غزل ۔۔۔ اعجاز عبید

خاموش ہیں لب، کوئی دعا ہی نہیں آتی

ایسی تو کبھی دل پہ تباہی نہیں آتی

 

تجھ بن بھی گزرتے ہیں مرے دن بہت اچھے

دینی مجھے جھوٹی یہ گواہی نہیں آتی

 

خوشبو تری لاتی ہے، چلی جاتی ہے یکلخت

ہاتھوں میں مرے بادِ صبا ہی نہیں آتی

 

کرتا ہے جو وہ جور و ستم، کرتا رہے گا

دینی مجھے ظالم کو سزا ہی نہیں آتی

 

تعمیل سدا کرتے رہے، حکم کسے دیں

ہم فقر میں اچھے ہیں کہ شاہی نہیں آتی

 

در ذہن کے وا ہیں، پہ نہیں آتی نئی سوچ

کھڑکی ہے کھلی، تازہ ہوا ہی نہیں آتی

 

تعریف بھی کرتا ہوں تو ملتے نہیں الفاظ

حق میں جو ترے ہو وہ دعا ہی نہیں آتی

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے