دانہ و دام کی الف لیلہ ۔۔۔ نگہت سلیم

بہت مشکل سے اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔  ۔  غالباً اس کے سر کے پچھلے حصے پر کاری ضرب لگائی گئی تھی۔  ۔  اس نے پیچھے بندھے اپنے ہاتھوں پر رسی کی گرفت کو محسوس کیا اور یہ بھی کہ اس کے جسم پر لباس کے نام پر فقط زیر جامہ ہے۔  وہ کتنے گھنٹے بے ہوش رہا۔  ۔  ؟ اب کہاں ہے۔  ؟ یہ مقام۔  وقت۔  اور گرد و پیش۔  ؟؟ اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی اور اپنی بجھی بجھی آنکھوں سے نیم اندھیری جگہ کو جاننے پہچاننے کی امید میں اطراف نگاہ دوڑائی۔  شاید وہ کسی مخدوش عمارت کے بالائی حصے میں تھا۔  دور ستاروں کی کہکشائیں اپنی روشنی بکھیر رہی تھیں۔  صحرا کی طلسماتی رات تھی، اچانک کوئی شہاب ثاقب گرا۔۔۔ ٹوٹا اور اس سے مماثل بارود کی بوچھاڑ اس کی نظروں میں گھوم گئی۔  ۔  بارود۔  ؟؟ اور اس یاد کے ساتھ ہی اسے وہ عراقی جیپ یاد آئی جس پر اس کے حکم سے بارود پھینک کے آگ لگائی گئی تھی یہ اندازہ کیے بغیر کہ اس کے اندر کتنے عراقی تھے۔  اور اس کے بعد اسے وہ حملہ یاد آیا جو اس پر کیا گیا تھا۔  کس نے ایسی جرأت کی ہو گی۔  ؟ اس نے سوچا۔  ۔  عسکریت پسندوں نے۔  ۔  ؟ ہاں شاید۔۔۔ اور یہ تیسرا حملہ تھا جو مجھ پر ہوا۔  ۔  میں۔  ۔  میں مائیکل امریکی جری فوج کا افسر۔  مجھ پر حملہ۔  ۔  ؟ ۔  ۔  اور اب میں یہاں۔  ؟ اس نے سوچا اور پھر آسمان کی طرف دیکھا جو بہت روشن اور چمکدار تھا۔  ۔  جو بھی مجھے یہاں لایا ہے، ظاہر ہے اس صحرائی رات میں چمکتے تاروں کا نظارہ کرانے کے لیے تو نہیں لایا ہو گا۔  اس کا مقصد مجھے نقصان پہنچانا ہو گا تب ہی اس نے میری وردی، میرے بوٹ اتار دیے۔  غالباً اس لیے کہ میری شناخت باقی نہ رہے۔  اوہ۔  میرے کاغذات۔  میرے تمغے۔  اور ۔  ۔  میری شادی کی انگوٹھی۔  ۔  ؟ مائیکل نے بندھے ہاتھوں کی انگلیوں کو محسوس کیا۔  اس صدمے کی کیفیت سے نکلنے کے لیے اس نے سوچا کہ کیا دجلہ کا کوئی کنارہ یہاں سے قریب ہو گا۔۔۔ یا دور۔  یہ نیم مسمار عمارت جس کی حالت زار ایسی ہے کہ شاید یہ کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔  کیا یہ میرے دستے کے ہاتھوں مسمار ہوئی ہو گی یا کسی اور امریکی افسر کے حکم پر۔  ۔  ؟ پھر اس نے ذہن کو جھٹکا سا دیا اور سوچا کہ ایسے لا یعنی سوالات سے اور عمارت کے حدود اربعہ سے اسے کیا حاصل۔  ! اسے فوری نجات کا راستہ تلاش کرنا ہو گا۔  نجانے دشمن کی طاقت کتنی ہو؟ اس کے اپنے ساتھی کہاں ہیں؟ کیا سب مارے جا چکے؟ اس کے بدن میں جھرجھری سی ہوئی اور اس کی نگاہ ایک بار پھر عمارت کی بوسیدگی پر مرتکز ہو گئی۔  محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ابھی گر جائے گی۔۔۔ مائیکل نے خود کو عمارت کے ڈھیر میں زندہ دفن ہوتا محسوس کیا اس کے دونوں ہاتھ ایک خستہ ستون سے بندھے ہوئے تھے ایسا لگتا تھا جیسے ہاتھ کھولنے کی سعئی میں ستون اس پر گر جائے گا کیا واقعی ایسا ہے؟ درد کی ٹیسیں اس کے بدن سے اٹھ رہی تھیں۔  شاید اسے بہت مارا پیٹا اور گھسیٹا گیا تھا۔  آ خر وہ کون لوگ تھے جو مجھے یہاں لائے؟ مائیکل نے سوچا اچانک اسےبھربھراتی ادھ ٹوٹی سیڑھیوں پر ہلکی ہلکی دھمک سنائی دی ایک ہیولہ سا آگے بڑھا۔  شاید وہ سگریٹ پی رہا تھا۔  روشنی کا نکتہ سا اس کے ہاتھوں کی حرکت میں تھا۔  جب وہ قریب آیا تو مائیکل نے تاروں کی روشنی میں دیکھا وہ کھلاڑیوں جیسی جسمانی ساخت رکھنے والا ایک نوجوان تھا۔  مائیکل اسے دیکھتے ہی ہذیانی انداز میں چلایا۔  ۔

’’او۔  ۔  احمق عراقی۔۔۔ تم شاید بہت بڑی غلطی کر رہے ہو‘‘

آنے والا پہلے آہستہ سے ہنسا، پھر ہنستا چلا گیا۔۔۔

’’اچھا واقعی؟‘‘ وہ زمین پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا۔  مائیکل نے غور کیا وہ ایک خوبرو نوجوان تھا۔  اس کے چہرے پر علم کی روشنی تھی جسے جبراً بجھا کے اس کی جگہ انتقام کی آگ جلائی گئی تھی۔۔۔۔

’’تو کیا یہ مجھے مارے گا؟‘‘ مائیکل نے سوچا۔

’’کیا میں نے اسے ذاتی طور پر نقصان پہنچایا ہے؟ یا پھر یہ عسکریت پسندوں میں سے ہے؟‘‘

کئی سوالات تھے۔  ۔  بالآخر اس نے پوچھا:

’’کون ہو تم؟ ….یقیناً اتنے سمجھ دار تو ہو گے کہ جان سکو کہ مجھے مارنے کا انجام تمہارے لیے کتنا خطرناک ہو سکتا ہے‘‘

نوجوان دو بارا ہنسنے لگا۔۔۔ پھر ہنستے ہنستے کھڑا ہو گیا، اب اس نے آسمان کو تکنا شروع کر دیا۔۔۔ ستاروں کو دیکھتا رہا ان میں کچھ کھوجتا رہا پھر یکدم جیسے اپنے آپ میں لوٹا اور بولا:

’’پہلے تم نے مجھے احمق عراقی کہا پھر سمجھ دار کہا۔۔۔ تم امریکی خوب جانتے ہو کہ کب دم ہلانا ہے کب بھونکنا ہے۔  یہ تمہاری فطری تربیت کا حصہ ہوتا ہے۔  خیر میں تمہیں بتا دوں کہ تم دنیا کے ایسے مقام پر آئے ہو جو کبھی علم و ثقافت، صنعت و حرفت کا مرکز تھا۔  ۔  ہلاکو خان کی بربریت نے اس کی عظمت کو داستان پارینہ ضرور بنایا تھا۔  لیکن آج بھی یہاں حضرت سید عبد القادر جیلانیؒ، امام اعظمؒ،امام کاظمؒ،حضرت جنید بغدادیؒ اور کئی مقتدر ہستیوں کے مزارات ہیں۔  جن میں سے دو پر تمہاری فوج نے بلا اشتعال فقط اپنی جہالت کے مظاہرے کے لیے بمباری کی ہے‘

’’اوہ۔  یہ واقعی غلط ہوا‘‘۔۔۔ مائیکل کی آواز میں خوف تھا۔  ۔  ’’لیکن مجھے ڈھونڈا جائے گا۔۔۔ میرے اور میرے لوگوں کے غائب ہو جانے پر کارروائی ہو گی۔۔۔ تمہارے لاتعداد ہم وطن ناحق مارے جائیں گے صرف شبہ میں‘‘۔۔۔ مائیکل نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔۔۔

’’ارے نہیں۔  تم اتنی فکر نہ کرو‘‘..۔  ۔  وہ پھر ہنسا۔  ۔  ’’اس وقت کہ جب کی یہ بات ہے تمہارا دستہ روانہ ہو چکا تھا۔  تم اپنی جیپ میں صرف ڈرائیور کے ساتھ تھے۔  فقط وہ تمہاری وجہ سے مارا گیا۔  ۔  اور تم بھی مارے جا چکے ہو‘‘ ۔۔۔ وہ بے نیازی سے ٹہلنے لگا۔

’’یعنی۔۔۔ ؟‘‘ مائیکل نے مضطرب ہو کے خود کو جھٹکا دیا۔

’’یعنی۔  ۔  اب تم اپنے غائب ہونے کا غم بھلا دو کیونکہ تم انہیں مل جاؤ گے بلکہ مل چکے ہو گے۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘ مائیکل نے اپنے جسم میں گہری سنسناہٹ محسوس کی۔  ۔

’’اب دیکھو۔  مطلب پر زیادہ غور نہ کرنا‘‘۔  ۔  اکہرے بدن والا خوبرو نوجوان مسکرایا۔۔۔ وہ دو بارا زمین پر اس کے روبرو بیٹھ گیا اور آہستہ آہستہ گہری پر اسرار آواز میں بولا: ’’بس اتنا جان لو، کہی ہاں آنے سے پہلے تم نے جس عراقی جیپ پر بارود پھینک کے آگ لگائی تھی اس جیپ میں میرے بہت خاص الخاص ساتھی تھے ان میں سے ایک بالکل تمہارے قد و قامت اور رنگ روپ کا تھا ہم چھیڑ چھاڑ میں اسے امریکی فوجی کہا کرتے تھے۔  ۔  اس کی نیم سوختہ لاش میں نے اس بارود بھری آگ سے گھسیٹ لی تھی۔  ۔  تم ذرا اپنے بدن کو دیکھو جس پر لباس کے نام پر فقط زیر جامہ ہے۔  یہ دھجی بھی میں نے اپنی عظیم روایات کے صدقے میں تمہیں پہنائے رکھی وگرنہ تمہارے باقی کپڑے، جوتے،بدبو دار جرابیں، گھڑی اور تمہاری شادی کی انگوٹھی تک کو معقول مقام دیا یعنی تمہاری وردی اور تمغے پھول سب سےاپنے اس دوست کی جھلسی ہوئی لاش کو سجا دیا جسے میں نے جلتی جیپ سے گھسیٹا تھا۔  تمہاری وردی جوتے اور تمام اشیاء کو پہلے آگ سےجھلسایا پھر انہیں اپنے ساتھی کو پہنایا پھر دو بارا اپنے ساتھی کا چہرا اور ہاتھ پاؤں پہنے ہوئے کپڑے وغیرہ آگ سے جلا کے مسخ کیے۔۔۔ اس کے جسم کو اس انداز سے جلایا کہ صرف کچھ نشانیاں باقی رہ جائیں جن سے بلا تردد تمہاری شناخت ہو سکے۔  پھر تمہاری جیپ میں اس لاش اور تمہارے ڈرائیور کی لاش کو ڈال کر جیپ کو بھی اڑا دیا گیا۔  یاد کرو کہ جب رفع حاجت کی غرض سے تم رکے تھے تو تمہارا دستہ انجانے میں آگے بڑھ گیا تھا تمہاری اکیلی جیپ اور تمہارا اس سے اتر کے بہت آگے چلے جانا۔  پھر تمہارے ڈرائیور کا تنہا رہ جانا اور تمہارا بھی۔۔۔ ایسے میں چھپے ہوئے عسکریت پسندوں کا حملہ۔  ۔  کیوں؟ فوری منصوبہ فوری عمل۔  اچھا تھا نا!‘‘ وہ پھر ہنسنے لگا۔  ۔  اس کے بلند آہنگ بے خوف قہقہے صحرائی رات کے اسرار کو بڑھا رہے تھے۔۔۔ مائیکل کو اپنا ایک فوجی دوست یاد آیا جو جنگ کی تباہ کاریاں برداشت نہیں کر پایا تھا اور مخبوط الحواسی کا شکار ہو گیا تھا۔  اس کی ہنسی میں خوشی نہیں وحشت ہوتی تھی۔  وہ بہت جوشیلے انداز میں گفتگو کرتا اور قہقہے لگاتا تھا۔  لیکن دراصل اس کا چہرہ ملال اور بے سکونی کا غماز رہتا تھا۔  ۔  وہ موقع ملتے ہی ایک پیشہ ور قاتل کی طرح مشتعل ہو جاتا تھا۔  تو کیا یہ بھی۔۔۔ کسی ایسی کیفیت میں ہے۔  مائیکل نے سوچا پھر اپنی عقل پر لعنت بھیجتے ہوئے اس نے خود سے اعتراف کیا کہ یہ کیا اس کی پوری قوم اسی کیفیت میں ہو تو بے جا نہ ہو گا۔

نوجوان سگریٹ سلگانے لگا۔

مائیکل سناٹے میں تھا۔۔۔ ’’اف۔  اف۔  ۔  اس نے میرے ساتھ یہ سب کیا۔  ۔  یعنی میری وردی میرے تمغے۔۔۔ میرے کاغذات اور میری شادی کی انگوٹھی تک۔  کسی اور کو پہنا دی پھر اسے آگ لگا دی۔  یعنی میں اپنی شناخت اپنے حوالے کھو چکا ہوں۔۔۔ شاید میری لاش میرے گھر والوں کو بھجوا دی جائے گی۔  ممکن ہے کچھ تحقیق و تجزیے ہوں۔  ممکن ہے اسے گہرائی سے نہ لیا جائے۔۔۔ ممکن ہے اس نوجوان نے ایسے شواہد ہی نہ چھوڑے ہوں۔  ممکن ہے میرا کوئی سراغ نکل ہی آئے۔  شاید اس وقت تک دیر ہو چکی ہو۔۔۔ اپنا انجام کس نے دیکھا ہے۔‘‘

"کیا تمہاری کوئی محبوبہ ہے؟‘‘۔۔۔ نوجوان نے سگریٹ کا گہرا کش لے کے دھواں اس پر چھوڑا۔

’’ہاں ہے۔  ۔  اور ایک بیوی بھی۔۔۔ ‘‘

’’اوہ یعنی دو دو‘‘… نوجوان پھر ہنسا۔

’’ہاں ایسا ہی ہے۔  اور تم۔  تمہاری؟‘‘ مائیکل نے پوچھا

’’میری۔۔۔ ؟‘‘ یکلخت وہ بدل گیا، بہت مشتعل سا ہوا۔  اس نے زمین پر ٹھوکر ماری پھر اس کی طرف پشت کر کے کھڑا ہو گیا اور جیسے خود کلامی کرنے لگا۔۔۔

’’میں تو شاعر ہی اس لیے بنا کہ اس پر شعر کہہ سکوں۔  ۔  اس کے حسن لا زوال کی داستان لکھ سکوں۔  ۔  کیسے ہوتے ہیں لب لعلیں دنیا کو بتا سکوں اور کیسی ہوتی ہیں ساحر آنکھیں۔  ۔‘‘

یک لخت وہ پلٹا اور اس نے اپنے بوٹ کی نوک سے مائیکل کو ٹھوکر ماری اس ٹھوکر میں نفرت و حقارت تھی۔  ۔  غصہ تھا اور شاید اس افتادگی و درماندگی کی ابتداء جو مائیکل کے لیے تیار تھی۔  اس اچانک حملے سے مائیکل تلملا اٹھا۔  اس کے کراہنے سے نوجوان کو جیسے شہہ ملی۔  اب اس نے مائیکل پر گھونسوں لاتوں اور ٹھوکروں کی یلغار کر دی۔  ۔  کیا کوئی عراقی اتنا بے رحم بھی ہو سکتا ہے؟ مائیکل نے حیرت سے اسے دیکھا۔

وہ عراق کے کئی شہروں میں تعینات رہ چکا تھا۔  اس نے ان میں صرف خوف، دہشت اور بے بسی دیکھی تھی۔۔۔ حملہ آور چھپ کر حملہ کرتے تھے یا مارے جاتے تھے۔  اس نے لاتعداد خوبصورت نوجوانوں اور بچوں کو جنگی تباہی کے نتیجے میں معذور ہوتے دیکھا تھا۔۔۔ نوجوان نے آخری ٹھوکر بہت زور سے ماری پھر ٹوٹی بھربھری سیڑھیوں سے نیچے اتر کر چلا گیا۔  کچھ فاصلے پر اس کا سگریٹ گرا ہوا تھا۔  اس کے جانے کے بعد بھی فضا میں اس کی سسکیاں گونجتی رہیں۔

مائیکل اسے جاتا دیکھتا رہا، پھر بے بسی سے ستون سے اس نے سر ٹکا دیا۔  وہ کچھ دیر کے لیے سامنے کے مناظر بھول جانا چاہتا تھا اور خود کو سکون دینے کی خاطر کچھ اچھا سوچنا چاہتا تھا۔  ۔  اس نے آنکھیں بند کر لیں۔  ظاہری آنکھیں بند ہوتے ہی جیسے دل کی آنکھیں کھل گئیں لیکن وہاں نہ اس کی بیوی تھی نہ محبوبہ۔

کوئی تیسری عورت۔۔۔ آنکھیں کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔  کالی بھنورا سی آنکھیں۔  ۔  قدرت کی صناعی کا بیش بہا نمونہ آنکھیں۔  ۔  خوف وحشت نفرت و حقارت سے بھری لیکن بے چارگی سے لبریز آنکھیں۔  ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ایک سیاہ لیکن گرم ترین رات تھی جب اسےآدھی رات کو جگا کر حکم دیا گیا کہ اسے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ایک مکان پر چھاپہ مارنا ہے جہاں ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ اور چند دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں۔  مکان دجلہ کے کنارے واقع ہے۔  مکان کے اوپر کچھ عربی الفاظ کندہ ہیں اور اطراف دھان کے کھیت۔  وہ اپنے کندھوں پر بھاری بندوقیں اٹھائے چلتے رہے اور اپنے مضبوط جوتوں کی آوازیں سنتے رہے۔  ۔  اکتا دینے والی تلاش تھی لیکن بالآخر ختم ہوئی۔  اس مکان کی روشنی اس کے ہونے کی گواہی دے رہی تھی لیکن مکان کسی طرح دہشت گردوں کی آماجگاہ نہیں لگ رہا تھا۔  ۔  دل کو روحانی کرنوں سے معمور کر دینے والی پاکیزگی اس کے در و دیوار پر ہالہ کیے ہوئے تھی، یوں لگ رہا تھا جیسے دعاؤں کی لہروں میں یہ مکان ہلکورے لے رہا ہو۔  لیکن ابلیسیت اور شیطانیت کی اپنی قوت ہے جو حاوی ہونے میں دیر نہیں لگاتی۔  مائیکل کی نگاہیں مکان پر ٹہر چکی تھیں اس کے ساتھی ارد گرد کا جائزہ لے رہے تھے جہاں کبھی آ باد رہنے والے گھر گولہ باری سے مسمار ہو چکے تھے یا اندھیرے مکان تھے جن کے مکین کوچ کر چکے تھے۔

مائیکل اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے صبری اور بے تابی سے اپنی شکار گاہ کی طرف بڑھا۔  انہوں نے اپنی تربیت کے مطابق گھر کے دروازے پر بارود لگا کے اسےایک بے محابا شور سے اڑا دیا، پھر جنگلی سوروں کی طرح بھدر بھدر کرتے اندر گھس گئے۔۔۔ یہ دو منزلہ صاف ستھرا گھر تھا جو متوسط طبقے کی نمائندگی کر رہا تھا۔  ایک معمر مرد اور دو نو عمر لڑکے سامنے آئے۔  ان کے چہروں پر ہراسانی تھی۔  مائیکل کے حکم پر اس کے سپاہیوں نے ان کی کنپٹیوں پر بندوق کی نوک رکھ دی اور انھیں گرفت میں لے لیا وہ مزاحمت نہیں کر رہے تھے شاید خوف اور بے بسی کے مارے اس قابل ہی نہیں تھے۔  لیکن سپاہی انھیں مارنے لگے وہ انھیں شرفِ انسانی سے گرانے کے لیے توہین آمیز طریقوں سے ٹھوکریں اور تھپڑ مار رہے تھے۔  ان تینوں کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔  کیا وہ دہشت گرد تھے؟ مائیکل نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچا اور سیڑھیاں کودتا ہوا اوپر کی منزل پر آ گیا وہاں ایک کمرہ کھلا ہوا تھا۔  فرش پر کپڑا بچھا ہوا تھا جس پر ایک عورت حالت سجدہ میں پڑی تھی۔  اتنے شور و غوغا کے باوجود وہ اپنی عبادت انجام دے رہی تھی۔  ۔  مائیکل ایک شیطان کی صورت اس کے سامنے آنے کو بے چین تھا اس نے فرش پر پڑے ہوئے کپڑے سے اسے گھسیٹا اور روبرو کیا۔۔۔ ’’ اف خدا۔  ۔  ” مائیکل کے منہ سے بے اختیار نکلا۔  وہ پری پیکر آسمان سے اتری مخلوق دکھائی دے رہی تھی۔  مائیکل نے اس کے سر پر بندھا کپڑا کھینچ کر اتار دیا اس کے سیاہ بال بکھر گئے اور ایک بھینی سی خوشبو چہار جانب پھیل گئی اس نے انتہائی نفرت و حقارت سے مائیکل کو یوں دیکھا کہ مائیکل کو محسوس ہوا جیسے زندگی میں پہلی بار اصل مائیکل کو کسی نے پورا کا پورا دیکھ لیا ہے۔

اس عورت کی کالی بھنورا سی آنکھیں مئے کا بھرا پیالہ جیسی تھیں۔  ۔  مائیکل اسی وقت جان گیا تھا کہ وہ چاہے یا نہ چاہے ان آنکھوں کو تا حیات نہیں بھلا سکتا۔  ۔

اچانک دو سپاہی چیختے چلاتے کمرے میں گھسے اور انھوں نے گلا پھاڑ کے مائیکل کو خوشخبری سنائی کہ تین دہشت گرد پکڑے جا چکے ہیں۔  اسلحہ فی الحال نہیں ملا تلاش جاری ہے۔  اس کے ساتھ ہی کمرے میں جیسے طوفان آ گیا۔  مزید سپاہی گھس آئے اور تین افسر بھی۔  ۔  وہ برق رفتاری سے چیزیں توڑ پھوڑ رہے تھے۔  تلاش کے نام پر بستروں کے گدے، تکیے ادھیڑ رہے تھے، الماریاں کھول کے ان کی اشیاء فرش پر گرا دی گئیں۔  سونے کے زیورات اور رقم جس کے ہاتھ لگی اس نے اپنی جیبوں میں ٹھونس لی۔  مائیکل نے باہر نکل کے دیکھا۔  چند ہی لمحوں میں صاف ستھرا سجا سجایا گھر ٹوٹے پھوٹے سامان اور شیشے کی کرچیوں کا انبار لگنے لگا۔  اس برباد گھر کے تین مکین سہمے سکڑے کھڑے تھے جیسے اپنے گھر میں نہ ہوں کسی اور جگہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہوں۔۔۔ مائیکل نے خشونت اور خباثت سے انہیں گھورا اور للکار کے کہا:

’’ان کے ہاتھ باندھ دو،منہ پر نقاب چڑھا دو یہ ہمارے ساتھ جائیں گے۔۔۔ ‘‘

’’نہیں‘‘ پیچھے آتی ہوئی عورت ہذیانی انداز میں چیخی۔۔۔ ’’یہ شخص میرا بوڑھا باپ ہے اسے دل کا عارضہ ہے اور یہ دو میرے معصوم بھائی بے قصور ہیں اور طالب علم ہیں۔  خدا کے لیے انھیں چھوڑ دو‘‘۔  ۔

مائیکل نے آگے بڑھ کے عورت کو پکڑا اور گھسیٹ کے دو بارہ کمرے میں لے گیا اور تیز جھٹکے سے اسے ادھڑے ہوئے بستر پر گرا دیا۔۔۔ عورت نے حیرت اور خوف سے اسے دیکھا لیکن اب مائیکل کے سامنے حسن کا ایسا جلوہ تھا جو اس سے پہلے اس نے نہیں دیکھا تھا۔  ۔

’’اتنی حسین عورت۔  بخدا نہیں‘‘۔  وہ بڑبڑایا۔

اچانک کسی نے اس کے کندھے پر زور کی ٹھوکر ماری۔  مائیکل نے ہڑبڑا کے آنکھیں کھولیں۔  نوجوان سامنے کھڑا تھا۔۔۔ اب مائیکل کے سامنے وہی منظر تھا مخدوش عمارت کا بالائی حصہ اور آ سمان سے جھانک جھانک کےتکنے والے تارے۔

’’تو تم چار مرد تھے۔  ہے نا‘‘۔  ۔  نوجوان نے دکھ اور حقارت سے پوچھا۔  ۔

’’کون۔  ۔  ؟ کہاں۔۔۔ ؟‘‘ مائیکل نے حیران ہو کے پوچھا۔۔۔ نوجوان نے گھونسوں اور لاتوں کی بارش پھر شروع کر دی، مائیکل کراہنے لگا۔۔۔ نوجوان ہانپ گیا۔  اس نے خود کو سنبھالا۔  اپنے خوبصورت گھنگھریالے بال پیشانی سے سمیٹے اور بولا۔۔۔ ’’تو تم پہلے تھے جو اس کی طرف بڑھے؟؟ کیوں ایسا ہی تھا؟‘‘۔

’’تم اور وہ عورت۔  ؟ یعنی کہ۔  ۔  وہ اور تم؟‘‘ مائیکل نے بہت کچھ پوچھنا چاہا۔  ۔

’’فی الحال اتنا جان لو کہ تمہارے بقیہ ساتھی اب موجود نہیں رہے۔۔۔ تم میرا سب سے اہم شکار ہو اس لیے میں تمہیں آسانی سے مارنا نہیں چاہتا تھا۔  ۔‘‘

مائیکل کے جسم میں کنکھجورے سے رینگنے لگے اسے محسوس ہوا کہ اس کی تمام بہادری اس کے فوجی دستوں ہتھیاروں اور ساتھیوں کی وجہ سے تھی، اکیلا وہ کچھ بھی نہیں۔

نوجوان نے کھلی جگہ پر ٹہلنا شروع کر دیا پھر بولا:

’’تم ہمیں دہشت گرد کہہ کے ہمارے ملک میں گھس آئے۔  ہمارے گھروں کو تباہ کر دیا، مردوں بچوں کو قتل اور عورتوں کو بے آبرو۔  ذرا سوچو اگر ہم تمہارے ساتھ یہ سب کچھ کر سکتے اور کر گزرتے تو۔  ؟‘‘

’’تم کمزور ہو۔  ۔  اور اس کا ہرجانہ ادا کر رہے ہو۔۔۔ ‘‘ مائیکل نے بے رحمی سے کہا۔

’’لیکن اس وقت ایسا نہیں ہے۔  ۔‘‘ نوجوان کے لہجے کی سفاکی سے مائیکل ہلکا سا لرز گیا۔۔۔

’’جانتا ہوں کہ تم نے مجھے گھیر لیا ہے لیکن تم مجھے نقصان پہنچا کے خود بڑی مصیبت میں پھنس جاؤ گے۔  تمہارے کئی بے گناہ ہم وطن شک و شبہ میں پکڑے اور مارے جائیں گے۔‘‘ وہ بولا۔

’’میں اور میری قوم پہلے ہی اپنی کمزوریوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور اب اس سے زیادہ کیا ہو گا‘‘ نوجوان نے کہا ’’بس اب تیار ہو جاؤ۔  تمہارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔  ۔‘‘

اچانک سیڑھیوں سے نیچے کوئی آہٹ سی ہوئی دونوں چونکنے ہو گئے۔  نوجوان نے احتیاط سے بندوق سیدھی کی اور آہستہ آہستہ ایک ایک سیڑھی کر کے اترنے لگا۔۔۔

بالآخر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔  مائیکل نے اپنی تمام حسیات چوکس کر دیں اور اپنی سماعت کو بڑھا دینے کی سعی میں سانس بھی روک لی۔  نوجوان کے بولنے کی آواز اسے سنائی دی اب وہ انگریزی میں نہیں عربی میں بات کر رہا تھا شاید کسی کو تنبیہ کر رہا تھا۔  لیکن اس کے لہجے میں محبت کی چاشنی اور تڑپ تھی۔  اس کی آواز سرگوشیوں میں ڈھلتی چلی گئی پھر اچانک ہی وہ دو بارا سیڑھیوں پر نمودار ہوا لیکن رکا اور سیڑھیوں سے جھانک کے اس نے نیچے دیکھا اس کی کمر کمان کی طرح جھک گئی کسی کو دو بارا دیکھنے کے لیے۔  مائیکل نے تاروں کی روشنی میں اسے بے حد خوبصورت نوجوان پایا۔  اب وہ سیڑھیوں پر کھڑے ہو کے آنے والے سے مخاطب تھا۔۔۔ ’’تم جاؤ۔  اور مجھے کمزور مت کرو۔  ۔‘‘ مائیکل اتنے دن عراق میں رہ کے عربی کی شدبد سے واقف ہو گیا تھا۔  اس نے صورتحال کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔۔۔ نوجوان پھر بولا۔  ۔  ’’قاسم نے آنے میں دیر کر دی ہے۔۔۔ اسے میری مدد کرنا تھی۔  میں جلد یہ کام نپٹانا چاہتا ہوں۔  ۔  بہرحال تھوڑا انتظار اور۔۔۔ ’’

اچانک مائیکل کو محسوس ہوا کہ نوجوان کے مارے گئے گھونسوں اور لاتوں سے رسی کے بل ڈھیلے پڑ گئے ہیں۔  اس کے اندر ایک پر قوت لہر سی سرایت کر گئی۔  اس نے ہاتھوں کو گھما کے دیکھا، واقعی ایسا ہی تھا۔  نوجوان کے آتے ہی وہ پھر ساکت و بے حس ہو گیا لیکن اب اس کا ذہن پہلے سے زیادہ تیزی سے کام کرنے لگا تھا۔  اس نے سوچا بہتر ہو گا کہ وہ نوجوان کو باتوں میں الجھائے رکھے اور آہستہ آہستہ رسی ڈھیلی کرتا جائے۔  ۔  ہو سکتا ہے اس دوران کوئی فوجی دستہ یا کوئی فوجی جیپ ادھر سے گذرے۔  ہو سکتا ہے انھیں کچھ مشکوک محسوس ہو اور یہ نوجوان پکڑا جائے۔  ۔  ایک مبہم سی آس نے اسے قوت دینی شروع کی۔  وہ اسے قریب آتا دیکھ کے بولا۔  ۔

’’افسوس۔  تم جیسے خوب صورت نوجوان کو بغداد کی حسین راتوں کا حصہ بننا چاہیے تھا۔  لیکن تم ہماری وجہ سے بارود اور بربادی کا فسانہ بن گئے۔۔۔ سنا ہے الف لیلہ کی کہانیوں نے یہاں جنم لیا تھا۔‘‘

نوجوان ہنسا۔  ۔  ’’اچھ۔  ۔  چھا۔‘‘ اور آسمان کی طرف اشارہ کر کے بولا۔  "تو اس تاروں بھری صحرائی رات نے تمہیں دیوانہ بنا دیا ہے۔  میں تو سمجھ رہا تھا کہ موت کی آہٹ تمہیں بوکھلا دے گی۔  اے حرص و ہوس کے مارے امریکی فوجی۔۔۔ ! نئی الف لیلہ کچھ مختلف ہے۔  نئی الف لیلہ کہتی ہے کہ بغداد تیل کا کنواں ہے اور تم سفید چوہے اسے پینا اور ڈکارنا چاہتے ہو۔  مفت میں۔  لیکن جان لو کہ عراق جیتے جاگتے لوگوں کا مسکن ہے۔  یہ پیغمبروں اور اولیاء کی سر زمین ہے۔  یہ تباہ تو پہلے بھی ہوئی تھی، اب بھی ہوئی ہے۔  یہ پھر سنور جائے گی۔  لیکن تمہاری قوم ابد تک ساری دنیا میں پاؤں جلی بلی کی طرح منہ مارتی پھرے گی۔  ۔  ارے تم نے تو اپنی ابتدائی تاریخ میں بھی سرخ ہندیوں پر ظلم و بربریت کے ناگفتنی واقعات رقم کیے۔  تمہارے دو مینار اور دفاعی دفاتر کیا گرے، تم نے ملکوں کے ملک تہس نہس کر دیئے۔  قوموں کو روند ڈالا۔  یہ ہے تمہاری انسانیت۔  ۔  اپنی سائنسی ترقی سے تم نے دنیا کو جنت کی طرف کم اور جہنم کی طرف زیادہ دھکیلا ہے۔  پہلے آتشیں اسلحے ایجاد کرتے ہو پھر ان کے پھیلاؤ کو روکنے کی بات کرتے ہو، پہلے بیماریاں ایجاد کرتے ہو پھر ان کی دوائیں، مذاہِب کو ان کے ماننے والوں کے خلاف استعمال کرتے ہو۔۔۔ تم نےاس دنیا کی معصومیت اور بے ساختگی ختم کر دی ہے‘‘۔  ۔

مائیکل نوجوان کے جوش خطابت سے فائدہ اٹھا رہا تھا اور رسی ڈھیلی کرنے میں مصروف تھا اسے ڈر تھا کہ نوجوان کی نگاہ اس کے ہاتھوں کی حرکت پر نہ پڑ جائے۔  اسے مزید مشتعل کرنے کے لیے وہ بولا۔  ۔  ’’نو گیارہ کے بعد کسی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔  اب ہم بہت سے معاملات کو نو گیارہ کے اٹھتے دھوئیں کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ‘‘

’’تم لوگ دراصل خوف کے مریض ہو۔‘‘ نوجوان دانت پیستے ہوئے بولا۔۔۔ ’’اسلامکے خوف نے تمہیں نفسیاتی طور پر کمزور کر دیا ہے۔  بتاؤ آخر یہ جنگ تمہارے لیے نا گزیر کیوں ہوئی؟ کیا صدام اور دہشت گرد تنظیموں میں کسی قسم کا تعاون ثابت ہوا؟ تم ایک حادثے سے کئی حادثات کا نفسیاتی تعلق جوڑ لیتے ہو تم نے فرض کر لیا ہے کہ صدام کے پاس کسی بھی وقت ایٹم بم آ سکتا ہے‘‘

نوجوان بولتے بولتے رکا اور بے چینی سے سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے ٹہلنے لگا۔  ۔

مائیکل کو محسوس ہوا کہ رسی ڈھیلی ہوتی جا رہی ہے۔  شاید ایک ہاتھ جلد آزاد ہو جائے۔  لیکن وہ نوجوان کو گفتگو میں مصروف رکھنا چاہتا تھا۔  اتنا تو اسے معلوم ہو گیا تھا کہ نوجوان اپنے ساتھی کے انتظار میں ہے ورنہ وہ اسے اتنی دیر برداشت نہیں کرتا۔  لیکن اگر وہ ادھر متوجہ ہو گیا اور اس نے رسی کو ڈھیلا ہوتے دیکھ لیا تو ممکن ہے مشتعل ہو کے اسے پہلے ہی ختم کر دے۔  مائیکل نے خود کو احتیاط سے سیدھا اور بے حرکت کیا نوجوان کی طرف دیکھ کے اس کے ارادے کو جاننے کی کوشش کی۔  اسے محسوس ہوا کہ نوجوان کا جوش کچھ کم ہوا ہے اور وہ انتظار کی کیفیت میں ڈوبا ہوا ہے۔  مائیکل نے اسےمشتعل کرنے کے لیے جواب دیا۔

’’ہم چاہتے تھے کہ مشرق وسطیٰ کے چہرے کو پوری طرح مسخ کر دیں۔  ۔  صدام ایک بڑی رکاوٹ تھا صرف بن لادن کو سزا دینا کافی نہیں تھا۔  ۔  کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ دہشت گرد عناصر امریکہ کو دو بارا نشانہ بنائیں۔  ۔‘‘ مائیکل نے قصداً اپنے لہجے کو سختی اور تکبر سے دو آتشہ کیا۔  ۔  اس کا وار ٹھیک بیٹھا۔  نوجوان مشتعل ہو کے پلٹا اور جذبات سے تپتی آواز میں اس نے کہا۔۔۔

’’تم سمجھتے ہو کہ عراق اور القاعدہ کا تعلق تھا یا ہے؟‘‘

’’ہاں‘‘…… مائیکل نے جواب دیا… ’’ہماری حکومت کے مطابق صدام کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔  وہ ایٹم بم بھی بنا سکتا تھا‘‘۔  ۔  مائیکل نے ڈھٹائی سے کہا

’’یہ بکواس تمہارے حکام نے دنیا کو بتانے کے لیے کی ہے جبکہ اصل وجہ ہمارے تیل کے کنوؤں پر قبضہ کرنا اور صدام سے اپنے گزشتہ حساب چکانا تھا‘‘ نوجوان نے تلملا کر کہا۔۔۔

اچانک مائیکل کو محسوس ہوا کہ اس کا ایک ہاتھ رسی کی گرفت سے آزاد ہونے کو ہے۔  اسے بہت احتیاط کی ضرورت تھی اور نوجوان کو باتوں میں لگائے رکھنا بہت اہم تھا۔  سو وہ بولا۔۔۔ ’’در اصل بش کا اصل منشور تو یہ ہے کہ دجلہ و فرات کے پانی اور موصل اور کرکوک کے تیل کے کنوؤں سے اپنی پیاس بجھائی جائے۔‘‘

نوجوان کے چہرے پر دکھ کی لہر آئی وہ بولا ’’تو اس سے ظاہر ہوا کہ تمہاری قوم کو اعلیٰ انسانی اقدار سے غرض نہیں۔  شرف انسانی تمہارا مسئلہ نہیں۔۔۔ تم جیسی مادیت پرست قوم کو کیا معلوم کہ عراق کا چپہ چپہ اسلامی آثار الصنادید کا حامل ہے۔  یہ دجلہ و فرات کے درمیان محض وادیِ عراق نہیں بلکہ اس کی تہذیب کا تسلسل تین سو سال قبل مسیح سے قائم ہے۔  عراق مشرق وسطیٰ کے قدیم ترین خطوں میں سے ایک ہے لیکن تم تہذیبیں مٹانے والے لوگ ہو تہذیبیں بنانے والے نہیں۔  ۔‘‘

مائیکل زیر لب مسکرایا۔  اس کا ایک ہاتھ رسیوں کی جکڑ بندھن سے آزاد ہو چکا تھا لیکن اس نے اسے پشت اسی طرح رکھے رکھا اور دوسرے ہاتھ کی رسی ڈھیلی کرنے کی سعی کرنے لگا جو اب زیادہ دیر کا کام نہیں رہا تھا۔

’’اچھا۔۔۔ تو تم بتاؤ کہ تم عسکریت پسندوں میں شامل ہونے سے پہلے کیا کرتے تھے؟‘‘

نوجوان نے بالائی سطح کے پار پھیلی سڑک کو بے چینی سے دیکھا شاید اسے دور تک اپنا آنے والا ساتھی نظر نہیں آیا۔  ۔  اس کے اندر اضطراب کی کیفیت بڑھتی جا رہی تھی۔  وہ غصے سے پھنکارا۔  ’’تو تمہیں میری کیا فکر پڑ گئی کہ میں کیا کرتا تھا اور کیا کرتا ہوں۔۔۔ میں اپنی محبوبہ کے ساتھ اس شہر کی سب سے بڑی جامعہ میں پڑھتا تھا جو اب کھنڈر بن چکی ہے۔۔۔ میں ایک شاعر ہوں اور اپنی محبوبہ کے لیے شعر کہتا ہوں۔۔۔ میری عقل نورانی جو وجدان سے نمو پاتی ہے اور واردات قلبی سے جگمگاتی ہے۔  اسے تمہاری قوم کی بد مستی نے بجھانے کی کوشش کی ہے کیونکہ تمہارے پاس نہ وجدان ہے نہ عشق۔  ۔  صرف وہ عقل ہے جو مادیت میں الجھی ہوئی ہے، جو عالم ماوراء سےبے بہرہ ہے اور فقط جسم کو دیکھ سکتی ہے۔  مادہ پرکھ سکتی ہے۔  اس پر معرفت کے دروازے نہیں کھلتے۔۔۔ جنگیں ہمیں ہماری وجدانی کیفیت سے گھسیٹ کے دور لے جاتی ہیں۔  جہاں صرف بقا کی جد و جہد رہ جاتی ہے۔  سو اب میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ جد و جہد کر رہا ہوں۔  تم جیسے حرص و ہوس کے مارے کو اس کے انجام تک پہنچانے کے لیے یہاں تک لایا ہوں اور جلد ہی یہ سب کر گزروں گا۔  ۔‘‘

مائیکل خباثت سے مسکرایا اس کا دوسرا ہاتھ کھل چکا تھا۔  ۔  کھڑے ہوتے ہی اس نے اپنی ٹانگیں سیدھی کیں اور اس سے پہلے کہ نوجوان کا رخ اس کی طرف ہوتا، وہ ہوا میں اچھلا تاکہ نوجوان کو قابو کر سکے۔  نوجوان پلٹا اور اس نے بندوق کا نشانہ باندھنا چاہا لیکن دیر ہو چکی تھی۔  مائیکل نے قریب آ کے اسےایسے زاویے سے دھکا دیا کہ اس کی بندوق اچھل کے دور ایک ٹوٹے چھجے پر جا کے اٹک گئی۔  اب وہ دونوں برق رفتاری سے گھتم گتھا ہو گئے۔  مائیکل ایک طاقتور اور قوی ہیکل فوجی تھا۔  بہت جلد اس نے نوجوان کو گرفت میں لے لیا اور اسے زمین پر چت لٹا دیا۔  نوجوان پھرتیلا اور غصے سے بھرا ہوا تھا اس نے اپنی دونوں مضبوط ٹانگوں کی مدد سے مائیکل کو دھکیلا، اکھاڑے کے پہلوانوں کی طرح جیت اور مات کی جنگ ہوتی رہی لیکن مائیکل اس پر حاوی تھا۔  بالآخر اس اکھاڑ پچھاڑ میں اس نے نوجوان کو زیر کر لیا اور اس کے سینے پر چڑھ بیٹھا۔  اب وہ دونوں ہاتھوں سے اس کی گردن دبوچ رہا تھا۔۔۔ نوجوان کی سانس اٹکنے الجھنے لگی۔  وہ خود کو چھڑانے کی سعی میں تڑپنے لگا۔  مائیکل حیوانیت سے مسکرایا اس نے اس کی گردن سے ہاتھ ہٹا دیئے اور بہت رسان سے بولا۔  ’’صرف چند لمحے اور نوجوان۔۔۔ پھر تم ٹھنڈے پڑ جاؤ گے اب تمہیں میرے ہاتھوں مرنا ہے لیکن تم سے میرا وعدہ ہے کہ میں تمہاری محبوبہ کے پاس ضرور جاؤں گا وہ بہت خوبصورت ہے میں اسے بھول نہیں پایا۔  کچھ دیر پہلے سیڑھیوں کے نیچے شاید وہ تمہارے لیے کھانا لے کر آئی تھی۔۔۔ مجھے تازہ کھانے کی خوشبو محسوس ہوئی تھی۔  ۔  پھراس کی آواز کا جلترنگ سنائی دیا۔  میں اس کی آواز اور اس کی آنکھیں لاکھوں میں بھی پہچان سکتا ہوں۔‘‘

نوجوان نے کراہتے ہوئے نفرت سے اسے دیکھا اور اس کے منہ پر تھوکنا چاہا مگر ایسا نہ کر سکا۔  مائیکل مسکرایا اب اس نے اطراف نگاہ دوڑا کے بندوق تلاش کرنی چاہی لیکن وہ دور تھی چھجے پر اٹکی ہوئی۔  ۔  اسے اتارنے کی کوشش خطرناک ہو سکتی تھی، نوجوان اس وقت سے فائدہ اٹھا کے اس پر حاوی ہو سکتا تھا۔  مائیکل نے سوچا گلا گھونٹنے کا عمل زیادہ دقت طلب ہے فوری اورآسان حل کچھ اور ہونا چاہیے۔  اس نے اپنی ٹانگوں سےنوجوان کو مضبوطی سے جکڑا اور قریب پڑا سیمنٹ کا ایک بھاری پتھر اپنی طرف کھسکا کے اٹھا لیا۔  پھر اپنے ہاتھ عقب میں لے جا کے نوجوان کے عین سر کا نشانہ لیا۔  پتھر اپنی پوری طاقت سے گرا اور مائیکل چکرا کے بائیں جانب لڑھک گیا۔  ۔  مائیکل کا سر پھٹ چکا تھا اس کے ہاتھ کا پتھر اس کے لڑھکنے سے پہلے اچھل کر بائیں جانب گر چکا تھا مائیکل کےسر پر لگنے والا پتھر کسی نامعلوم سمت سے آیا تھا اور پوری قوت سے اس کے سر پر گر کے خون سے سرخ ہو گیا تھا۔۔۔

اکھڑتی سانسوں اور ڈوبتی بینائی میں مائیکل کو قرب میں ایک نازک اندام ہیولیٰ دکھائی دیا اسے یوں لگا جیسے موت کے گرداب میں الجھتی زندگی کی تمام ہوتی ساعتوں میں جو آخری دید نصیب ہوئی ہے وہ ان کالی بھنورا سی آنکھوں کی ہے جو اس کے گرد دھمال ڈالتی موت کو دیکھ رہی ہیں۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

خاک بدر ۔۔۔ نجیبہ عارف

 

شہروں سے میرا عجیب سا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔  ایک ایسا رشتہ جو میں کسی کو بتا نہیں سکتی، دکھا نہیں سکتی، سمجھا نہیں سکتی۔  مگر میرے پیٹ کے اندر ناف کے پیچھے اس رشتے کی گرہ پڑ جاتی ہے جو بار بار مجھے اندر سے کریدتی اور خراشتی رہتی ہے۔  جب بھی میں کسی شہر میں داخل ہوتی ہوں تو پوری آنکھیں کھول کر، یعنی جس حد تک پوری میں کھول سکتی ہوں، بلکہ یوں کہیں کہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر، کھڑکی سے باہر جھانکتی ہوں۔  گاڑی کی کھڑکی سے۔

دل تو یہ چاہتا ہے کہ میں کسی اونٹ یا گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوتی اور اس طرح شہر میں داخل ہوتی کہ اس کی فضا کے رنگ، اس کی ہوا کی اجنبی مہک، اس میں امڈتی ہوئی آوازوں کا لمس اور اس کے باسیوں کی سانسوں کا دھواں میرے اندر گھل مل جاتا اور میں اس کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتی۔  اس نئے اور اجنبی شہر کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتی۔  کیسی ان ہونی سی بات ہے۔  اس مختصر سی زندگی میں کوئی کتنے شہروں سے گھل مل کر ایک ہو سکتا ہے۔  کبھی کبھی تو اس ایک شہر سے بھی نہیں جس میں ساری عمر کسی اجنبی کی طرح گزار دی جاتی ہے۔  لیکن پھر بھی میں شہروں کے لیے اپنے اندر ایک ایسی ہڑک، ایسی تڑپ محسوس کرتی ہوں جسے بیان کرنے کے لیے کوئی لفظ نہیں ملتا۔

یہ بات بہت عجیب اس لیے بھی ہے کہ میں عورت ہوں۔  مجھے عورت ہونے پر کوئی رنج ہے، نہ شکوہ شکایت۔  حتیٰ کہ کوئی فخر بھی نہیں۔  میں اسی طرح عورت ہوں جس طرح میرے آنگن میں کھڑا ٹاہلی کا بوڑھا پیڑ، ٹاہلی کا پیڑ ہے اور اس کے ارد گرد اگے ہوئے آم، جامن، سیب، امرود، لوکاٹ، شہتوت، کیلے اور بیری کے پیڑ، اپنی اپنی جگہ پر۔  حتیٰ کہ وہ دھریک بھی، جس کے زرد اور گول دھَرکونے توڑ توڑ کر میں بچپن میں مالا میں پرویا کرتی تھی اور خود کو یقین دلاتی رہتی تھی کہ یہ مالا دھَرکونوں کی نہیں، سچّے موتیوں کی ہے، عقیق یمنی کی ہے۔  کوئی اسے خود فریبی کہے تو کہے، مگر میں اسے خود فریبی نہیں مانتی۔  ہو سکتا ہے کہ سچ مچ عقیق یمنی کی مالا پہننے والا اپنے اندر وہ سرور محسوس نہ کرتا ہو، جو میں دھَرکونوں کی مالا پہن کر محسوس کر لیتی تھی اس لیے کہ مجھے وہ دھرکونے عقیقِ یمنی ہی نظر آتے تھے۔  ہماری زندگی ایسی ہی ہوتی ہے۔  جب تک دھرکونے عقیقِ یمنی نظر آتے رہتے ہیں، انسان ایک عجیب سے خمار میں رہتا ہے۔  خمار ٹوٹتا ہے تو انسان بھی اندر سے ٹوٹتا ہے اور ایک نئی صورت میں ڈھل جاتا ہے۔  خمار میں رہنا جتنا انبساط انگیز ہوتا ہے، خمار کا ٹوٹنا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔

تو مجھے اپنے عورت ہونے پر کوئی شرمندگی ہے نہ کوئی فخر۔  خوشی ہے، نہ غم۔  البتہ بعض باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے میرے اندر ایک کسک سی پیدا ہوتی رہتی ہے۔  باقی باتوں کو چھوڑیں، یہی شہروں والی بات لے لیجیے؛ یہ جو مجھے شہروں سے ایک عجیب سی دلچسپی ہے۔  چھوٹی بستیاں ہوں یا بڑی، گاؤں ہوں قصبے ہوں، چھوٹے موٹے غیر معروف شہر ہوں یا میٹرو پولیٹن۔  میرا جی چاہتا ہے جب کسی شہر میں جاؤں تو اس کے رستوں پر قدم رکھوں، پاؤں پاؤں چلوں، اس کی دھول کے ذروں کو چھو کے دیکھوں، اس کی پر پیچ گلیوں میں چلتی جاؤں، ان گلیوں میں کھُلنے والے دروازوں پر دستک دوں، ان دروازوں کے پیچھے بسی ہوئی دنیا میں جھانکوں، ان صورتوں کے نقش اپنی نظروں سے ٹٹول کر دیکھوں جو اس شہر کی مٹی میں ڈھالے گئے ہیں، چولہوں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں اور ہانڈیوں کے ڈھکن سے رس رس کر آتی خوشبو کا ذائقہ چکھوں اور کسی نہ کسی طرح خود کو اس شہر کی ہستی میں سمو لوں۔  یوں کہ موجود ہی نہیں، معدوم بھی مجھ پر روشن ہو جائے۔  حال ہی نہیں، ماضی کی پر اسرار گلی بھی مجھ پر کھل جائے۔  یہ دیوار و در جو آج ایسے ہیں، پہلے کیسے رہے ہوں گے، یہ تنگ اور پر رونق رستے پہلے کیسے ویران اور وسیع و عریض ہوتے ہوں گے۔  جہاں آج قبرستان ہے، وہاں پہلے کون سی بستی تھی؟ کن لوگوں کا ٹھکانہ تھا؟ کن خوابوں کا گلزار تھا؟ اور جہاں آج آبادی ہے، وہاں کیا ہمیشہ سے ویرانہ تھا؟ کیا یہ جگہ سچ مچ ہمیشہ خالی رہی تھی؟

یہ کیسی بے ضرر سی خواہشیں ہیں۔  انھیں پورا کرنے کی کوئی بھی کوشش سماج کے لیے کیا خطرہ بن سکتی ہے، مگر میں انھیں پورا نہیں کر سکتی کیوں کہ میں ایک عورت ہوں۔  میں راتوں کو اٹھ کر شہر کی سنسانی کا تجربہ نہیں کر سکتی، بازاروں کی دھکم پیل میں بلا وجہ دوپہروں کی دھوپ نہیں چکھ سکتی، شاموں کی نیلگونی چھونے کے لیے شہر سے باہر جاتے راستوں کے کنارے کسی پتھر پر نہیں بیٹھ سکتی، بغیر کسی منزل کے، یونہی برگ آوارہ کی طرح گاہ اڑتی، گاہ ڈولتی، ڈگمگاتی، گرتی ہوئی، گلیوں سے نہیں گزر سکتی۔  یہاں تک کہ میں کسی سے اپنی اس محرومی کا ذکر بھی نہیں کر سکتی۔

میں جانتی ہوں ہر کوئی کہے گا، بے مقصد گھومنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ کوئی کام ہے تو بے شک جاؤ، کام کر کے واپس آ جاؤ۔  راستوں میں ڈولنا ڈگمگانا بھی کوئی اچھی بات ہے بھلا؟ یہ تھڑوں پہ بیٹھنا، چوکوں میں بے سبب کھڑے رہنا، ریڑھی بانوں سے باتیں کرنا، راہ چلتی گایوں، بکریوں، کتوں اور بلیوں پر ہاتھ پھیرنا اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا، یہ سب کیا ڈرامے بازی ہے۔  لاحول ولا قوۃ۔

بچے بھی کہیں گے، امّاں آپ کیوں اتنی جذباتی ہو رہی ہیں۔  گاڑی میں بیٹھیں اور بتائیں کہاں جانا ہے، ہم آپ کو لے جاتے ہیں۔

میں ان سے کہہ نہیں پاتی، کہ مجھے کسی خاص جگہ پر نہیں جانا، بس شہروں سے ہاتھ ملانا ہے، ان کو گلے لگانا ہے، ان سے دکھ سکھ پھولنے ہیں۔  یہ پوچھنا ہے کہ۔۔۔ بلکہ، کچھ بھی نہیں پوچھنا، بس ان کے اندر اتر کر سب کچھ پوچھے بغیر ہی جان لینا ہے۔

مگر کیوں؟ کس لیے؟ یہ سوال ان کے چہروں پر اتنی شدت سے لکھا جائے گا کہ میں گونگی ہو جاؤں گی۔  مجھے خود معلوم نہیں کہ میں شہروں میں، بستیوں میں، کیا ڈھونڈتی ہوں۔  بہت سوچتی ہوں مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

پچھلی تین دہائیوں سے میں ایک ہی شہر میں رہ رہی ہوں۔  اسے ایک چھوٹی سی بستی سے ایک بڑا شہر بنتے میں نے خود دیکھا ہے۔  قدم بہ قدم، لحظہ بہ لحظہ۔  وہ موڑ جو پہلے تھے، اب نہیں رہے۔  وہ جگہیں جہاں پہلے سبزہ و گل کی شادابی تھی، اب کنکریٹ کی سنگلاخی میں بدل گئی ہیں۔  نئے نئے پُل بن گئے ہیں، انڈر پاتھ، اوور ہیڈ برج اور نئے نئے یو ٹرن۔  ان سب منظروں سے مانوس ہونے میں وقت لگتا ہے۔  ابھی پچھلا راستہ یاد نہیں ہوتا کہ ایک اور راستہ بن جاتا ہے۔  پہلا یو ٹرن بند ہو جاتا ہے اور ایک اور یو ٹرن کھل جاتا ہے۔  ہر شے اتنی تیزی سے بدلتی ہے کہ مانوس ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا۔  دیکھتے دیکھتے راستے کے دونوں طرف اونچی اونچی عمارتوں کا جنگل اگ آتا ہے۔  ہر روز سڑک پر سیکڑوں نئی گاڑیاں امڈ آتی ہیں۔  ٹریفک کے نئے اشارے لگ جاتے ہیں، پرانے بند ہو جاتے ہیں۔  جہاں کل رکے تھے، وہاں آج نہیں رکنا، جہاں سے کل گزر گئے تھے، وہاں آج ٹھہر جانا ہے۔  سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں؟ بس سانس رکنے لگتی ہے۔

اسی لیے جب سب پوچھتے ہیں کہ میرا کس شہر سے تعلق ہے؟ تو میں سوچ میں پڑ جاتی ہوں۔

میں یقین سے کچھ بھی نہیں کہہ پاتی کہ میرا شہر کون سا ہے۔

ایک شہر وہ تھا، جہاں میں پیدا ہوئی تھی۔  جس کی گلیوں میں ہر وقت دھول اڑتی تھی اور ہوا میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ اس طرح سموئی ہوئی تھی جیسے پرانے ریڈیو پر چلنے والے گانے کی آواز میں ریڈیو کی گھسی ہوئی مشینری کی خرخراہٹ۔  توجہ نہ دیں تو سنائی بھی نہیں دے گی لیکن ذرا توجہ اس طرف ہو جائے تو گانا سنائی دینا بند ہو جاتا ہے اور وہی خرخراہٹ کانوں میں گونجنے لگتی ہے۔  زندگی کی ربع صدی اسی شہر اور اس کے قرب و جوار میں گزر گئی لیکن کبھی اس شہر کو مکمل یقین اور اعتماد سے اپنا کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔  ہمیں یہی بتا یا گیا تھا کہ ہم اس شہر کے نہیں۔  اس شہر کے باسیوں کی بولی ہماری بولی نہیں، یہاں کے کھانے ہمارے کھانے نہیں، یہاں کے پہناوے ہمارے پہناوے نہیں۔  دیکھو شہر میں نہیں جانا، اکیلے نہیں گھومنا، گلی کے بچوں سے نہیں کھیلنا۔  ہم یہاں پردیسی ہیں۔

یہ پردیس ویسا نہیں تھا جیسا ملک بنتے ہوئے کئی خاندانوں کے نصیب میں آیا تھا۔  بس اتنی سی بات تھی کہ اس شہر میں آباء و اجداد کی قبریں نہیں تھیں۔  تعلیم اور روزگار کے لیے اختیار کردہ شہروں میں کتنا بھی رہ لو، مرنا پَرنا اپنے اپنے دور دراز پس ماندہ گاؤں میں ہی سجتا ہے۔  مرنے والوں کے لاشے اٹھا کر ’’پیچھے‘‘ جانے کا خبط آدمی کو نئے شہروں سے جڑنے نہیں دیتا اور زندگی کے دن رات ایک نئی فضا میں گزارنے کی عادت ’’پیچھے‘‘ کے خالی مکانوں میں بس جانے کے خیال سے وحشت پیدا کرتی رہتی ہے۔  آدمی بیچ میں کہیں لٹک جاتا ہے۔  آخر ایک جگہ پر کتنی دیر تک پردیسی بن کے رہا جا سکتا ہے۔  اتنے برسوں میں تو سوکھی ہوئی گٹھلی بھی جڑ پکڑ لیتی ہے۔  مٹی کے بطن میں اتر کر سر سبز ہو جاتی ہے۔

ہم نہ نہ کرتے بھی شہر سے جڑ گئے تھے۔  البتہ عدم تحفظ اور بیگانگی کی ایک پھانس بھی ساتھ ساتھ چبھتی رہتی تھی۔  حالانکہ وہ اچھے زمانے تھے۔  بچے شہر میں گھوم گھام کے واپس گھروں کو آ جایا کرتے تھے۔  یہ گھومنا گھامنا لیکن کسی ضروری کام سے ہی ہوتا تھا، اس کے سوا نہیں ہو سکتا تھا۔  راشن ڈپو سے آٹا اور چینی لینے، کریانہ سٹور سے ٹوٹا چاول لینے، بیکری والے کے گھر سے تازہ تازہ رس لانے، سکول کے مینا بازار کی ٹکٹیں بیچنے، اچانک ختم ہو جانے والی کاپی، یا دوات کی روشنائی خریدنے یا سول ہسپتال سے کھانسی کا مکسچر بنوا کر لانے کے لیے ہم باہر نکل ہی جایا کرتے تھے۔

ایک وقت تھا کہ ہائی سکول کی عمارت کے پیچھے سر سبز کھیت ہوا کرتے تھے۔  ان کھیتوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی پگ ڈنڈیاں تھیں۔  شہر کے گرد آلود ماحول سے گھبرا کر اس سرسبزی کا حصہ بن جانا میرا سب سے بڑا خواب ہوا کرتا۔  جب بھی موقع ملا، اور یہ موقع زندگی میں ایک دو بار سے زیادہ نہیں ملا، میں دونوں بازو کھول کر اندھا دھند ان پگ ڈنڈیوں پر بھاگ پڑی اور ہوا سے دوستی کا پیمان باندھا۔  یہ پیمان آج تک نہیں ٹوٹا۔  ہوا کے ساتھ اڑ جانے اور آکاش کو چھو آنے کی تمنا تو پوری نہیں ہوئی، مگر اس کا فریب کھا کر بھی دل خوش ہو گیا تھا۔  وہ اہتزاز بھرے لمحے آج بھی اسی طرح حافظے کے گودام میں جگمگاتے ہیں۔  دوسری چیزوں کی طرح ان کی تاب مدھم نہیں پڑی۔

دوسرا خواب شہر کی سرحد پر بہتے دریا کے کنارے جا کر بیٹھنے کا تھا جو شاید کبھی پورا نہیں ہوا۔  بہتے ہوئے دریا، ان کی وحشی، منہ زور موجیں، ان کے اندر ڈسکو لائٹ کی طرح جگمگاتے اور جلتے بجھتے ہوئے بلبلے، ان کے کناروں پر اگی دریائی گھاس کے لمبے لمبے ڈنٹھل جو سانپوں کی طرح سرسراتے ہیں، اور ان کے سروں پر لگی سفید ریشمی سی جھالر جس کا خوابناک لمس آنکھیں بند کر دیتا ہے؛ مجھے ہمیشہ ان منظروں کا حصہ بن جانے کی شدید آرزو رہی، مگر کوئی کیسے منظر کا حصہ بن سکتا ہے، یہ کبھی نہ جان پائی۔  البتہ یہ احساس ہمیشہ رہا کہ جس شہر میں، میں رہتی ہوں، اس کے ایک کنارے سے دریا کی موجیں ہمہ وقت سر ٹکراتی ہیں اور شاید مجھے ڈھونڈتی ہیں۔  میں کسی روز ان موجوں سے ملنے ان کے اندر اتر جاؤں گی۔

میں نے دنیا کے کئی مشہور دریا دیکھے ہیں۔  گہرے اور پانیوں سے بھرے ہوئے، مگر ایک نظم و ضبط اور سکون سے، اپنے اپنے کناروں کے اندر، بڑی متانت اور وقار سے چلتے ہوئے۔  مجھے کبھی ان کے اندر اترنے کی خواہش نہیں ہوئی۔  ہمیشہ اپنے ہی دریا یاد آتے رہے۔  ان گھڑ اور ناقابلِ اعتبار، اسرار اور اندھیرے سے بھرے ہوئے، کچھ پتا نہیں چلتا، کہاں سے اتھلے ہیں، کہاں جا کر اچانک گزوں نیچے اتر جاتے ہیں۔  کبھی کبھی تو کنارے پر کھڑے آدمی کو سالم دبوچ لیتے ہیں۔  ان کے ساتھ رہنا مسلسل ایک بے یقینی کا شکار رہنے کے مترادف ہے۔  اس بے یقینی میں خوف بھی ہے اور تجسس بھی۔  کسی ان ہونی کا ڈر بھی اور اس کی آرزو بھی۔

میں کبھی اپنے دریا سے ملنے نہ جا سکی۔  ہو سکتا ہے چلی جاتی تو یہ شوق بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ پاتا مگر ایسا ہوا نہیں۔  اپنے شہر کے نہ ہونے کا احساس، اپنے دریا سے نہ ملنے کا رنج؛ بس ایسی ہی الٹی سیدھی باتوں نے مجھے ہمیشہ ایک ہجر کی کیفیت میں مبتلا رکھا۔  ایک ہجر مسلسل، جس میں وصال کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا۔

شاید یہی ہجر پسندی مجھے ان شہروں سے جڑ جانے سے روکتی رہی ہے جن میں عمر بتا دی۔  شہر کا حصہ ہونے کے باوجود اس کے بطن میں اتر کر نمو کرنے اور پھوٹ نکلنے میں حائل ہوتا رہا ہے۔  گملے میں اگے ہوئے پودے کی طرح اُتھلا اُتھلا اور بے پیندے کے لوٹے کی طرح، استقامت اور استحکام سے خالی رہنا مجھے اندر سے چبھتا رہا ہے۔  مجھے لگتا ہے کہ جب تک کوئی شہر، کوئی بستی، پیچھے ٹیک لگانے کو موجود نہ ہو، تب تک جم کر کھڑا ہونا مشکل ہوتا ہے۔

اسی لیے میں بار بار خود کو بتاتی ہوں کہ اب یہی میرا شہر ہے جہاں تین دہائیوں سے زندگی ڈھو رہی ہوں۔  یہیں میرے بچوں کی آنول نال گڑی ہے، شاید یہیں میری خاک کو ٹھکانہ بھی مل جائے۔  لیکن دل کو پوری طرح یقین نہیں آتا۔

جب ہم یہاں آئے تو یہ ایک مختصر سی، چھوٹی سی بستی تھی۔  چھوٹی مگر جدید۔  سڑکیں دو طرفہ تھیں۔  ان کے ساتھ ساتھ کشادہ گرین بیلٹ چلتی تھی جس پر ہری بھری گھاس اگتی، سنبل، کچنار اور املتاس کے لمبے لمبے چھتنار کھڑے ہوتے اور جنگلی پھولوں سے بھری جھاڑیاں ہوتیں۔  بہار اور خزاں، دونوں موسموں میں اس شہر کی سڑکوں پر سرخ، نارنجی، سفید اور کاسنی پھولوں کی پتیاں برستی رہتیں اور بارش میں چنبیلی کی خوشبو چھینٹے اڑاتی پھرتی۔  نیلے اور سرمئی پہاڑ شہر کے اطراف میں یوں ایستادہ رہتے، جیسے سچ مچ کے نہ ہوں، ایزل پر دھرے کینوس کے نقش ہوں۔  ان پہاڑوں کے دامن میں دور دور سے پرندے آ کر بسیرا کرتے تھے۔  کوکتے تھے، چہچہاتے تھے، اٹھلاتے ہوئے اڑتے تھے، گھروں کی منڈیروں پر آ کر بیٹھ جاتے تھے، لان کی گھاس کھود کر شکار تلاش کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔  گلہریاں درختوں کے تنوں کے آس پاس منڈلاتی تھیں۔  آبادی سے ذرا سا دور جاتے تو بندر بچوں کے ہاتھ سے چپس کے پیکٹ چھیننے کو پہنچ جاتے تھے۔  کبھی کبھی تو چیتا بھی کشمیر کے پہاڑوں سے رستہ بھول کر، چوٹیاں پھلانگتا، اس طرف آ نکلتا تھا۔  شام کے بعد اس کی دھاڑ، کئی بار ہم نے خود سنی تھی۔

کیسا عجیب شہر تھا، ملک کا صدر مقام، مگر آبادی اتنی کم کہ مرکزی شاہراہوں کو چھوڑ کر اطراف کی سڑکوں پر دیر دیر بعد کوئی گاڑی دکھائی دیتی تھی۔  سب چیزیں قریب قریب اور کم کم ہوتی تھیں۔  وہ گھر جس میں یہاں ہم آنے کے بعد تقریباً پانچ سال تک ٹھہرے تھے، شہر کے مرکز سے زیادہ دور نہیں تھا مگر گلی کو لگتی پچھلی سڑک کے ساتھ جو بڑی سی گرین بیلٹ تھی، اس کے پیڑ پودے اتنے گھنے تھے کہ لوٹے جانے کے ڈر سے دن کے وقت بھی کوئی وہاں سے نہیں گزرتا تھا۔  حالاں کہ اس گرین بیلٹ کے پار شہر کا سب سے بڑا میڈیکل کمپلیکس تھا جس میں رات کو اتنی بتیاں جلتی تھیں کہ دور سے نظر آتی تھیں اور ہم کڑھتے تھے کہ خالی عمارت میں اتنی بتیاں کیوں جل رہی ہیں۔  اسی سڑک کے ایک کنارے پر، جہاں بعد میں بہت بڑا پارک بن گیا، صنعتی نمائش لگا کرتی تھی۔  ہم پیدل اس نمائش میں چلے جایا کرتے تھے۔  میدان صاف کر کے خیمے لگ جاتے تھے۔  موت کا کنواں، آدھے دھڑ کی عورت، بچوں کے ریں ریں کرتے لکڑی کے جھولے، چنا چاٹ، دہی بڑے اور گول گپوں کے ٹھیلے۔  یہ تو تفریح کا سامان تھا، مگر ملک کے ہر حصے سے دست کار، چھوٹے، گھریلو صنعت کار اور بڑے تاجر بھی اپنے سٹال لگاتے تھے اور چھوٹے شہر میں خریداری کے بڑے مواقع پیدا ہو جاتے تھے۔  جب یہاں پارک کی دیوار بننی شروع ہو گئی تو نمائش گاہ پہلے شہر سے دور لے جائی گئی، پھر چند سال بعد اس نمائش گاہ کو پریڈ گراؤنڈ میں بدل دیا گیا اور نمائشوں کی روایت منقطع ہو گئی۔  ہوئی نہیں، کر دی گئی۔  جو بچے پچھلی ڈیڑھ دہائی میں پیدا ہوئے انھیں کیا معلوم کہ موت کا کنواں کیا ہوتا ہے اور آدھے دھڑ کی عورت کیا کہتی ہے۔  انھیں یہ بھی معلوم نہیں ہو پاتا کہ ہنزہ اور گلگت سے آنے والی سوکھی ہوئی خوبانی اور چیری کا ذائقہ کیسا ہے، کھڈی کے کھیس کہاں بنتے ہیں، نیلی ٹائلوں کا کام کس شہر کی پہچان ہے اور اونی شالوں پر کشیدہ کاری کون کرتا ہے؟ انھیں تو صرف ان برینڈز کا پتا ہے جن کے اشتہار دن رات ٹی وی پر چلتے ہیں اور بل بورڈز پر جگمگاتے ہیں۔

اسی سڑک کے دوسرے کنارے پر چوک کے ساتھ، ایک بڑا سا پختہ فوارہ تھا جو شام کو چلتا بھی تھا۔  گرمیوں کی حبس بھری شاموں میں کمروں کی مصنوعی فضا سے اکتا کر لوگ اپنے بیوی بچوں سمیت اس فوارے کے حوض کی منڈیروں پر آ کر بیٹھ جاتے تھے یا اس کے ارد گرد گھاس کے قطعوں پر چہل قدمی کیا کرتے تھے۔  ہماری بیٹی نے بھی اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ کے پاؤں پاؤں چلنے کی مشق انھی منڈیروں پر کی تھی۔  پھر جب یہ سڑک دو رویہ ہوئی اور اس کے ایک طرف گرین بیلٹ پر ایک عالیشان کثیر منزلہ عمارت کھڑی ہو گئی، جس کے نچلے حصے میں ایک بہت بڑا شاپنگ مال اور اوپر اپارٹمنٹ تھے، تو ہریالی کے ساتھ ساتھ یہ ماحول بھی فنا کے گھاٹ اتر گیا۔  اب اس چوک پر ایک بہت بڑا اوور ہیڈ برج ہے۔  ساری کی ساری گرین بیلٹ چوڑی چوڑی یک طرفہ سڑکوں میں بدل گئی ہے۔  کنکریٹ کا سلیٹی مکڑا ہر طرف اپنی ٹانگیں پھیلائے کھڑا ہے۔

پہلے اس شہر میں قدیم طرز کے بازار تھے نہ شاپنگ مال، صرف مارکیٹیں تھیں۔  ایک خاص ترتیب اور منصوبہ بندی سے بنی ہوئی۔  ہر رہائشی علاقے کے مرکز میں ایک مارکیٹ تھی جس میں گنی چنی چند ایک دکانیں ہوتیں۔  اکا دکا ہی کوئی پلازا ہوتا تھا۔  بس عام سی ایک منزلہ دکانیں، جن کے سامنے گاڑی کھڑی ہو جاتی تھی۔  لوگ اطمینان سے خریداری کرتے اور سکون سے واپس آ جاتے۔  بڑی شاہراہوں پر چوکوں میں ٹریفک سگنل نصب تھے اور کسی کسی چوک میں کافی دیر تک اشارہ سبز ہونے کا منتظر بھی رہنا پڑتا تھا مگر اکثر چھوٹی سڑکوں پر یونہی زرد بتی ٹمٹماتی رہتی اور گاڑیاں اپنی رفتار سے گزرتی رہتیں۔  ایک دھیرج سا تھا شہر کی فضا میں۔  اتنا دھیرج کہ کئی لوگ اسے اداسی اور بے رونقی کہتے تھے۔  خاص طور پر عید تہوار کی چھٹیوں میں تو شہر بالکل خالی ہو جاتا۔  خاکروب تک چھٹی پر چلے جاتے اور سڑکوں پر زرد اور نسواری پتے بے فکری سے اڑتے پھرتے۔  ہم خود کبھی کسی تہوار پر یہاں نہیں رہے۔  ہمیشہ، ہر سال، سسرال جا کر عید کرنے کی پابندی کی۔  خوشی ہو یا غم، اس شہر میں نہیں منایا۔  شاید یہی وجہ ہو کہ تقریباً تین دہائیاں گزر جانے کے باوجود اس شہر کو کھل کر اپنا کہنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔

اب تو گھر سے باہر نکلیں تو اپنائیت کا اتنا سا احساس بھی نہیں ہوتا جتنا کسی بھی ایسے شہر میں نکل کر ہوا کرتا ہے جہاں کچھ عرصہ اقامت رہی ہو۔  ہر بار ایک نئی سڑک کی تعمیر یا تخریب کا سندیسہ ملتا ہے۔  اس شہر کی سب نئی یک طرفہ سڑکیں ہمارے راستے مسدود کر کے بنائی گئی ہیں۔  ہر بار وہ ساری نشانیاں، جو ہم نے راستوں کے سنگ میل کے طور پر مقرر کر رکھی ہوتی ہیں، مٹ جاتی ہیں اور ہم نئے سرے سے رستہ ڈھونڈنے کی حیرانی میں کھو جاتے ہیں۔  گھر سے دفتر جاتے ہوئے وہ جو ایک حساب سا ہوتا ہے کہ فلاں پل پر پہنچ جائیں گے تو گویا دس منٹ کا رستہ رہ جائے گا اور فلاں گلی سے باہر نکلیں گے تو پانچ منٹ باقی ہوں گے، وہ سارا حساب چوپٹ ہو جاتا ہے۔

اور تو کچھ نہیں ہوتا بس ایک الجھن سی دل میں ہوتی رہتی ہے جیسے ہم پھر سے کسی نئی جگہ پر آ گئے ہوں۔  ہر بار پھر سے خود کو شہر سے مانوس کرنا پڑتا ہے، جیسے شہر نہ ہو کرائے کا مکان ہو جس میں ہر بار نئے سرے سے آباد ہونا پڑے۔  پچھلے کچھ برسوں کے دوران تو ایک اور وبا شہر میں پھیل گئی۔  سیکیورٹی کے لیے جگہ جگہ ناکے لگ گئے۔  سڑکوں پر رکاوٹیں اس طرح کھڑی کر دی گئیں کہ ہر گاڑی ایک تنگ سی گلی نما جگہ سے زگ زیگ کرتے ہوئے گزر سکتی ہے بس۔  اچھی بھلی رفتار سے گاڑی چلی جا رہی ہے اور مسافر کسی دھیان میں گم ہیں کہ اچانک سامنے سرخ سرخ تکونوں کی قطار سی نظر آ جاتی ہے۔  مطلب یہ کہ جس لین میں گاڑی جا رہی تھی وہ لین اب بند ہے۔  دوسری لین میں داخل ہونے کی کوشش کریں تو پچھلی گاڑی کا ڈرائیور گھور کر دیکھتا ہے۔  درمیان میں تھوڑی سی جگہ ہے جس پر مصروف اوقات میں لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور گاڑیاں یکایک چیونٹی کی رفتار اختیار کر لیتی ہیں۔  ایک بار کہیں پڑھا تھا کہ جب لندن میں گھوڑا گاڑیاں چلا کرتی تھیں تو زیادہ سے سے زیادہ رفتار پندرہ بیس میل فی گھنٹہ ہوا کرتی تھی۔  اب تیز ترین، جدید اور خود کار گاڑیاں آ گئی ہیں مگر لندن شہر میں ٹریفک کی اب بھی یہی رفتار ہے۔  جب بھی یہ بات یاد آتی ہے، دل پر سناٹے کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔  یہ بھی خیال آتا ہے کہ ہم تو لندن امریکہ میں نہیں رہتے، پھر بھی ہماری رفتار کے سامنے بار بار سرخ تکونوں کی قطار لگ جاتی ہے۔  ہماری سیکیورٹی کے بہانے یہ کون ہے جو ہمارے آگے بڑھنے پر نظر رکھتا ہے اور اپنی مرضی کے راستوں کے سوا کسی اور راستے سے گزرنے نہیں دیتا۔  ہمارے اہم موڑ اور ضروری یو ٹرن بند کر دیتا ہے، جس سے مختصر راستے طویل ہو جاتے ہیں اور منزل حقیقت سے زیادہ دور معلوم ہوتی ہے۔  ہمیں اپنے شہر بھی اپنے نہیں لگتے۔  ایسے لگتا ہے دشمن کے علاقے میں داخل ہو گئے ہوں۔

ہم تو پہلے ہی اپنے شہروں میں اجنبیوں کی طرح مارے مارے پھرتے ہیں اور اپنے دانش وروں کو ارضی و سماوی ثقافتوں اور شناختوں میں الجھتے اور ایک دوسرے کو رد کرتے دیکھتے سنتے ہیں۔  اس ساری بحثا بحثی میں، ترقی اور اس کے الحاقات میں، عالمِ حقیقت اور عالمِ مثال کی کش مکش میں، اور کچھ ہو نہ ہو، میرا شہر ضرور گم ہو گیا ہے۔  جیسے ہاتھیوں کی لڑائی میں شامت بے چاری مورِ بے مایہ کی آتی ہے۔  میں بھی خود کو اس چیونٹی کی طرح محسوس کرنے لگی ہوں جو کمر پر زندگی کا بوجھ لادے اپنی بستی ڈھونڈتی پھرتی ہے اور ایک آواز ہے کہ مجھ سے پوچھے جاتی ہے کہ میں کس شہر کی ہوں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے