غزلیں ۔۔۔ سلیمان جاذبؔ

عکس مسمار کرتا جاتا ہوں

روز اک آئنہ بناتا ہوں

 

فون کرتا ہوں بار ہا ہر شب

جاگتا ہوں، اسے جگاتا ہوں

 

جب بھی آتا ہے یاد تو مجھ کو

نام تک اپنا بھول جاتا ہوں

 

کیا عجب ہے کہ تیز آندھی میں

اک دیا سا میں ٹمٹماتا ہوں

 

وہ کہانی مجھے نہیں ازبر

روز دنیا کو جو سُناتا ہوں

 

چند خوشیوں کے واسطے جاذبؔ

روز کتنے ہی غم کماتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

اپنے ہونے سے تو مُکر گیا ہے

پیار کا بوجھ کیا اُتر گیا ہے

 

کوئی ملتا نہیں گریباں چاک

اس کا مطلب ہے قیس مر گیا ہے

 

پھر سے فصل بہار آنے تک

پھول دل کا بکھر بکھر گیا ہے

 

تو کہاں ہے اُسے نہیں معلوم

ڈھونڈنے تجھ کو در بدر گیا ہے

 

آئنے کو بنانے والا بھی

آئنہ دیکھتے ہی ڈر گیا ہے

 

کب یقیں آئے گا تجھے جاذبؔ

اپنے وعدے سے وہ مُکر گیا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے