غزلیں ۔۔۔ جلیل حیدر لاشاری

خلاؤں سے کوئی مجھ کو بلانے آ نہ جائے

بہت دن ہو گئے ہیں اس زمیں پر مجھ کو آئے

 

جو اندر سے مقفل ہو، نہ ہوں جس میں مکیں بھی

کوئی ایسے مکاں کا در کہاں تک کھٹکھٹائے؟

 

اُجالے بڑھ گئے اتنے، نہیں دِکھتا ہے کچھ بھی

کہیں سے کوئی تھوڑا سا اندھیرا ڈھونڈ لائے

 

مسلسل ہوں سفر میں اور مسافر بھی نہیں ہوں!

کوئی بن کے مری منزل مری راہوں میں آئے

 

سوئی آنکھیں جگانے کو کئی پھرتے ہیں دانا

کھُلی آنکھوں کو بھی حیدرؔ کوئی آ کر جگائے

٭٭٭

 

تیرے بخشے ہوئے ہر زخم کو سینا ہے مجھے

تجھ پہ شک تک نہ ہو، اتنا تو قرینہ ہے مجھے

 

مجھ سے وابستہ کئی لوگ ہیں جن کی خاطر

زندگی زہر ترا اور بھی پینا ہے مجھے

 

اجنبی لوگ ہیں اور دور وطن ہے اپنا

میرا تونسہ بھی لگے آج مدینہ ہے مجھے

 

چھین لیتے ہیں وہ جینے کا بہانہ بھی جلیل

اور کہتے ہیں کہ ہنستے ہوئے جینا ہے مجھے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے