرا نیچے ڈھلکا ہوا تھا اور چہرہ جیسے کمرے کی تمتماہٹ کو ماند کر رہا تھا۔  گلے کی ہڈی بھراو کی وجہ سے نظر نہیں آتی تھی، مگر شانے کی چوڑی ہڈیوں سے چمکتا ہوا گورا رنگ بہتے ہوئے سیدھے کلیوج کی ایک چھوٹی سی اندھیری نالی میں گر رہا تھا۔  اس کے آگے تھا پھر وہی کاہی رنگ، وہی اداس نظر کی ناکامی اور وہی ایک ندیدی، ہوس کار چمک، جو دیکھنے والے پر بوکھلاہٹ طاری کر دیتی ہے۔

آج جو کچھ نجیب نے دیکھا، وہ صرف نجیب نے دیکھا یا پھر شہناز نے بھی دیکھا۔  مگر کمرے میں موجود اور کسی شخص نے یہ یہ دکھایا ہی نہیں کہ ان کے پاس بھی آنکھیں ہیں۔  نجیب نے شہناز کی طرف سے اپنے ابلتے ہوئے دیدوں کو واپس اپنی جگہ پر لاتے ہوئے نسیم کو دیکھا اور اس کی دانتوں پر چمکتی ہوئی سیاہ ریخوں کو گھورتا ہوا بولا۔

’ضرور آؤں گا۔ ‘

’آؤں گا نہیں۔  کل صبح کا ناشتہ میرے ساتھ ہی کرو۔  اب میں تمہیں ہی اپنی غزلیں دکھایا کروں گی۔  ابا کے پاس تو وقت ہی نہیں، کیوں ابا؟‘

مجید صاحب نے ایک دفعہ پھر چونکتے ہوئے ہممم کہا اور ماتھے کی گمبھیر لکیروں کو اور موٹا کر کے ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کچھ بدبدانے لگے۔

تنویر دور کھڑا اس بات پر خدا کا شکر ادا کر رہا تھا کہ والد کی ڈانٹ سے بچ گیا۔  نجیب نے ایک دفعہ شہناز کی طرف دیکھا اور جلدی سے کل گھر آنے کا وعدہ کر کے اٹھ گیا۔  شہناز اب بھی اسی کی طرف دیکھ رہی تھی، اس کے ہونٹوں پر ایک شرارتی مسکراہٹ تھی، جس نے نجیب کی بوکھلاہٹ کو مزید بڑھا دیا تھا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے