خاک بدر ۔۔۔ نجیبہ عارف

شہروں سے میرا عجیب سا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔  ایک ایسا رشتہ جو میں کسی کو بتا نہیں سکتی، دکھا نہیں سکتی، سمجھا نہیں سکتی۔  مگر میرے پیٹ کے اندر ناف کے پیچھے اس رشتے کی گرہ پڑ جاتی ہے جو بار بار مجھے اندر سے کریدتی اور خراشتی رہتی ہے۔  جب بھی میں کسی شہر میں داخل ہوتی ہوں تو پوری آنکھیں کھول کر، یعنی جس حد تک پوری میں کھول سکتی ہوں، بلکہ یوں کہیں کہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر، کھڑکی سے باہر جھانکتی ہوں۔  گاڑی کی کھڑکی سے۔

دل تو یہ چاہتا ہے کہ میں کسی اونٹ یا گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوتی اور اس طرح شہر میں داخل ہوتی کہ اس کی فضا کے رنگ، اس کی ہوا کی اجنبی مہک، اس میں امڈتی ہوئی آوازوں کا لمس اور اس کے باسیوں کی سانسوں کا دھواں میرے اندر گھل مل جاتا اور میں اس کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتی۔  اس نئے اور اجنبی شہر کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتی۔  کیسی ان ہونی سی بات ہے۔  اس مختصر سی زندگی میں کوئی کتنے شہروں سے گھل مل کر ایک ہو سکتا ہے۔  کبھی کبھی تو اس ایک شہر سے بھی نہیں جس میں ساری عمر کسی اجنبی کی طرح گزار دی جاتی ہے۔  لیکن پھر بھی میں شہروں کے لیے اپنے اندر ایک ایسی ہڑک، ایسی تڑپ محسوس کرتی ہوں جسے بیان کرنے کے لیے کوئی لفظ نہیں ملتا۔

یہ بات بہت عجیب اس لیے بھی ہے کہ میں عورت ہوں۔  مجھے عورت ہونے پر کوئی رنج ہے، نہ شکوہ شکایت۔  حتیٰ کہ کوئی فخر بھی نہیں۔  میں اسی طرح عورت ہوں جس طرح میرے آنگن میں کھڑا ٹاہلی کا بوڑھا پیڑ، ٹاہلی کا پیڑ ہے اور اس کے ارد گرد اگے ہوئے آم، جامن، سیب، امرود، لوکاٹ، شہتوت، کیلے اور بیری کے پیڑ، اپنی اپنی جگہ پر۔  حتیٰ کہ وہ دھریک بھی، جس کے زرد اور گول دھَرکونے توڑ توڑ کر میں بچپن میں مالا میں پرویا کرتی تھی اور خود کو یقین دلاتی رہتی تھی کہ یہ مالا دھَرکونوں کی نہیں، سچّے موتیوں کی ہے، عقیق یمنی کی ہے۔  کوئی اسے خود فریبی کہے تو کہے، مگر میں اسے خود فریبی نہیں مانتی۔  ہو سکتا ہے کہ سچ مچ عقیق یمنی کی مالا پہننے والا اپنے اندر وہ سرور محسوس نہ کرتا ہو، جو میں دھَرکونوں کی مالا پہن کر محسوس کر لیتی تھی اس لیے کہ مجھے وہ دھرکونے عقیقِ یمنی ہی نظر آتے تھے۔  ہماری زندگی ایسی ہی ہوتی ہے۔  جب تک دھرکونے عقیقِ یمنی نظر آتے رہتے ہیں، انسان ایک عجیب سے خمار میں رہتا ہے۔  خمار ٹوٹتا ہے تو انسان بھی اندر سے ٹوٹتا ہے اور ایک نئی صورت میں ڈھل جاتا ہے۔  خمار میں رہنا جتنا انبساط انگیز ہوتا ہے، خمار کا ٹوٹنا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے۔

تو مجھے اپنے عورت ہونے پر کوئی شرمندگی ہے نہ کوئی فخر۔  خوشی ہے، نہ غم۔  البتہ بعض باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے میرے اندر ایک کسک سی پیدا ہوتی رہتی ہے۔  باقی باتوں کو چھوڑیں، یہی شہروں والی بات لے لیجیے؛ یہ جو مجھے شہروں سے ایک عجیب سی دلچسپی ہے۔  چھوٹی بستیاں ہوں یا بڑی، گاؤں ہوں قصبے ہوں، چھوٹے موٹے غیر معروف شہر ہوں یا میٹرو پولیٹن۔  میرا جی چاہتا ہے جب کسی شہر میں جاؤں تو اس کے رستوں پر قدم رکھوں، پاؤں پاؤں چلوں، اس کی دھول کے ذروں کو چھو کے دیکھوں، اس کی پر پیچ گلیوں میں چلتی جاؤں، ان گلیوں میں کھُلنے والے دروازوں پر دستک دوں، ان دروازوں کے پیچھے بسی ہوئی دنیا میں جھانکوں، ان صورتوں کے نقش اپنی نظروں سے ٹٹول کر دیکھوں جو اس شہر کی مٹی میں ڈھالے گئے ہیں، چولہوں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں اور ہانڈیوں کے ڈھکن سے رس رس کر آتی خوشبو کا ذائقہ چکھوں اور کسی نہ کسی طرح خود کو اس شہر کی ہستی میں سمو لوں۔  یوں کہ موجود ہی نہیں، معدوم بھی مجھ پر روشن ہو جائے۔  حال ہی نہیں، ماضی کی پر اسرار گلی بھی مجھ پر کھل جائے۔  یہ دیوار و در جو آج ایسے ہیں، پہلے کیسے رہے ہوں گے، یہ تنگ اور پر رونق رستے پہلے کیسے ویران اور وسیع و عریض ہوتے ہوں گے۔  جہاں آج قبرستان ہے، وہاں پہلے کون سی بستی تھی؟ کن لوگوں کا ٹھکانہ تھا؟ کن خوابوں کا گلزار تھا؟ اور جہاں آج آبادی ہے، وہاں کیا ہمیشہ سے ویرانہ تھا؟ کیا یہ جگہ سچ مچ ہمیشہ خالی رہی تھی؟

یہ کیسی بے ضرر سی خواہشیں ہیں۔  انھیں پورا کرنے کی کوئی بھی کوشش سماج کے لیے کیا خطرہ بن سکتی ہے، مگر میں انھیں پورا نہیں کر سکتی کیوں کہ میں ایک عورت ہوں۔  میں راتوں کو اٹھ کر شہر کی سنسانی کا تجربہ نہیں کر سکتی، بازاروں کی دھکم پیل میں بلا وجہ دوپہروں کی دھوپ نہیں چکھ سکتی، شاموں کی نیلگونی چھونے کے لیے شہر سے باہر جاتے راستوں کے کنارے کسی پتھر پر نہیں بیٹھ سکتی، بغیر کسی منزل کے، یونہی برگ آوارہ کی طرح گاہ اڑتی، گاہ ڈولتی، ڈگمگاتی، گرتی ہوئی، گلیوں سے نہیں گزر سکتی۔  یہاں تک کہ میں کسی سے اپنی اس محرومی کا ذکر بھی نہیں کر سکتی۔

میں جانتی ہوں ہر کوئی کہے گا، بے مقصد گھومنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ کوئی کام ہے تو بے شک جاؤ، کام کر کے واپس آ جاؤ۔  راستوں میں ڈولنا ڈگمگانا بھی کوئی اچھی بات ہے بھلا؟ یہ تھڑوں پہ بیٹھنا، چوکوں میں بے سبب کھڑے رہنا، ریڑھی بانوں سے باتیں کرنا، راہ چلتی گایوں، بکریوں، کتوں اور بلیوں پر ہاتھ پھیرنا اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا، یہ سب کیا ڈرامے بازی ہے۔  لاحول ولا قوۃ۔

بچے بھی کہیں گے، امّاں آپ کیوں اتنی جذباتی ہو رہی ہیں۔  گاڑی میں بیٹھیں اور بتائیں کہاں جانا ہے، ہم آپ کو لے جاتے ہیں۔

میں ان سے کہہ نہیں پاتی، کہ مجھے کسی خاص جگہ پر نہیں جانا، بس شہروں سے ہاتھ ملانا ہے، ان کو گلے لگانا ہے، ان سے دکھ سکھ پھولنے ہیں۔  یہ پوچھنا ہے کہ۔۔۔ بلکہ، کچھ بھی نہیں پوچھنا، بس ان کے اندر اتر کر سب کچھ پوچھے بغیر ہی جان لینا ہے۔

مگر کیوں؟ کس لیے؟ یہ سوال ان کے چہروں پر اتنی شدت سے لکھا جائے گا کہ میں گونگی ہو جاؤں گی۔  مجھے خود معلوم نہیں کہ میں شہروں میں، بستیوں میں، کیا ڈھونڈتی ہوں۔  بہت سوچتی ہوں مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔

پچھلی تین دہائیوں سے میں ایک ہی شہر میں رہ رہی ہوں۔  اسے ایک چھوٹی سی بستی سے ایک بڑا شہر بنتے میں نے خود دیکھا ہے۔  قدم بہ قدم، لحظہ بہ لحظہ۔  وہ موڑ جو پہلے تھے، اب نہیں رہے۔  وہ جگہیں جہاں پہلے سبزہ و گل کی شادابی تھی، اب کنکریٹ کی سنگلاخی میں بدل گئی ہیں۔  نئے نئے پُل بن گئے ہیں، انڈر پاتھ، اوور ہیڈ برج اور نئے نئے یو ٹرن۔  ان سب منظروں سے مانوس ہونے میں وقت لگتا ہے۔  ابھی پچھلا راستہ یاد نہیں ہوتا کہ ایک اور راستہ بن جاتا ہے۔  پہلا یو ٹرن بند ہو جاتا ہے اور ایک اور یو ٹرن کھل جاتا ہے۔  ہر شے اتنی تیزی سے بدلتی ہے کہ مانوس ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا۔  دیکھتے دیکھتے راستے کے دونوں طرف اونچی اونچی عمارتوں کا جنگل اگ آتا ہے۔  ہر روز سڑک پر سیکڑوں نئی گاڑیاں امڈ آتی ہیں۔  ٹریفک کے نئے اشارے لگ جاتے ہیں، پرانے بند ہو جاتے ہیں۔  جہاں کل رکے تھے، وہاں آج نہیں رکنا، جہاں سے کل گزر گئے تھے، وہاں آج ٹھہر جانا ہے۔  سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں؟ بس سانس رکنے لگتی ہے۔

اسی لیے جب سب پوچھتے ہیں کہ میرا کس شہر سے تعلق ہے؟ تو میں سوچ میں پڑ جاتی ہوں۔

میں یقین سے کچھ بھی نہیں کہہ پاتی کہ میرا شہر کون سا ہے۔

ایک شہر وہ تھا، جہاں میں پیدا ہوئی تھی۔  جس کی گلیوں میں ہر وقت دھول اڑتی تھی اور ہوا میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ اس طرح سموئی ہوئی تھی جیسے پرانے ریڈیو پر چلنے والے گانے کی آواز میں ریڈیو کی گھسی ہوئی مشینری کی خرخراہٹ۔  توجہ نہ دیں تو سنائی بھی نہیں دے گی لیکن ذرا توجہ اس طرف ہو جائے تو گانا سنائی دینا بند ہو جاتا ہے اور وہی خرخراہٹ کانوں میں گونجنے لگتی ہے۔  زندگی کی ربع صدی اسی شہر اور اس کے قرب و جوار میں گزر گئی لیکن کبھی اس شہر کو مکمل یقین اور اعتماد سے اپنا کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔  ہمیں یہی بتا یا گیا تھا کہ ہم اس شہر کے نہیں۔  اس شہر کے باسیوں کی بولی ہماری بولی نہیں، یہاں کے کھانے ہمارے کھانے نہیں، یہاں کے پہناوے ہمارے پہناوے نہیں۔  دیکھو شہر میں نہیں جانا، اکیلے نہیں گھومنا، گلی کے بچوں سے نہیں کھیلنا۔  ہم یہاں پردیسی ہیں۔

یہ پردیس ویسا نہیں تھا جیسا ملک بنتے ہوئے کئی خاندانوں کے نصیب میں آیا تھا۔  بس اتنی سی بات تھی کہ اس شہر میں آباء و اجداد کی قبریں نہیں تھیں۔  تعلیم اور روزگار کے لیے اختیار کردہ شہروں میں کتنا بھی رہ لو، مرنا پَرنا اپنے اپنے دور دراز پس ماندہ گاؤں میں ہی سجتا ہے۔  مرنے والوں کے لاشے اٹھا کر ’’پیچھے‘‘ جانے کا خبط آدمی کو نئے شہروں سے جڑنے نہیں دیتا اور زندگی کے دن رات ایک نئی فضا میں گزارنے کی عادت ’’پیچھے‘‘ کے خالی مکانوں میں بس جانے کے خیال سے وحشت پیدا کرتی رہتی ہے۔  آدمی بیچ میں کہیں لٹک جاتا ہے۔  آخر ایک جگہ پر کتنی دیر تک پردیسی بن کے رہا جا سکتا ہے۔  اتنے برسوں میں تو سوکھی ہوئی گٹھلی بھی جڑ پکڑ لیتی ہے۔  مٹی کے بطن میں اتر کر سر سبز ہو جاتی ہے۔

ہم نہ نہ کرتے بھی شہر سے جڑ گئے تھے۔  البتہ عدم تحفظ اور بیگانگی کی ایک پھانس بھی ساتھ ساتھ چبھتی رہتی تھی۔  حالانکہ وہ اچھے زمانے تھے۔  بچے شہر میں گھوم گھام کے واپس گھروں کو آ جایا کرتے تھے۔  یہ گھومنا گھامنا لیکن کسی ضروری کام سے ہی ہوتا تھا، اس کے سوا نہیں ہو سکتا تھا۔  راشن ڈپو سے آٹا اور چینی لینے، کریانہ سٹور سے ٹوٹا چاول لینے، بیکری والے کے گھر سے تازہ تازہ رس لانے، سکول کے مینا بازار کی ٹکٹیں بیچنے، اچانک ختم ہو جانے والی کاپی، یا دوات کی روشنائی خریدنے یا سول ہسپتال سے کھانسی کا مکسچر بنوا کر لانے کے لیے ہم باہر نکل ہی جایا کرتے تھے۔

ایک وقت تھا کہ ہائی سکول کی عمارت کے پیچھے سر سبز کھیت ہوا کرتے تھے۔  ان کھیتوں کے درمیان چھوٹی چھوٹی پگ ڈنڈیاں تھیں۔  شہر کے گرد آلود ماحول سے گھبرا کر اس سرسبزی کا حصہ بن جانا میرا سب سے بڑا خواب ہوا کرتا۔  جب بھی موقع ملا، اور یہ موقع زندگی میں ایک دو بار سے زیادہ نہیں ملا، میں دونوں بازو کھول کر اندھا دھند ان پگ ڈنڈیوں پر بھاگ پڑی اور ہوا سے دوستی کا پیمان باندھا۔  یہ پیمان آج تک نہیں ٹوٹا۔  ہوا کے ساتھ اڑ جانے اور آکاش کو چھو آنے کی تمنا تو پوری نہیں ہوئی، مگر اس کا فریب کھا کر بھی دل خوش ہو گیا تھا۔  وہ اہتزاز بھرے لمحے آج بھی اسی طرح حافظے کے گودام میں جگمگاتے ہیں۔  دوسری چیزوں کی طرح ان کی تاب مدھم نہیں پڑی۔

دوسرا خواب شہر کی سرحد پر بہتے دریا کے کنارے جا کر بیٹھنے کا تھا جو شاید کبھی پورا نہیں ہوا۔  بہتے ہوئے دریا، ان کی وحشی، منہ زور موجیں، ان کے اندر ڈسکو لائٹ کی طرح جگمگاتے اور جلتے بجھتے ہوئے بلبلے، ان کے کناروں پر اگی دریائی گھاس کے لمبے لمبے ڈنٹھل جو سانپوں کی طرح سرسراتے ہیں، اور ان کے سروں پر لگی سفید ریشمی سی جھالر جس کا خوابناک لمس آنکھیں بند کر دیتا ہے؛ مجھے ہمیشہ ان منظروں کا حصہ بن جانے کی شدید آرزو رہی، مگر کوئی کیسے منظر کا حصہ بن سکتا ہے، یہ کبھی نہ جان پائی۔  البتہ یہ احساس ہمیشہ رہا کہ جس شہر میں، میں رہتی ہوں، اس کے ایک کنارے سے دریا کی موجیں ہمہ وقت سر ٹکراتی ہیں اور شاید مجھے ڈھونڈتی ہیں۔  میں کسی روز ان موجوں سے ملنے ان کے اندر اتر جاؤں گی۔

میں نے دنیا کے کئی مشہور دریا دیکھے ہیں۔  گہرے اور پانیوں سے بھرے ہوئے، مگر ایک نظم و ضبط اور سکون سے، اپنے اپنے کناروں کے اندر، بڑی متانت اور وقار سے چلتے ہوئے۔  مجھے کبھی ان کے اندر اترنے کی خواہش نہیں ہوئی۔  ہمیشہ اپنے ہی دریا یاد آتے رہے۔  ان گھڑ اور ناقابلِ اعتبار، اسرار اور اندھیرے سے بھرے ہوئے، کچھ پتا نہیں چلتا، کہاں سے اتھلے ہیں، کہاں جا کر اچانک گزوں نیچے اتر جاتے ہیں۔  کبھی کبھی تو کنارے پر کھڑے آدمی کو سالم دبوچ لیتے ہیں۔  ان کے ساتھ رہنا مسلسل ایک بے یقینی کا شکار رہنے کے مترادف ہے۔  اس بے یقینی میں خوف بھی ہے اور تجسس بھی۔  کسی ان ہونی کا ڈر بھی اور اس کی آرزو بھی۔

میں کبھی اپنے دریا سے ملنے نہ جا سکی۔  ہو سکتا ہے چلی جاتی تو یہ شوق بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ پاتا مگر ایسا ہوا نہیں۔  اپنے شہر کے نہ ہونے کا احساس، اپنے دریا سے نہ ملنے کا رنج؛ بس ایسی ہی الٹی سیدھی باتوں نے مجھے ہمیشہ ایک ہجر کی کیفیت میں مبتلا رکھا۔  ایک ہجر مسلسل، جس میں وصال کا کوئی شائبہ تک نہیں تھا۔

شاید یہی ہجر پسندی مجھے ان شہروں سے جڑ جانے سے روکتی رہی ہے جن میں عمر بتا دی۔  شہر کا حصہ ہونے کے باوجود اس کے بطن میں اتر کر نمو کرنے اور پھوٹ نکلنے میں حائل ہوتا رہا ہے۔  گملے میں اگے ہوئے پودے کی طرح اُتھلا اُتھلا اور بے پیندے کے لوٹے کی طرح، استقامت اور استحکام سے خالی رہنا مجھے اندر سے چبھتا رہا ہے۔  مجھے لگتا ہے کہ جب تک کوئی شہر، کوئی بستی، پیچھے ٹیک لگانے کو موجود نہ ہو، تب تک جم کر کھڑا ہونا مشکل ہوتا ہے۔

اسی لیے میں بار بار خود کو بتاتی ہوں کہ اب یہی میرا شہر ہے جہاں تین دہائیوں سے زندگی ڈھو رہی ہوں۔  یہیں میرے بچوں کی آنول نال گڑی ہے، شاید یہیں میری خاک کو ٹھکانہ بھی مل جائے۔  لیکن دل کو پوری طرح یقین نہیں آتا۔

جب ہم یہاں آئے تو یہ ایک مختصر سی، چھوٹی سی بستی تھی۔  چھوٹی مگر جدید۔  سڑکیں دو طرفہ تھیں۔  ان کے ساتھ ساتھ کشادہ گرین بیلٹ چلتی تھی جس پر ہری بھری گھاس اگتی، سنبل، کچنار اور املتاس کے لمبے لمبے چھتنار کھڑے ہوتے اور جنگلی پھولوں سے بھری جھاڑیاں ہوتیں۔  بہار اور خزاں، دونوں موسموں میں اس شہر کی سڑکوں پر سرخ، نارنجی، سفید اور کاسنی پھولوں کی پتیاں برستی رہتیں اور بارش میں چنبیلی کی خوشبو چھینٹے اڑاتی پھرتی۔  نیلے اور سرمئی پہاڑ شہر کے اطراف میں یوں ایستادہ رہتے، جیسے سچ مچ کے نہ ہوں، ایزل پر دھرے کینوس کے نقش ہوں۔  ان پہاڑوں کے دامن میں دور دور سے پرندے آ کر بسیرا کرتے تھے۔  کوکتے تھے، چہچہاتے تھے، اٹھلاتے ہوئے اڑتے تھے، گھروں کی منڈیروں پر آ کر بیٹھ جاتے تھے، لان کی گھاس کھود کر شکار تلاش کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔  گلہریاں درختوں کے تنوں کے آس پاس منڈلاتی تھیں۔  آبادی سے ذرا سا دور جاتے تو بندر بچوں کے ہاتھ سے چپس کے پیکٹ چھیننے کو پہنچ جاتے تھے۔  کبھی کبھی تو چیتا بھی کشمیر کے پہاڑوں سے رستہ بھول کر، چوٹیاں پھلانگتا، اس طرف آ نکلتا تھا۔  شام کے بعد اس کی دھاڑ، کئی بار ہم نے خود سنی تھی۔

کیسا عجیب شہر تھا، ملک کا صدر مقام، مگر آبادی اتنی کم کہ مرکزی شاہراہوں کو چھوڑ کر اطراف کی سڑکوں پر دیر دیر بعد کوئی گاڑی دکھائی دیتی تھی۔  سب چیزیں قریب قریب اور کم کم ہوتی تھیں۔  وہ گھر جس میں یہاں ہم آنے کے بعد تقریباً پانچ سال تک ٹھہرے تھے، شہر کے مرکز سے زیادہ دور نہیں تھا مگر گلی کو لگتی پچھلی سڑک کے ساتھ جو بڑی سی گرین بیلٹ تھی، اس کے پیڑ پودے اتنے گھنے تھے کہ لوٹے جانے کے ڈر سے دن کے وقت بھی کوئی وہاں سے نہیں گزرتا تھا۔  حالاں کہ اس گرین بیلٹ کے پار شہر کا سب سے بڑا میڈیکل کمپلیکس تھا جس میں رات کو اتنی بتیاں جلتی تھیں کہ دور سے نظر آتی تھیں اور ہم کڑھتے تھے کہ خالی عمارت میں اتنی بتیاں کیوں جل رہی ہیں۔  اسی سڑک کے ایک کنارے پر، جہاں بعد میں بہت بڑا پارک بن گیا، صنعتی نمائش لگا کرتی تھی۔  ہم پیدل اس نمائش میں چلے جایا کرتے تھے۔  میدان صاف کر کے خیمے لگ جاتے تھے۔  موت کا کنواں، آدھے دھڑ کی عورت، بچوں کے ریں ریں کرتے لکڑی کے جھولے، چنا چاٹ، دہی بڑے اور گول گپوں کے ٹھیلے۔  یہ تو تفریح کا سامان تھا، مگر ملک کے ہر حصے سے دست کار، چھوٹے، گھریلو صنعت کار اور بڑے تاجر بھی اپنے سٹال لگاتے تھے اور چھوٹے شہر میں خریداری کے بڑے مواقع پیدا ہو جاتے تھے۔  جب یہاں پارک کی دیوار بننی شروع ہو گئی تو نمائش گاہ پہلے شہر سے دور لے جائی گئی، پھر چند سال بعد اس نمائش گاہ کو پریڈ گراؤنڈ میں بدل دیا گیا اور نمائشوں کی روایت منقطع ہو گئی۔  ہوئی نہیں، کر دی گئی۔  جو بچے پچھلی ڈیڑھ دہائی میں پیدا ہوئے انھیں کیا معلوم کہ موت کا کنواں کیا ہوتا ہے اور آدھے دھڑ کی عورت کیا کہتی ہے۔  انھیں یہ بھی معلوم نہیں ہو پاتا کہ ہنزہ اور گلگت سے آنے والی سوکھی ہوئی خوبانی اور چیری کا ذائقہ کیسا ہے، کھڈی کے کھیس کہاں بنتے ہیں، نیلی ٹائلوں کا کام کس شہر کی پہچان ہے اور اونی شالوں پر کشیدہ کاری کون کرتا ہے؟ انھیں تو صرف ان برینڈز کا پتا ہے جن کے اشتہار دن رات ٹی وی پر چلتے ہیں اور بل بورڈز پر جگمگاتے ہیں۔

اسی سڑک کے دوسرے کنارے پر چوک کے ساتھ، ایک بڑا سا پختہ فوارہ تھا جو شام کو چلتا بھی تھا۔  گرمیوں کی حبس بھری شاموں میں کمروں کی مصنوعی فضا سے اکتا کر لوگ اپنے بیوی بچوں سمیت اس فوارے کے حوض کی منڈیروں پر آ کر بیٹھ جاتے تھے یا اس کے ارد گرد گھاس کے قطعوں پر چہل قدمی کیا کرتے تھے۔  ہماری بیٹی نے بھی اپنے باپ کا ہاتھ پکڑ کے پاؤں پاؤں چلنے کی مشق انھی منڈیروں پر کی تھی۔  پھر جب یہ سڑک دو رویہ ہوئی اور اس کے ایک طرف گرین بیلٹ پر ایک عالیشان کثیر منزلہ عمارت کھڑی ہو گئی، جس کے نچلے حصے میں ایک بہت بڑا شاپنگ مال اور اوپر اپارٹمنٹ تھے، تو ہریالی کے ساتھ ساتھ یہ ماحول بھی فنا کے گھاٹ اتر گیا۔  اب اس چوک پر ایک بہت بڑا اوور ہیڈ برج ہے۔  ساری کی ساری گرین بیلٹ چوڑی چوڑی یک طرفہ سڑکوں میں بدل گئی ہے۔  کنکریٹ کا سلیٹی مکڑا ہر طرف اپنی ٹانگیں پھیلائے کھڑا ہے۔

پہلے اس شہر میں قدیم طرز کے بازار تھے نہ شاپنگ مال، صرف مارکیٹیں تھیں۔  ایک خاص ترتیب اور منصوبہ بندی سے بنی ہوئی۔  ہر رہائشی علاقے کے مرکز میں ایک مارکیٹ تھی جس میں گنی چنی چند ایک دکانیں ہوتیں۔  اکا دکا ہی کوئی پلازا ہوتا تھا۔  بس عام سی ایک منزلہ دکانیں، جن کے سامنے گاڑی کھڑی ہو جاتی تھی۔  لوگ اطمینان سے خریداری کرتے اور سکون سے واپس آ جاتے۔  بڑی شاہراہوں پر چوکوں میں ٹریفک سگنل نصب تھے اور کسی کسی چوک میں کافی دیر تک اشارہ سبز ہونے کا منتظر بھی رہنا پڑتا تھا مگر اکثر چھوٹی سڑکوں پر یونہی زرد بتی ٹمٹماتی رہتی اور گاڑیاں اپنی رفتار سے گزرتی رہتیں۔  ایک دھیرج سا تھا شہر کی فضا میں۔  اتنا دھیرج کہ کئی لوگ اسے اداسی اور بے رونقی کہتے تھے۔  خاص طور پر عید تہوار کی چھٹیوں میں تو شہر بالکل خالی ہو جاتا۔  خاکروب تک چھٹی پر چلے جاتے اور سڑکوں پر زرد اور نسواری پتے بے فکری سے اڑتے پھرتے۔  ہم خود کبھی کسی تہوار پر یہاں نہیں رہے۔  ہمیشہ، ہر سال، سسرال جا کر عید کرنے کی پابندی کی۔  خوشی ہو یا غم، اس شہر میں نہیں منایا۔  شاید یہی وجہ ہو کہ تقریباً تین دہائیاں گزر جانے کے باوجود اس شہر کو کھل کر اپنا کہنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔

اب تو گھر سے باہر نکلیں تو اپنائیت کا اتنا سا احساس بھی نہیں ہوتا جتنا کسی بھی ایسے شہر میں نکل کر ہوا کرتا ہے جہاں کچھ عرصہ اقامت رہی ہو۔  ہر بار ایک نئی سڑک کی تعمیر یا تخریب کا سندیسہ ملتا ہے۔  اس شہر کی سب نئی یک طرفہ سڑکیں ہمارے راستے مسدود کر کے بنائی گئی ہیں۔  ہر بار وہ ساری نشانیاں، جو ہم نے راستوں کے سنگ میل کے طور پر مقرر کر رکھی ہوتی ہیں، مٹ جاتی ہیں اور ہم نئے سرے سے رستہ ڈھونڈنے کی حیرانی میں کھو جاتے ہیں۔  گھر سے دفتر جاتے ہوئے وہ جو ایک حساب سا ہوتا ہے کہ فلاں پل پر پہنچ جائیں گے تو گویا دس منٹ کا رستہ رہ جائے گا اور فلاں گلی سے باہر نکلیں گے تو پانچ منٹ باقی ہوں گے، وہ سارا حساب چوپٹ ہو جاتا ہے۔

اور تو کچھ نہیں ہوتا بس ایک الجھن سی دل میں ہوتی رہتی ہے جیسے ہم پھر سے کسی نئی جگہ پر آ گئے ہوں۔  ہر بار پھر سے خود کو شہر سے مانوس کرنا پڑتا ہے، جیسے شہر نہ ہو کرائے کا مکان ہو جس میں ہر بار نئے سرے سے آباد ہونا پڑے۔  پچھلے کچھ برسوں کے دوران تو ایک اور وبا شہر میں پھیل گئی۔  سیکیورٹی کے لیے جگہ جگہ ناکے لگ گئے۔  سڑکوں پر رکاوٹیں اس طرح کھڑی کر دی گئیں کہ ہر گاڑی ایک تنگ سی گلی نما جگہ سے زگ زیگ کرتے ہوئے گزر سکتی ہے بس۔  اچھی بھلی رفتار سے گاڑی چلی جا رہی ہے اور مسافر کسی دھیان میں گم ہیں کہ اچانک سامنے سرخ سرخ تکونوں کی قطار سی نظر آ جاتی ہے۔  مطلب یہ کہ جس لین میں گاڑی جا رہی تھی وہ لین اب بند ہے۔  دوسری لین میں داخل ہونے کی کوشش کریں تو پچھلی گاڑی کا ڈرائیور گھور کر دیکھتا ہے۔  درمیان میں تھوڑی سی جگہ ہے جس پر مصروف اوقات میں لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور گاڑیاں یکایک چیونٹی کی رفتار اختیار کر لیتی ہیں۔  ایک بار کہیں پڑھا تھا کہ جب لندن میں گھوڑا گاڑیاں چلا کرتی تھیں تو زیادہ سے سے زیادہ رفتار پندرہ بیس میل فی گھنٹہ ہوا کرتی تھی۔  اب تیز ترین، جدید اور خود کار گاڑیاں آ گئی ہیں مگر لندن شہر میں ٹریفک کی اب بھی یہی رفتار ہے۔  جب بھی یہ بات یاد آتی ہے، دل پر سناٹے کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔  یہ بھی خیال آتا ہے کہ ہم تو لندن امریکہ میں نہیں رہتے، پھر بھی ہماری رفتار کے سامنے بار بار سرخ تکونوں کی قطار لگ جاتی ہے۔  ہماری سیکیورٹی کے بہانے یہ کون ہے جو ہمارے آگے بڑھنے پر نظر رکھتا ہے اور اپنی مرضی کے راستوں کے سوا کسی اور راستے سے گزرنے نہیں دیتا۔  ہمارے اہم موڑ اور ضروری یو ٹرن بند کر دیتا ہے، جس سے مختصر راستے طویل ہو جاتے ہیں اور منزل حقیقت سے زیادہ دور معلوم ہوتی ہے۔  ہمیں اپنے شہر بھی اپنے نہیں لگتے۔  ایسے لگتا ہے دشمن کے علاقے میں داخل ہو گئے ہوں۔

ہم تو پہلے ہی اپنے شہروں میں اجنبیوں کی طرح مارے مارے پھرتے ہیں اور اپنے دانش وروں کو ارضی و سماوی ثقافتوں اور شناختوں میں الجھتے اور ایک دوسرے کو رد کرتے دیکھتے سنتے ہیں۔  اس ساری بحثا بحثی میں، ترقی اور اس کے الحاقات میں، عالمِ حقیقت اور عالمِ مثال کی کش مکش میں، اور کچھ ہو نہ ہو، میرا شہر ضرور گم ہو گیا ہے۔  جیسے ہاتھیوں کی لڑائی میں شامت بے چاری مورِ بے مایہ کی آتی ہے۔  میں بھی خود کو اس چیونٹی کی طرح محسوس کرنے لگی ہوں جو کمر پر زندگی کا بوجھ لادے اپنی بستی ڈھونڈتی پھرتی ہے اور ایک آواز ہے کہ مجھ سے پوچھے جاتی ہے کہ میں کس شہر کی ہوں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے