’’سفر آشنا‘‘ کی باز قرأت: منزل منزل عشق و جنوں ۔۔۔ ڈاکٹر مشتاق صدف

پروفیسر گوپی چند نارنگ اردو زبان و ادب کے ایک دیو قامت نقاد اور محقق ہیں۔ انھوں نے تحقیق و تنقید، زبان، لسانیات اور تھیوری کے شعبہ میں بے پناہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی ہے۔ ان کی ہر تحریر ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ ’سفر آشنا‘ جو ان کے بیرونی ممالک کا سفر نامہ ہے، آج بھی ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ اس کی اشاعت کے ساتھ ہی پروفیسر نارنگ کا شمار بھی ممتاز سفر  نامہ نگاروں میں ہوا۔

دراصل اردو والوں میں بیرون ممالک کا جتنا سفر پروفیسر نارنگ نے طے کیا ہے کسی دوسرے ادیب و شاعر نے شاید ہی کیا ہو۔ 1981 میں انھوں نے مختلف یونیورسٹیوں اور متعدد ادبی تنظیموں و انجمنوں کی خصوصی دعوت پر جرمنی، ناروے، امریکہ اور برطانیہ کے لیے رختِ سفر باندھا اور وطن واپسی پر جب انھوں نے اس سفر کی روداد کو ’سفر آشنا‘ میں پیش کیا تو اس کی خوب خوب پذیرائی ہوئی۔ ایک تجسس یہ بھی تھا کہ پہلی بار اس ممتاز نقاد اور محقق کی تخلیقی نثر ’سفر آشنا‘ کی شکل میں ہمارے سامنے آئی تھی۔ اس کتاب کی نثر اتنی دلکش اور دل پذیر ہے کہ اسے پڑھ کر آج بھی لوگ سر دھُنتے ہیں۔ دراصل ’سفر آشنا‘ ایک سفر نامہ یا داستانِ سفر ہی نہیں بلکہ سفیرِ اردو کا ایک ایسا محضر نامہ ہے جس میں حالات و واقعات کا ایک دریا موجزن ہے۔ یہ محضر نامہ اردو کے عالمی رشتوں کا ایک خوبصورت منظرنامہ بھی ہے اور اردو کی نئی بستیوں میں اردو کے فروغ کے امکانات کو بھی ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔

’سفر آشنا‘ کے پانچ حصے ہیں۔ پہلا حصہ ’سیلِ سفر: فرینک فرٹ، کیسل، مغربی جرمنی‘ ہے جس میں ہائیڈل برگ اور اقبال و عطیہ فیضی کا خصوصی طور پر ذکر آیا ہے۔ اس سے جرمنی میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی، ہمبرگ یونیورسٹی اور بیڈگاڈز برگ کے اداروں میں اردو پڑھائے جانے کی اطلاع بھی ملتی ہے اور جس سے اردو کی ان نئی بستیوں میں اس عہد کے درس و تدریس اور تحقیقی نوعیت کے کام سے آگاہی بھی حاصل ہوتی ہے۔

دوسرا حصہ ’شجر سایہ دار‘ ہے جس میں ہیتھرو لندن، واشنگٹن نیشنل، ٹورنٹو انٹرنیشنل کا ذکر آیا ہے۔ اس میں یارک یونیورسٹی، میڈیسن، سٹی سنٹر اور ایٹن پلازہ وغیرہ کی بڑی خوبصورتی سے تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس حصہ میں اردو تہذیب سے رشتہ کو پر اثر انداز میں بیان کیا گیا ہے اور خصوصاً انجمن اردو کنیڈا کی اردو خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

تیسرا حصہ ’بہر سو رقصِ بسمل‘ ہے جس میں اردو کے نئے گہوارہ لندن کے سفر کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس حصہ میں لندن کی خوبصورتی، لندن کے موسم، لندن کی صبح و شام اور لندن کی زندگی کو بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سیل سفر میں زہرہ نگاہ کے گھر پر فیض احمد فیض، افتخار عارف، ساقی وغیرہ کا ذکر خاص بھی آیا ہے۔ اس موقع پر فیض نے اپنی جو غزل سنائی تھی اور جو نظم ’عشق اپنے قیدیوں کو پابجولاں لے چلا‘ پڑھی تھی اسے پیش کیا گیا ہے۔ نیز ڈھیر سارے دوستوں سے ملاقات کی یادیں تازہ کی گئی ہیں۔ اس حصے میں ساقی فاروقی کے حوالے سے کئی دلچسپ معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ اس میں ساقی کے گھر کی نشست کا ذکر ہمیں اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔ مثلاً یہ اقتباس دیکھیے:

’’اب ساقی کے گھر میں برسوں کے بعد میری Reorientation یوں ہوئی کہ جس کمرے میں میں داخل ہوا وہاں تو شک پر کئی بھالو، خرگوش اور ونڈر ورلڈ کے کئی عجیب الخلقت جانور ساتھ ساتھ لیٹے ہوئے تھے۔ صوفے کی طرف دیکھا تو سوٹ بوٹ ڈانٹے چھوٹے بڑے کئی گُڈے، شیر، چیتے، بھیڑئیے، ہرن، خرگوش اور جانے کون کون براجمان تھا۔ دیواروں پر بھی ایسی ہی دنیا آباد تھی۔ ساقی کی رفاقت، بٹیا کے کمرے میں بسیرا اور بھانت بھانت کے جانوروں کے ساتھ بسر اوقات بس مزہ ہی تو آ گیا۔‘‘ (سفر آشنا، ص 48-49)

چوتھا حصہ ’منزل منزل عشق و جنوں‘ کے عنوان سے ہے جس میں سکنڈے نیویا اوسلو ناروے کے اسفار بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں کی وادیوں، عمارتوں، جھیلوں، پہاڑیوں، سمندروں اور گھنے جنگلوں کو شگفتہ نثر میں پیش کیا گیا ہے۔ ناروے کے خوشگوار تجربوں میں Author’s Society کا تذکرہ ہوا ہے نیز یہاں پر منعقد شعری نشست کی روداد کو بھی اولیت دی گئی ہے۔ اس وقت کے ہندوستان کی ادبی صورت حال اور ادبی مسائل پر ہوئے مذاکرے کو پروفیسر نارنگ نے بہت سلیقے سے قلم بند کیا ہے۔ ناروے کی سیاست، یہاں کے اخبارات کے ساتھ ناروے کی جمہوری و فلاحی ریاست کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس باب میں ناروے کے شاعروں اور ادیبوں کی قدر و منزلت کا ذکر آیا ہے تو اوسلو میں اردو کی ادبی سرگرمیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

پانچواں اور آخری حصہ ’تبسمِ گل فرصتِ بہار‘ کے عنوان سے ہے جس میں پروفیسر نارنگ نے لندن کو ایک پوری تہذیب، ایک پوری تاریخ، علم و ادب اور دانشوری کی روایت کا مظہر بتایا ہے اور اسے اردو کا ایک اہم گہوارہ قرار دیا ہے۔ اس حصہ میں اس وقت قیام پذیر ممتاز ادیبوں اور شاعروں مثلاً فیض احمد فیض، ساقی فاروقی، زہرہ نگاہ، عبد ﷲ حسین، مشتاق احمد یوسفی، الطاف گوہر، افتخار عارف، عاشق حسین بٹالوی، رالف رسل، ڈاکٹر فاخر حسین، ڈیوڈ میتھیوز، ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب، ڈاکٹر زوار حسین زیدی، اکبر حیدرآبادی، حبیب حیدرآبادی، اطہر راز، سوہن راہی، محسن شمسی، جیتندر بلو، محسنہ جیلانی وغیرہ کا ذکر دلنشیں انداز میں کیا گیا ہے نیز یہاں کے اداروں اور مجلسوں کی ادبی سرگرمیوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ مصنف نے اس باب میں اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں منعقدہ ایک ادبی تقریب کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے جس میں ان کے علاوہ فیض احمد فیض، افتخار عارف اور ساقی فاروقی موجود تھے۔ اس تقریب کے بعد راج کھیتی کے زیر اہتمام عشائیہ اور اس رات کی گہما گہمی کا بیان ہمیں یادوں کے سیل میں بہا لے جاتا ہے۔

کہنے کو یہ کتاب (صفحات 86) چھوٹی سی ہے لیکن سفر نامے کی تاریخ اور اس کی اہمیت کے اعتبار سے بڑی اہم ہے۔ 1982 میں شائع ہونے والے اس سفر نامے کے مطالعے سے ایسا لگتا ہے کہ ہم خود بھی ان تمام راستوں سے آشنا ہیں جن کو سفر نامہ نگار نے طے کیا ہے۔ اور یہی اس سفر نامہ کی کامیابی کی دلیل بھی ہے۔

دراصل سفر وسیلۂ ظفر بھی ہوتا ہے اور یہ نئی تلاش و جستجو کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ نئی حیرت اور نئے تجربات کو سامنے لاتا ہے۔ انسان کا چلنا پھرنا اور گھومنا بھی سفر نامہ ہوتا ہے۔ ہر شخص سفر کرتا ہے کوئی ملک میں تو کوئی بیرون ملک۔ کوئی اندر کا تو کوئی باہر کا سفر طے کرتا ہے۔ سفر سفر ہوتا ہے لیکن سفر کی روداد کوئی کوئی ہی بیان کرسکتا ہے۔ پروفیسر نارنگ کا ’سفر آشنا‘ اس لیے زیادہ پُراثر ہے کہ انھوں نے مشاہدات، واقعات، تجربات و خیالات کی ادائیگی میں اپنی رائے اور اپنے جذبات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ بقول شخصے بصارت اور بصیرت سے ہی عمدہ سفر نامہ لکھا جا سکتا ہے۔ پروفیسر نارنگ نے بھی اپنی بصارت اور بصیرت سے سفر آشنا تحریر کیا ہے۔ فقط سفر ہی نہیں اندرونِ سفر اور بالائے سفر سب کچھ بین السطور میں سما گیا ہے۔ سرسید احمد خاں، شبلی نعمانی، محمد حسین آزاد کے ساتھ دوسرے بہت سارے ادیبوں اور شاعروں نے سفر نامے لکھے اور مقبول ہوئے۔ ابن بطوطہ کا سفر نامہ ہندوستان کے بارے میں اور مارکوپولو کا سفر نامہ چین کے بارے میں بے حد مقبول ہوا۔ کم و بیش تمام قدیم سفر نامہ نگاروں نے سفر نامے کی روایت کو مستحکم کیا ہے۔ مذکورہ سفر نامہ نگاروں نے جغرافیائی کوائف، تاریخی واقعات اور بود و ماند کی معلومات کا بیش بہا خزانہ ادب کو دیا ہے۔ گویا اردو زبان و ادب کے ارتقا میں قدیم سفر ناموں کی اہمیت آج بھی مسلم ہے۔ پروفیسر نارنگ کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اپنے سفر نامہ کو علمی، تہذیبی اور تمدنی معلومات کے خزانے سے بھر دیا ہے۔ انھوں نے جرمنی، ناروے، امریکہ، کناڈا اور برطانیہ کو اپنی نظر سے دیکھا ہے اور اسے ایک نئے انداز سے پیش بھی کیا ہے۔ انھوں نے قدیم سفر ناموں سے ہٹ کر جدید سفر نامے کی روایت کو نکھارا ہے اور اسے تنوع عطا کیا ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر میں جدید سفر نامہ نگاروں کے یہاں جو اقدارفن مشترک نظر آتی ہیں انھیں پروفیسر نارنگ نے بھی ’سفر آشنا‘ سے استحکام بخشا ہے۔ کسی بھی زبان میں تحریرشدہ سفر نامہ ادب کا قابل قدر اثاثہ ہوتا ہے۔ یہ بات ’سفر آشنا‘ کے مطالعے سے بھی واضح ہو جاتی ہے۔ گنگا جمنی تہذیب اور انسانی قدروں کے اظہار میں بھی اس کی ایک الگ معنویت نظر آتی ہے۔ پروفیسر نارنگ نے حبیب حیدرآبادی کے یہاں منعقد ہونے والی ایک محفل شعر و سخن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’غرض لطف و نشاط کی یہ محفل شام ڈھلنے تک جمی رہی۔ چلتے چلتے ایک عجیب بات ہوئی۔ بیگم صدیقہ حبیب نے، جو مغنی تبسم کی بہن ہیں، کہا میں آپ کے دوست کی بہن ہوں تو آپ کی بھی بہن ہوئی۔ آج رکھشا بندھن ہے لائیے میں آپ کے راکھی باندھ دوں۔ میں نے ہاتھ بڑھا دیا۔ گھر سے ہزاروں میل دور اپنائیت کے اس اچانک اظہار سے میری آنکھیں بھیگ گئیں۔‘‘ (سفر آشنا، ص 62)

سفر نامہ کا شمار بیانیہ اصناف میں ہوتا ہے۔ سفر اس کی اساسی شرط ہے۔ سفر میں تحیر کا عنصر شامل ہوتا ہے اور تحیر انسان کو سفر پر آمادہ کرتا ہے۔ چشم دید واقعات کو تخلیقی پیکر میں ڈھالنا ایک مشکل کام ہوتا ہے لیکن پروفیسر نارنگ نے اسے آسان کردکھایا ہے۔ ’سفر آشنا‘ میں ان کے خوبصورت بیانیہ پیرایۂ اظہار سے ہر جگہ کشش کا احساس ہوتا ہے۔ نیز انھوں نے دلآویز اسلوب اور شگفتہ نثر سے اپنے سفر کو دلچسپ بنا دیا ہے۔ ایک مختصر سا اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’یہ کیسے ممکن ہے کہ جو مناظر نظر سے گزریں وہ دل میں کھُب نہ جائیں، یا چبھ نہ جائیں، یا جو حوادث و واقعات نور کی لکیر سی کھینچتے ہوئے چھلاوا بن جائیں، وہ دل کے نگار خانے میں اپنا نقش مدھم یا گہرا نہ چھوڑ جائیں۔ حق بات یہ ہے کہ سینہ خواہ داغ داغ ہو، اور پنبہ رکھنے کی بھی حاجت نہ ہو، پھر بھی سفر سفر ہے اور تنہائی کے بعد زندگی کے بہترین لمحات اگر کہیں میسر آتے ہیں تو شاید سفر ہی میں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سفر سے نئے علائق پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن سفر سے سابقہ علائق اور مکانی و زمانی رشتے بیک جنبشِ قدم معدوم بھی ہو جاتے ہیں۔ زماں اور مکاں کی معنویت جیسی سفر سے بدلتی ہے کسی اور طرح ممکن نہیں۔‘‘ (سفر آشنا، ص 11)

پروفیسر نارنگ کا ’سفر آشنا‘ کوئی روایتی سفر نامہ نہیں جس میں فقط جغرافیہ اور تاریخ کا بیان کر دیا گیا ہو بلکہ اس میں جغرافیہ اور تاریخ کا ذکر کم نئی سرزمین کی باطنی دریافت سے زیادہ سروکار رکھا گیا ہے۔ مثلاً:

’’ناروے کے قدرتی مناظر کو صحیح معنوں میں دیکھنے کا موقع اتوار کو نصیب ہوا جب دن بھر کے لیے ہم Sigurd Muri اور ان کی بیگم کے مہمان تھے اور وہ ہمیں دو ڈھائی سو میل جنوبی ناروے کے قابل دید مقامات کی سیر کرانے کے لیے لے گئے۔ سیگور موری مصنف بھی ہیں، مصور بھی اور شاعر بھی۔ کئی ناولوں اور شاعری کے مجموعوں کے خالق ہیں۔ ان کی رہائش گاہ کی وضع قطع اور آرائش و زیبائش دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ پہاڑی کی ڈھلان پر لکڑی سے بنا ہوا دیدہ زیب مکان دیکھنے اور دل میں بسانے سے تعلق رکھتا تھا۔ کچھ دیر ہم پائیں باغ میں ٹہلتے رہے، موری اور ان کی بیگم نے پیڑوں سے سیب اور آلوچے توڑے اور ہم سب نے مل کر نوش کیے۔ اوسلو سے باہر نکلنے پر کئی میل تک موٹر ایک پہاڑی ندی کے کنارے کنارے چلتی رہی۔ پھر Drammer کی پوری بستی دامان کوہ میں سوتی ہوئی نظر آئی۔‘‘ (ص 79-80)

’سفر آشنا‘ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ پروفیسر نارنگ نے ہر واقعہ اور ہر تجربہ کے اظہار میں خود اپنا نتیجہ اخذ کیا ہے۔ انھوں نے اس میں ایک طرف جہاں منظر کے حسن کو دریافت کیا ہے وہیں دوسری طرف قاری کی حیرت کو بیدار بھی کیا ہے۔ انھوں نے ذاتی تاثر کو ادبی اسلوب میں پیش کیا ہے۔ ان کی تخلیقی آنکھ نے زندگی کے حسن کو انتہائی خوبصورت بنا دیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ’سفر آشنا‘ میں مشاہدے کی قوت لازوال ہو گئی ہے۔

پروفیسر نارنگ نے اپنے مشاہدے کو سفر نامہ میں کچھ اس طرح منتقل کیا ہے جیسے لگتا ہے اس دور کی روح متحرک ہو گئی ہو۔ دراصل وہ ادب کے جملہ تقاضوں سے خوب واقف ہیں اور وہ مشاہدے کو تخلیقی پیکر عطا کرنے کی زبردست قوت بھی رکھتے ہیں۔ خوشگوار اور دلچسپ بیانیہ مرتب کر کے انھوں نے یہ سفر نامہ لکھا ہے۔ نیز خارج کے ساتھ اپنے داخل کو بھی آشکار کیا ہے۔ اس میں فقط مقامات کا ہی مشاہدہ نہیں بلکہ انسان کے داخل میں آباد دنیا کو بھی دریافت کیا ہے۔ یعنی ’سفر آشنا‘ دو دنیاؤں پر آباد ایک ایسا تخلیقی سر چشمہ ہے جس سے ہم آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ مثلاً:

’’ابھی آفتابِ عالم تاب کی کرنوں نے ہیتھرو کو اپنے لمس سے سرشار نہیں کیا تھا کہ ہم ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ اِکاّ دُکّا مسافر اِدھر اُدھر آ جا رہے تھے۔ کافی شاپ سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ یہ ورق کتنی جلدی پلٹ گیا۔ کتابِ دل پر بہت کچھ لکھ گیا اور کیا کچھ مٹ گیا۔ یادیں صرف دستِ حنائی کی دھندلی لکیر ہی نہیں ہوتیں، وقت کے خنجر پر خون کے کچھ چھینٹے ایسے بھی پڑ جاتے ہیں جنھیں دھوتے ہوئے انسان رو رو دیتا ہے۔ ساقی نے کہا یار تم رُکے نہیں۔ میں نے کہا تم تو کراچی آؤ گے، دہلی بھی ضرور آنا، زندہ رہے تو مل بیٹھیں گے ورنہ یہی سمجھ لینا قلم روِ ہند میں کوئی تمہارا آشنا بستا تھا، نہ رہا۔ افسوس کہ یہ دن کتنی جلد گزر گئے۔‘‘ (سفر آشنا، ص 86)

اس سفر نامہ میں نہ صرف ساکت و جامد فطرت کی عکاسی کی گئی ہے بلکہ آنکھ کان اور زبان کے ساتھ احساس سے ٹکرانے والی ہر شئے ہماری نگاہوں میں رقص کرنے لگتی ہے۔ لفظوں کی امیجری اور منظر کشی ایسی کہ ہر شئے دل میں سما جائے۔ یہ سفر نامہ نگار کی محنت اور دیدہ ریزی کا حاصل ہے۔ یہ اقتباس دیکھیے:

’’نیاگرا کی فضا میں ہتھیلیوں پر پانی برستا ہوا محسوس ہوا۔ آبشاروں کے اوپر دور دور تک پانی کی چھوٹی چھوٹی بوندیں گر رہی تھیں۔ موسم میں عجیب سرشاری اور لطافت تھی۔ اٹلی، شام، روم، چین، جاپان، سوئیڈن، ناروے، ہانگ کانگ ہر چہرے کا اپنا منظر تھا۔ بدن کے چمن دہکتے معلوم ہوتے تھے۔ کون سا ملک تھا جس کے باشندے چہروں اور رنگوں کی اس ریل پیل میں نظر نہ آئے ہوں، طرح طرح کے نقش، طرح طرح کی رنگتیں اور طرح طرح کی بولیاں۔ یہاں میں پہلے بھی دو بار آ چکا تھا لیکن ارون کے ساتھ نیاگرا آنے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ یا شاید موسم کا اثر تھا۔ ایسا ہجوم ایسی رونق میں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ گویا فضا سے رنگ و نور کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ یوں تو قدرت کا سینہ ہر جگہ کھلا ہے اور حسن کہاں نہیں لیکن قدرت نے میلوں تک بہتی ہوئی پانی کی چاندی سی چادر سے یہاں جو لطف پیدا کیا ہے وہ عجائباتِ روزگار میں سے ہے۔ سفید جھاگ کے پہاڑ اٹھاتا ہوا پانی جب قریب آتا ہے تو پگھلا ہوا زمرد بن جاتا ہے۔ پھر نہایت تیزی سے بہتا ہوا یہ زمرد دل کی شکل میں کٹی ہوئی قاش سے ہزاروں فٹ نیچے گرتا ہے اور دھند کے بادل اڑاتا ہوا دوسری طرف کو بہتا ہوا چلا جاتا ہے۔ سامنے کی طرف بھی آبشاروں کا منظر ہے لیکن اس میں وہ شکوہ اور جمال نہیں جو اِدھر کے منظر میں ہے۔ ریلنگ کا سہارا لے کر لمحہ بھر کے لیے رکیے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گہرا نیلا سبز پانی اپنی جگہ ٹھہر گیا ہے، اور ہم ہیں کہ اس کی روانی کے ساتھ پیچھے کی طرف اور پیچھے کی طرف بہے چلے جاتے ہیں۔ اس سحرآگیں کیفیت میں زمین پیروں کے تلے سے نکلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ (سفر آشنا، ص 24)

اچھے سفر نامے روز روز نہیں لکھے جاتے اور روز روز ان کے ترجمے بھی نہیں ہوتے۔ یہاں یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ اس اہم ترین سفر نامے کا ہندی ترجمہ بھی 2014 میں شائع ہو کر مقبول ہو چکا ہے جس کے مترجم ڈاکٹر سید تنویر حسین ہیں۔ انھوں نے ’سفر آشنا‘ کا ہندی ترجمہ کر کے ہندی جگت کو ایک بیش قیمت تحفہ دیا ہے۔ اب ہندی میں اس کی اشاعت سے ہندی والے بھی اردو کی نئی بستیوں میں اردو کی صورتِ حال اور دانشوری کی روایت سے واقف ہوسکیں گے۔ آج جبکہ اردو ہندی میں بہت کم سفر نامے تحریر کیے جا رہے ہیں، اس ترجمے کی اشاعت کی معنویت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور اردو میں لکھا گیا اس سفر نامہ کی باز قرأت پر بھی ہم مجبور ہو جاتے ہیں۔

٭٭٭ (ماخذ: اردو ریسرچ جرنل)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے