غزلیں ۔۔۔ ثناء اللہ ظہیرؔ

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں

 

کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں

وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں

 

اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے

میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں

 

وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج

مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں

 

اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا، مگر

ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزا داری میں

 

اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی

خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں

 

اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی

تم نے اک عمر گنوا دی مری مسماری میں

 

ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں، تو یہ آگ

سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں

 

تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیرؔ

میں بھی رہتا ہوں یہیں، دل کی عملداری میں

٭٭٭

 

 

 

آنکھیں ملتے ہوئے بستر سے نکل آیا ہوں

کسی ملزم کی طرح گھر سے نکل آیا ہوں

 

دیکھ سکتا نہ تھا یاروں کی جبیں پر شکنیں !

سر جھکائے ہوئے منظر سے نکل آیا ہوں

 

کھل رہے ہیں مری آنکھوں پہ کئی اور افلاک

میں کہ اب گردشِ محور سے نکل آیا ہوں

 

تو ملا ہے، کہ گئی عمر پلٹ آئی ہے

کتنا لڑکا سا میں اندر سے نکل آیا ہوں !

 

لوگ دیکھیں گے ترے دل سے نکلنا میرا

دیوتا ہوکے میں پتھر سے نکل آیا ہوں

 

تیرگی اوڑھ کے جب سو گئی ساری سڑ کیں

میں ٹھٹھرتا ہوا دفتر سے نکل آیا ہوں

٭٭٭

 

 

 

کچھ بھی ترے مزاج سے ہٹ کر نہیں کہا

بہتر کیا بھی تجھ سے تو بہتر نہیں کہا

 

ہم صرف تجھ کو سنتے ہیں، مصرع اٹھاتے ہیں

محفل میں تیری خود کو سخنور نہیں کہا

 

دیوار و در میں کیا نظر آیا کہ تم اسے؟

میرا مکان کہتے رہے، گھر نہیں کہا!!

 

ناراض ہو گیا مرا کوزہ بدست دوست

جب میں نے شکریے میں سمندر نہیں کہا

 

دینا تھا کوئی تجھ کو روایت سے ہٹ کے نام

سہہ کر ترے ستم بھی ستمگر نہیں کہا

 

مزدور تھے، بنا لیں مشینی علامتیں

تشبیہ دی تو بادہ و ساغر نہیں کہا

 

دنیا ٹھہر گئی ترے انکار کی جگہ

اک دن تھا تو نے یونہی پلٹ کر ’’نہیں‘‘ کہا

 

ہم نے تو پھول جیسے لکھے ہیں تمام لفظ

ہم مانتے ہیں ایک بھی نشتر نہیں کہا

٭٭٭

 

 

 

 

اک قبا سارے زمانے سے جدا پہنی ہے

کہکشاں آپ کے قدموں سے اُٹھا پہنی ہے

 

اک ترا حکم سنا اور ترے دیوانوں نے

خرقۂ زیستاُتارا ہے قضا پہنی ہے

 

کتنا خُوش بخت ہے بچّہ یہ کسی بدّو کا

تیری گلیوں میں پھِرا، تیری فضا پہنی ہے

 

نطقِ بیمار کو صحت ہے درودوں سے ملی

لفظ نے نعت کے صدقے میں شفا پہنی ہے

 

کی دعا ختم، تو پھر صلِّ علیٰ پڑھتے ہوئے

ہاتھ یوں جِسم پہ پھیرے کہ زرہ پہنی ہے

 

کر دیا بدر سے کشمیر کا رشتہ قائم

موت جس رنگ میں تم نے شُہَدَا پہنی ہے

 

آخرِ شب کی مناجات میں لگتا ہے ظہیرؔ

میری خلوت نے وہی آب و ہوا پہنی ہے

٭٭٭

اوپر کی ساری غزلیں مجموعہ ’کہانی‘ سے

 

 

 

طوق و زنجیر کی الگ سے داد

ان مزامیر کی الگ سے داد

 

شکریہ کی مری مدد تو نے

اس پہ تشہیر کی الگ سے داد

 

خوش رہیں راستے کی دیواریں

ذوق تعمیر کی الگ سے داد

 

دے کے تلوار کا مجھے تحفہ

دور سے تیر کی الگ سے داد

 

خواب میں آنے پر سلام الگ

اور تعبیر کی الگ سے داد

 

لذت انتظار جس سے بڑھی

ایسی تاخیر کی الگ سے داد

 

میری خواہش تھی چند لفظ اس کے

اس نے تقریر کی ۔۔۔۔  الگ سے داد

 

شعر تو خیر ٹھیک ہی ہوں گے

تیری تصویر کی الگ سے داد

 

نعمت خوف کو ملے گی ظہیر

میری تطہیر کی الگ سے داد

٭٭٭

(ثناء اللہ ظہیرؔ کی فیس بک وال پر پوسٹ کی ہوئی آخری غزل)

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے