نظمیں ۔۔۔ سلیم انصاری

 

مری نظموں کے سادہ لوح قاری

 

مری نظموں کے سادہ لوح قاری

تمہیں کیا علم؟

میں برسوں سے

اپنی سوچ کے جنگل میں تم کو

بے سبب بھٹکا رہا ہوں

بظاہر میری سب نظمیں

تمہارے خواب کی مانند لگتی ہیں

مگر یہ سچ نہیں ہے

مری نظموں کے سارے لفظ کاذب ہیں

مری نظموں کا سارا کرب جھوٹا ہے

مری نظمیں تو

میرے جسم کے اندر

بکھرتے ٹوٹتے انسان کے زخموں کا مرہم ہیں

مری نظمیں تو میری بھی نہیں ہیں

مری نظموں کے سادہ لوح قاری

تمہیں کیا علم؟

٭٭٭

 

 

 

 

ہجرت ایک عذاب

 

شجر آنگن کا

ہر دن شام ڈھلتے ہی

صدا دیتا ہے ان بچھڑے پرندوں کو

جو اس کی مہرباں شاخوں کے جھولوں میں

لہو میں قوتِ پرواز آنے تک

ہمکتے تھے، اچھلتے تھے

مگر اب اڑ گئے ہیں

ایک انجانی دشا میں

اپنے خوابوں کے تعاقب میں

سرابوں کے تعاقب

مسلسل پیاس اور نا آسودگی کے دشت میں

ہر دن بھٹکتے ہیں

جہاں سے واپسی کا کوئی بھی رستہ نہیں۔  ۔  لیکن

شجر آنگن کا اب بھی منتظر ہے

ان پرندوں کا

جو شاید اب کبھی واپس نہ آئیں گے

خلا میں زندگی کے ایک دن خود ڈوب جائیں گے۔  ۔

٭٭٭

 

 

 

 

مفاہمت

 

ابھی تو اترا نہیں ہے اتنا گھنا اندھیرا

کہ ہم گذشتہ رفاقتیں بھی نہ سوچ پائیں

ابھی تو پھیلا نہیں پے ذہنوں میں

زہر نفرت کا اس قدر بھی

جو اپنی صدیوں پرانی تہذیبی قدروں کو خاک کر دے

ابھی دلوں میں پڑی نہیں ہے درار اتنی

جو ہم کو اک دوسرے سے یوں بدگمان کر دے

یقین مانو!

ابھی بہت کچھ بچا ہے ایسا

جو ہم کو آپس میں جوڑ سکتا ہے

پھر سے۔۔۔ یعنی

مفاہمت کے کئی دریچے کھلے ہوئے ہیں

جہاں محبت کی ننھی ننھی سنہری کرنیں

ہمارے مابین پھیلے

تشکیک کے اندھیروں کو

دور کرنے کی منتظر ہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے