محور اپنا اپنا ۔۔۔ حنیف سیّد

کل دیوے گا، کل پاوے گا کل پاوے گا، کل پاوے گا

’’گیارہ بچّے لائی، کان پھٹّی۔۔۔۔  ! اور راجو ممبر کے یہاں گیارہ سال بعد ہوا، بیٹا۔۔۔۔  !‘‘ صفائی کرمچاری گھسیٹے کی بیوی رنگیلی نے سریلی تان میں کچھ اِس طرح محلے میں کانا پھوسی کی کہ راجو ممبر کی حویلی میں کان پھٹّی کے بچوں کو دیکھنے والوں کا تانتا لگ گیا تھا۔  لاغر کان پھٹّی اپنے سبھی بچوں کو دبوچے گندگی میں لتھ پتھ اِس طرح نیم جاں پڑی تھی کہ جیسے دم ہی نکل گیا ہو، اُس کا۔  دیکھنے والوں میں بحث تھی تو یہ: ’’وہ مرچکی ہے‘‘

اگلے نے فوراً چونچ ماری: ’’وہ تو ابھی زندہ ہے، مگر دو بچے مر چکے ہیں، اُس کے۔‘‘

کسی نے کہا: ’’دو نہیں، چار۔‘‘

کوئی اور بولا: ’’پانچ‘‘۔  لاغر کان پھٹّی، سُن تو سب رہی تھی؛ دیکھ بھی رہی تھی، پر بولنے اور ہلنے سے قاصر تھی۔  ہاں۔۔۔ ! کبھی کبھار کسی کوے کی آواز سنائی پڑتی تو وہ فوراً آنکھیں کھول کر غلّے گھماتے ہوئے حالات کا جائزہ لے کر پڑ رہتی، یا درد بڑھ جانے پر کوں کاں کرنے لگتی تھی؛ بے چاری، بھوک سے نڈھال۔  کوئی بچہ اِدھر اُدھر سرک جاتا، تو وہ اُس کو بڑی مشکل سے جیسے تیسے کھینچ کھانچ کر اپنی سوکھی کوکھ سے لگا لیتی۔  اُس کی چھاتی میں اتنا دودھ تو تھا نہیں کہ سبھی بچوں کی سیری ہو پاتی۔  البتہ یہ کہ جو اُس کے بچوں کو دیکھنے آتا، کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ ڈال جاتا۔  اِسی اثنا میں بھوک جب زیادہ ستاتی، تو وہ بہ مشکل تمام لوگوں کے ڈالے ہوئے کھانے پر دوچار منہ مار کر لڑھک رہتی۔  پھر کچھ جان آئی اُس میں تو مجبوراً اپنے نو زائدوں کو چھوڑ کر باہر کچرے میں پڑے باسی تباسی پر جلدی جلدی منہ مار کر واپس آ جاتی، حویلی میں اپنے بچّوں کے پاس۔

کان پھٹّی کی پیدایش بھی اِسی حویلی کی تھی پہلے کبھی، جب یہ حویلی ویران کھنڈر تھی۔  اسی کھنڈر میں ٹھیک اسی جگہ پیدا ہوئی تھی وہ، اپنی ماں کے بڑھاپے کی اولاد۔  حالاں کہ اُس کی ماں کے بھی آخری بار سات بچّے ہوئے تھے ایک ساتھ، اسی کھنڈر حویلی میں۔  لیکن چھے بچّوں کو کھنڈر کے اژدہے نگل گئے تھے، مگر اِس کو ماں نے بچا لیا تھا، جگہ بدل بدل کر، جیسے تیسے۔  کان پھٹّی کی پیدایش کے کچھ ہی دنوں بعد اُس کی ماں بھی کالے کا ہی شکار ہو گئی تھی۔  ماں کی موت کے بعد اُس نے بڑی جد و جہد سے خود کو بچایا تھا۔  جب اُس پر جوانی چڑھی، تو محلے کے بچوں نے تان بھری، ’’ریشما جوان ہو گئی، تیر کمان ہو گئی‘‘۔  اور جب اِدھر ادھر کے اُس کے ہم عصروں کو بھنک لگی، تو لگ گئے، اُس کے پیچھے۔  وہ جس کے آگے پیچھے تھی۔  اُس کو تو زبر دستوں نے ایسا بھنبوڑا کہ پھر نہ دِکھا کبھی وہ۔  حالاں کہ اُس کی دِفاع بہت کی تھی کان پھٹّی نے۔  اِسی میں تو کان پھٹا، اُس کا۔  تب سے ہی تو کان پھٹّی کہنے لگے اُس کو سب۔  ایک سے ایک زبر دست تو تھے ہی۔  پہلے خوب لڑے آپس میں۔  جم کر گتھم گتھا اور مار کاٹ ہوئی۔  پھر جو زبر ٹھہرا مینا اُسی کا: ’’یعنی کہ جو بڑھ کر خود اُٹھا لے ہاتھ میں مینا اُسی کا ہے۔‘‘

پھر تو ایک کے بعد ایک نے اپنا اپنا زور دکھایا۔  کئی روز رہا ہنگامہ، غضب کا، رات دن۔  تو چل، میں آیا۔  اور جب پیر بھاری ہو گیا کان پھٹّی کا۔  تو چھوڑ چھاڑ کر نکل لیے، سارے کے سارے، اور وہ بے چاری دُکھیاری پڑ رہی؛ راجو ممبر کی نئی نویلی حویلی میں؛ بے سہارا، اور یتیم۔

راجو ممبر دولت مند گھرانے کے بارسوخ انسان تھے، گاؤں کے۔  رادھو پردھان کے بیٹے، اور اکلوتے بھی۔  رادھو نے بچپن میں ہی راجو کو ایک کہنہ مشق پہلوان کی اتالیقی میں دے دیا۔  پہلوان نے اپنے تجربوں اور داؤ پیچوں کی بھٹی میں تپا تپا کر کندن بنا دیا تھا راجو کو۔  سنِ شعور میں قدم رکھتے ہی رادھو نے راجو کی خواہش کے مطابق شہر میں ایک رئیس کی اکلوتی سلونی سے بیاہ دیا تھا، جس کو راجو کالج کے زمانے میں پسند کر چکے تھے۔  سلونی کیابس سلونی تھی۔  مانو اُن کی اپنی ایشوریا رائے۔  اُس کے حسن پر ایسے دیوانے ہوئے یہ کہ گاؤں میں خاصی جائیداد ہونے کے باوجود شہر میں سلونی کی خواہش پر دو ہزار میٹر کی کھنڈر حویلی کا سودا کر لیا۔  حالاں کہ بیش تر لوگوں نے سمجھایا، ’’بھوتوں، چڑیلوں، جنّاتوں، دیوں، پریوں اور خبیثوں کا مسکن ہے، کھنڈر حویلی۔‘‘ جب دیکھنے گئے ؛تو کھنڈر میں چاروں طرف مکڑیوں کا کالا کالا جالا تھا۔  چمگادڑ لٹک رہے تھے، پیڑوں پر۔  اُلّو بول رہے تھے، دن میں۔  جنگلی کبوتروں کی غٹرغوں اور پھڑپھڑاہٹ تھی، چاروں طرف۔  مینڈک اور چوہے اچھل کود رہے تھے، اِدھر اُدھر۔  چھپکلیاں اور گرگٹ سرک رہے تھے، اُوپر نیچے۔  حویلی کے شکستہ در و دیوار بھائیں بھائیں کر رہے تھے، بری طرح۔  اژدہوں کو بھی سرکتے دیکھا تھا، اُنھوں نے۔  کان پھٹّی کی ماں بھی نکل کر بھاگی تھی، کھنڈر سے۔  لوگوں نے کہا: ’’اِس کھنڈر میں رہنے والے سبھی کیڑے مکوڑے، اوسیبی ہیں، اور یہ ہے سب کی نانی۔  خریدنے کی کرنا نہ نادانی‘‘۔  لیکن وہ ٹھہرے گاؤں کے نڈر جوان۔  اپنے بَدّھا کی ریڑھ پر گھونسا مار کر بیٹھا دینے والے، چھے فٹے پہلوان۔  ذرا بھی دہشت نہ کھائے، نہ لی کسی سے رائے۔  بیوی کے عشق میں فوراً کھنڈر حویلی خرید لی اور اگلے ہفتے ہی کام لگوا دیا۔  حالاں کہ مزدور بے چارے کھنڈر میں جاتے ہوئے خوف کھاتے تھے، بلاؤں سے۔  لیکن اُنھوں نے خیمے لگوا کر سب کو وہیں رکھا، اور خود بھی رہے؛ اُن سب کے ساتھ، رات دن حویلی میں۔  کبھی سب کی پیٹھ تھپ تھپا کر، کبھی لال پیلی آنکھیں دکھا کر، اُن کے سینے پر سوار ہو کر حویلی بنوا لی، شان دار، محلے کی ناک۔  حویلی بننے کے دوران اُتھل پتھل تو بہت ہوئی، کان پھٹّی پیدا ہوئی، اُس کی ماں مری، کان پھٹّی کا کان پھٹا۔  لیکن کان پھٹّی نے اپنا مسکن نہ چھوڑا۔  کئی جگہ تو دفینہ نکلا حویلی میں، لیکن دبوا وہیں دیا راجو نے، چپ چاپ۔

نئی نویلی حویلی میں آتے ہی راجو نے اچھا خاصا دبدبہ بنا لیا تھا؛ شہر میں بھی، گاؤں سے سوا۔  دفینہ نکال نکال کر صرافے کی دکان بھی کر لی تھی، حویلی میں ہی۔  رائفل تو تھی ہی پہلے، اب ریوالور بھی خرید لیا تھا۔  کئی کئی نوکر۔  دولت کی ریل پیل، کھناکے دار۔  پولِس میں بھی رسوخ، دناکے دار۔  پردھان تو پہلے ہی تھے، گاؤں میں۔  شہر میں بھی وارڈ ممبری کا الیکشن نکال لیا تھا دولت کے بل بوتے۔  لیکن بھگوان کا کرنا یہ کہ اولاد سے محروم رہے، برسوں تک۔  سمجھایا بہت محلے والوں نے: ’’حویلی اوسیبی ہے، اِسی لیے بیوی بانجھ ہے۔‘‘ لیکن شادی کی تھی شہر میں، بڑے چاؤ سے۔  اور حویلی بھی بنوائی تھی، بڑے رکھ رکھاؤ سے۔  اس لیے نہ چھوڑی بیوی اور نہ ہی چھوڑی حویلی۔  علاج بہت کرایا، بیوی کا۔  مستقل مزاجی سے، برسوں۔  لیکن فائدہ کچھ نہ ہوا۔  پھر دعاؤں کی سیڑیوں پر قدم رکھا تو پھر چڑھتے ہی گئے اور اتنا چڑھے کہ اُتار ہی لائے چاند اپنی حویلی میں ایک دن۔  حویلی برقی جھالروں سے دمک اُٹھی۔  نوکروں چاکروں کو دل کھول کر اُن کے من پسند جوڑے پہنائے۔  لڈّو بانٹے، سارے محلے میں۔  جس دن اُن کے یہاں بیٹا ہوا۔  اُسی دن کان پھٹّی بھی گیارہ بچے لائی، حویلی میں۔  رنگیلی نے من مانا جوڑا پہن کر ایسی مشتہری کی سریلی تان میں کہ محلے والے سمجھے کہ کان پھٹّی کے گیارہ بچے لانے کی خوشی میں ہو رہا ہے، یہ سب سارا، حویلی میں۔  محلے میں چاروں طرف خوشیاں ہی خوشیاں رقص کرنے لگیں، لیکن کان پھٹّی کے گرد لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر راجو ممبر کی بیوی اندر ہی اندر کُڑھ رہی تھی، اور ممبر صاحب کی خوشیوں پر بچھّو ڈنک مار رہے تھے رہ رہ کر۔  پھر رنگ میں بھنگ یہ ہوا کہ اگلے ہی دن ۲۳؍ مارچ ۲۰۲۰ء کو لاک ڈاؤن نافذ ہو گیا، سارے ملک میں، آناً فاناً۔  آنا، جانا، نکلنا، بیٹھنا، سب کا سب بند۔  دھڑا دھڑ کورونا کے کیسز نکلنے کی خبریں آنے لگیں۔  ساری دنیا میں ماہ ماری پھیل گئی۔  راجو ممبر نے بھی اپنے سارے نوکروں کو فٹافٹ نو دو گیارہ کر دیا، حویلی سے۔  کان پھٹّی کو بھی باہر نکالا اور اُس کے بچوں کو باہر کچرے میں ڈال کر حویلی کے گیٹ میں اندر سے تالا لگا کر خود کو پوری طرح محفوظ کر لیا، کورونا کے خوف سے۔

اگلی صبح اُنھوں نے دیکھا کہ کان پھٹّی اپنے سبھی بچوں کو دبوچے حویلی میں اپنی جگہ لیٹی ہے۔  اُنھوں نے سوچا: ’’کان پھٹّی تو چھتوں کے راستے سے اندر آ سکتی ہے۔ ، لیکن یہ بنا نین کھلے بچے، اندر آئے، تو آئے کس طرح۔۔۔۔  ؟‘‘

اُنھوں نے کان پھٹّی کی آنکھوں میں غور سے دیکھا۔  وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اُن سے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی، لیکن اُن کو اُس کی آنکھوں میں ہیبت ناک چڑیل دکھائی دی؛ پر وہ ڈرے نہیں، لیکن جب اگلے دن اُن کی سلونی کورونا کی لپیٹ میں آ گئی۔  تو اُن کو دال میں کالا لگا پوری طرح۔  آخر میں وہ سمجھ گئے کہ کورونا کو اندر لانے والی کان پھٹّی اور اُس کے بچوں کے علاوہ کوئی اور نہیں۔  انھوں نے جھٹ سے رائفل اُٹھا لی، پھر یہ سوچ کر رُک گئے کہ رائفل کی آواز سے پولِس آ دھمکے گی۔  پھر ریوالور کی طرف دیکھا، سوچا ’’بیٹا جھجک جائے گا۔‘‘ پھر دھیرے سے اُٹھے، لاٹھی اُٹھائی اور اُس پر جان لیوا حملہ کر دیا۔  پر وہ تو جان بچا کر چھت کے راستے سے نکل کر غائب ہو گئی۔  لیکن اُس کے سارے بچوں کو حویلی کے لان میں گڈھا کھود کر زندہ گاڑ دیا، اُنھوں نے۔  پھر بے ہوش سلونی کو بیٹے کے پاس سے کھینچ کر گیٹ کے قریب ڈالا، ساری حویلی کو سینیٹائز کیا، اور سلونی کو کورونا ہو جانے کی اطلاع پولِس کو دی۔  پولِس اُن کو اور اُن کے بیٹے کو ہوم کورونٹین کر کے سلونی کو اُٹھا لے گئی۔  پھر انھوں نے سلونی کے غم میں دو پیگ چڑھائے اور سو گئے۔  اگلی صبح اُٹھے تو دیکھا، بیٹا بھوک سے تڑپ رہا ہے۔  اور کان پھٹّی بار بار بیٹے کی طرف لپک رہی ہے۔  اُس کی چھاتیوں سے دودھ ٹپکتا دیکھ کر اُن کو لگا جیسے اُس کے سوکھے پیٹ پر فیویکول کے گھول میں ڈبو کر چیریوں کے پھل چپکا دیے گئے ہوں۔  اُن کو اُس کی آنکھوں میں کورونا کے اژدہے کی پھنکار کا شائبہ محسوس ہوا۔  اُنھوں نے پھر لاٹھی سنبھالی، لیکن کان پھٹّی یہ جا، وہ جا۔  یعنی کہ وہ پھر جان بچا کر چھت کے راستے سے نکل گئی۔

سلونی کے گزر جانے کی اطلاع آئی تو اُن کو لگا کہ ان کی زندگی کا فیوز اُڑ کر سارے کے سارے نیٹ ورک فیل ہو گئے ہوں۔  رات کا ایک بجا تھا۔  سارے ملک میں کرفیو نافذ تھا۔  سب سے اہم یہ کہ بیٹا بھوک سے تڑپ رہا تھا۔  اُس کی دل خراش چیخیں اُن کے دل میں مسلسل شگاف کیے جا رہی تھیں۔  اُنھوں نے بھرپور شراب کی پوری بوتل کو گلے سے اتارا، بچّے کو افیون چٹا کر اچھی طرح چادر سے لپیٹا، اور لیٹ گئے۔  خواب میں دیکھا؛ کان پھٹّی رنگ برنگی مہکتے پھولوں کے جھولے کی مسند پر سولہ سنگھار کیے بیٹھی ہے، اُسی مسند پر اس کے گرد کھڑے بھاری بھرکم دو خبیث اُس پر پنکھے ڈُلا رہے ہیں۔  کئی جنّات طبلہ، ہرمونیم وغیرہ بجا رہے ہیں، چڑیلیں گیت گا رہی ہیں۔  پریاں رقص کر رہی ہیں۔  بھوت پہرہ دے رہے ہیں۔  اور وہ ایک دیوار کی اوٹ سے یہ سب راؤ رنگ دیکھ رہے ہیں، مانو ان کے سامنے ایل، ای، ڈی، وال چل رہا ہو۔  ایک بھوت نے اُن کو یہ سب دیکھتے ہوئے دیکھ کر ایک ہیبت ناک چیخ کے ساتھ حویلی سر پر اُٹھا لی۔  دیکھتے ہی دیکھتے بجلی کے ایمپیئرز کھٹاک سے دونے ہو گئے اور ایل، ای، ڈی، وال کے سارے کنڈنسرز ایک ساتھ دھڑاک سے برسٹ ہو گئے۔  اچانک ہنگامہ ہو گیا۔  اور سب کے سب بھوت جنّات وغیرہ اُن پر ٹوٹ پڑے۔  لیکن وہ اپنے بَدّھا کی ریڑھ پر گھونسا مار کر بیٹھا دینے والے، چھے فٹے پہلوان؛ ذرا بھی دہشت نہ کھائے، پھر تو انھوں نے اپنے لٹھ کی دھواں دھار بنّوٹ سے سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔  لیکن جب کان پھٹّی ایک بھیانک چیخ کے ساتھ کورونا وائرس کی شکل اختیار کر کے اُن پر جھپٹی، تو بے چارے لرز گئے، بے جان ہاتھوں سے لٹھ چھوٹ گیا اور وہ ایک کونے میں دبک گئے۔  اور جب کان پھٹّی جھپٹ کر ان کے بیٹے کو اُٹھا لے گئی تو گھبراہٹ میں ان کی آنکھ کھُل گئی۔  نشہ غائب، سارا جسم پسینہ پسینہ۔  سانسیں بے قابو اور بیٹا غائب۔  بے چارے کربناک چیخ مار کر بے ہوش ہو گئے۔  ہوش آیا تو ساری حویلی بھائیں بھائیں کر رہی تھی۔  اب اُن کو یقین ہو گیا کہ حویلی پوری طرح اوسیبی نرغے میں ہے۔  اور بیٹے کو پریاں اُٹھا لے گئیں، انھوں نے فوراً پولس کو فون لگایا۔  پولیس کو حیرت تھی تو یہ کہ حویلی کا گیٹ بند ہونے کے باوجود بچہ کیسے غائب ہو گیا۔۔۔۔  ؟ آخرش پولِس نے اُن کو دلاسہ دے کر بچّے کے کڈنیپنگ کی رپورٹ لکھ کر تفتیش شروع کر دی، لیکن بچّے کا کہیں سراغ نہ لگا۔  ایک دن ممبر صاحب کو اچانک تیز بخار چڑھا اور پولِس کورونا کا مریض سمجھ کر اُٹھا لے گئی۔  تیسرے دن وہ بھی سیدھے ہو لیے، اور پولِس نے ان کو بھی لا وارث لاشوں کے ساتھ جلا دیا۔  اگلے دن اخبار میں ایک تصویر شائع ہوئی جس میں ایک کتیا اطمینان سے ایک جھاڑی کے نیچے لیٹی تھی اور اُس کی چھاتی سے لپٹا تھا، ایک شیر خوار اشرف المخلوقات۔

٭٭٭

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے