عینی آپا۔  شعلہ بھی شبنم بھی۔۔۔ عارف محمود

یہ بات سن 1960 کی ہے جب مجھے میرے ایک دوست نے "نقوش” لاہور کا سالنامہ لا کر دیا اس میں اس دور کی تمام ادبی شخصیات کی تصویریں بھی تھیں اچانک نگاہ عینی آپا کی تصویر پر ٹھہر گئی۔  دیر تک تصویر کو ہر زاویئے سے دیکھتا رہا۔  اس سے قبل ان کے کچھ افسانے اور ناولوں کے اقتسابات مختلف رسائل میں پڑھ چکا تھا۔  انکا انداز تحریر جتنا خوبصورت تھا ان کی تصویر اس سے کہیں زیادہ حسین تھی۔  اس کی کشش کا انداز آپ میرے اس اقبالیہ بیان سے لگا لیں کہ نقوش کے اس ضخیم نمبر کو پڑھنے کے لئے میں جب بھی اٹھاتا تھا تو تصویروں والا صفحہ ضرور دیکھتا تھا۔  عینی آپا کے علاوہ اس وقت کی تقریباً ان تمام ادبی ہستیاں اس میں موجود تھیں جن کو پڑھ کر میں نے اردو سیکھی۔  ان ہی صفحات میں میرے محترم بزرگ اور ہم وطن چودھری محمد علی ردولوی کی تصویر بھی تھی (چودھری محمد علی ردولوی انجمن ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس جو سن 1936 میں لکھنؤ میں منعقد ہوئی تھی اسکی مجلس استقبالیہ کے صدر تھے اور معروف فکشن نگار بھی تھے) نقوش کے اس نمبر کو ختم کر نے میں تقریباً ڈیڑھ دو ماہ کا عرصہ لگا، ان دنوں میں اپنی تعلیم ختم کر کے ایک پرائویٹ کمپنی کی ملازمت میں آ چکا تھا اور کانپور میں مقیم تھا۔

"نقوش” کے توسط سے عینی آپا کی تصویر سے جو میری پہلی ملاقات ہوئی اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک بار ان سے مل کر باتیں کرنے کا اشتیاق پیدا ہو گیا اس وقت ان کا قیام غالباً ممبئی میں تھا اب اس کو اتفاق کہیے یا میری خوش قسمتی پورے اکتیس سال کے انتظار کے بعد مجھے بہ سلسلہ ملازمت سن 1991 میں کانپور سے نوئیڈا منتقل ہونا پڑا۔  نوئیڈا دلی سے اتنا قریب ہے جیسے دلی کا ہی ایک حصہ ہو۔  وہاں جا کر مجھے یہ اطلاع ملی کہ عینی آپا اب مستقل طور پر دلی آ گئی ہیں۔  اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس ان کا قیام ہےٍ۔

نوئیڈا میں دہلی کے رہن سہن کا کلچر تو موجود تھا لیکن ادبی ماحول بالکل نہیں تھا اس لئے میں تقریباً ہر اتوار کو دہلی جا کر وہاں کی ادبی سرگرمیوں میں شریک ہوتا رہا۔  کئی بار لوگوں سے ذکرکیا کہ مجھے عینی آپا سے ملوا دیں لیکن سب نے ان کے مزاج کی کچھ ایسی تصویر کشی کی اور خصوصیت کے ساتھ اپنی عمر کے سلسلے میں ان کا بہت محتاط رویہ یعنی عینی آپا کہلانا تو منظور تھا لیکن ان سے آدھی عمر کا کوئی شخص بھی باتوں سے یہ ظاہر کر دے کہ وہ ان کو بزرگ سمجھتا ہے تو!!

بہر حال یہ سب سن کر میں نے اس حسین خیال کو دل سے نکال دیا لیکن ایک بارپھر میری دیرینہ خواہش نے موقع فراہم کر دیا جب قومی آواز میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی کہ عینی آپا دہلی سے نوئیڈا آ گئی ہیں اور ان کا قیام جل وایو وہار میں سیکٹر 25 میں ہے اتفاقاً میں خود بھی سیکٹر 25 کے ایم بلاک میں رہ رہا تھا، جیسا کہ سیکٹر کے نام سے ظاہر ہے یہ ایر فورس اور نیوی کے آفیسرس کے لئے بنا تھا لیکن جو آفیسرز باہر تھے وہ فلیٹ کرایہ پر بھی دے دیتے تھے۔  پورے سیکٹر کے رہنے والوں کا کلچر بہت زیادہ مغرب زدہ تھا صبح کے وقت سڑکوں پر لڑکیاںاور آفیسرس کی بیگمات نیم عریاں لباس میں اپنے کتوں کو ٹہلاتی نظر آتی تھیں، عینی آپا کے بارے میں خبر پڑھ کر میں متعجب ہوا کہ ان جیسی نستعلیق ادبیہ اس ماحول میں کیسے رہیں گی؟ بہر حآل یہ ایک حقیقت تھی کہ وہ یہاں سکونت پذیر تھیں۔

دوسرے دن ہی میں نے اخبار میں دئے ہوئے پتہ پر جا کر مکان تلاش کر لیا اور پروگرام یہ بنایا کہ کسی اتوار کو براہ راست جا کر مل لوں گا۔  کئی اتوار اس رہرسل کی نذر ہو گئے کہ میں ان کے فلیٹ تک جاتا تھا لیکن کال بیل کا بٹن دبانے کی ہمت نہ ہوتی تھی آخر تیسری یا چوتھی کوشش میں خود کشی کرنے کی نیت سے گھنٹی بجا ہی دی۔  ایک ملازمہ آئی میں نے ایک پرچہ لکھ کر ساتھ ہی اپنے وطن ردولی کا اضافہ کر دیا یہ ایک طرح سے نفسیاتی رشوت تھی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ چودھری محمد علی ردولوی، بآقر مہدی اور مجاز ردولوی کے توسط سے قصبہ کا نام ان کے لئے نیا نہیں ہے۔  وہاں کے کلچر زبان اور میلے ٹھیلوں کا ذکر میں ان کی کہانیوں میں بھی پڑھ چکا تھا۔  حسب توقع فوراً اندر بلا لیا گیا۔  عینی آپا پہلے سے ہی ڈرائنگ روم کے دیوان پر بیٹھی اخبار کا مطالعہ کر رہی تھیں۔  چائے کا ایک خالی کپ سامنے رکھا تھا آداب بجا لانے کے بعد میں نے جلدی جلدی اپنا تعارف کرا دیا۔  آپ کا پڑوسی ہوں، فلاں فلیٹ میں رہتا ہوں ردولی میرا وطن اور کانپور وطن ثانی ہے نوئیڈا میں بہ سلسلہ ملازمت قیام ہے۔

تشریف رکھئے کچھ لکھنے پڑھنے کا شوق ہے؟

جی فکشن سسے دلچسپی ہے آپ میری پسندیدہ رائیٹر ہیں-

اتنی دیر میں وہی ملازمہ ایک ٹرے میں پانی کا گلاس اور چائے لا کر رکھہ گئی۔  چائے پینے کے درمیان مجاز، چودھری محمد علی اور باقر مہدی کے ذکر کے ساتھ ہی ردولی کی زبان اور وہاں کی دوسری ادبی شخصیات کی باتیں ہوتی رہیں اور جیسے ہی انہوں نے ڈاکٹر شارب ردولوی کا نام لیا تو میں نے فوراً کہا کہ وہ نہ صرف میرے ہم وطن ہیں بلکہ ہائی اسکول تک وہ میرے ہم جماعت بھی تھے۔  اور آج بھی وہ میرے عزیز ترین دوستوں میں ہیں۔  باتیں ہوتی رہیں اور میں ان کی شخصیت اور باتوں سے اتنا متاثر تھا کہ میں ان سے یہ بھی نہ کہہ سکا کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں ردولی کے توسط سے میلے ٹھیلوں کا ذکر اور بالے میاں کی شادی، پچکا لگنا جیسے جو الفاظ استعمال کئے ہیں کیا وہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ انہوں نے اپنے قاری کو اپنے طرز تحریر اور مزاج کا ہم سفر بنایا ہے، کیونکہ یہ تمام اشارے بغیر کسی وضاحت کے ردولی سے لے کر بہرائچ تک ہی نہیں بلکہ ساری اردو دنیا میں سمجھ لئے گئے۔  میں یہ بھی نہ کہہ سکا کہ عام فکشن نگار وہ لکھتا ہے جو پسند کیا جاتا ہے لیکن آپ نے تو اپنی پسند کو اپنے قاری پر غالب کر دیا۔  شروع میں بھلے ہی لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی ہو لیکن رفتہ رفتہ لوگ وہی پسند کرنے لگے جو آپ نے لکھا۔  کافی باتیں ہو چکی تھیں تقریباً ایک گھنٹہ کے بعد جب میں ان کی اجازت لے کر رخصت ہوا تو ساتھ ہی یہ اجازت بھی حاصل کر لی کہ کبھی کبھی آ کر مل سکتا ہوں؟

ان کا لہجہ ایک دم تبدیل ہو گیا۔

کیا آپ شاعر بھی ہیں؟

غالباً اس سلسلہ میں ان کا کوئی تلخ تجربہ تھا۔

جی بالکل نہیں صرف اچھے شعر سننے کا شوق ہے۔

تو جب آیئے فون کرکے آیئے گا۔

وہاں سے واپسی پر میں اپنی اس ملاقات کا لطف ہفتوں تک لیتا رہا۔  یہاں میں یہ اعتراف بھی کرنا چاہتا ہوں کہ عینی آپا کی تصویر دیکھ کر ان سے ملنے کا جو اشتیاق پیدا ہوا تھا اس نے اب ایک تقدس کا روپ لے لیا تھا۔

پھر کئی ماہ گزر گئے کوئی ملاقات کی سبیل نہ نکل سکی۔  یا تو میں خود مشغول رہا یا ان کا ٹیلیفون نہ مل سکا کہ اجازت لے لوں۔  آخر ایک اتوار کو صبح تقریباً دس بجے بغیر کسی پروگرام کے ان کے فلیٹ پر پہونچ گیا۔  وہ اس وقت زینہ سے نیچے اتر رہی تھیں۔  ڈرائیور کار کا دروازہ کھولے ان کا منتظر تھا۔  میرے آداب کے جواب میں کچھ ناگواری کے انداز میں بولیں۔

عارف صاحب آپ کو فون کرکے آنا چاہئے تھا اور قبل اس کے کہ میں کوئی جواب دیتا ان کی ملازمہ نےمیری مشکل آسان کر دی۔

دو دن سے تو اپنا ٹیلیفون خراب پڑا ہے۔

اوہ اچھا۔  بھئی معاف کیجئے گا مجھے ایک سیمنار میں جانا ہے آپ پھر کسی دن فون کر کے آیئے گا۔

کار کے جانے کے بعد بھی میں اپنی اس تیسری مختصر ترین ملاقات پر بھی بہت خوش تھا۔

کچھ عرصہ کے بعد میں خود اس سیکٹر کے مکان کو چھوڑ کر اس کے قریب ہی سیکٹر 26 میں منتقل ہو گیا اور ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا کوئی بہانہ ان سے ملنے کا نہ مل سکا۔

غالباً سن 2003 میں ایک دن میرے دوست نامی انصاری کا ٹیلیفون دہلی سے آیا کہ وہ اپنی ایک نئی کتاب کی طباعت کے سلسلے میں کانپور سے دہلی آئے تھے کام مکمل ہو چکا ہے لیکن واپسی کا رزرویشن ایک دن بعد کا ہے اس لئے وہ یہ وقت میرے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں اس میں ان کی یہ منشا بھی شامل تھی کہ وہ نوئڈا میں عینی آپا سے ملاقات کر لیں، میرے لئے بڑی خوشی کی بات تھی کہ نامی صاحب کے ساتھ کچھ ادبی باتیں بھی ہو جائیں گی اور ایک بار آپا سے ملآ قت کا بہانہ بھی مل جائے گا۔  لہٰذا میں پہلی فرصت میں دہلی جا کر نامی انصاری کو نوئیڈا لے آیا اور دوسرے دن کے لئے عینی آپا سے ملاقات کا وقت بھی لے لیا۔

حسب پروگرام ہم لوگ ٹھیک گیارہ بجے ان کے ہاں پہونچ گئے کال بیل کے جواب میں ان کی وہی ملازمہ آئی اور ہم کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر چلی گئی۔  شا ئد دو منٹ کے بعد ہی عینی آپا آئیں۔  ہلکی پنک رنگ کی ساڑی اور چہرے پر اتنی ہی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ۔  میں تو سن 1960 والی نقوش کی تصویر سے ہی ان کی بے انتہا حسین شخصیت کا قائل ہو چکا تھا اور پچھلی چند ملاقاتوں میں آنکھیں بھی عادی ہو چکی تھیں لیکن نامی صاحب کی حالت قابل دید تھی۔  ہم ان کی آمد کے ساتھ ہی کھڑے ہو گئے تھے ان کے حکم سے اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے۔  قبل اس کی کہ ہم کچھ کہتے وہ خود ہی گویا ہوئیں۔  اچھا آپ ہی نامی انصاری ہیں آپ کی ایک کتاب مجھے ڈاک سے موصول ہو چکی ہے ابھی پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔

اس درمیان ملازمہ ایک ٹرے میں پانی کے دو گلاس اور ایک پلیٹ میں حلوے کی کچھ قاشیں رکھہ کر چلی گئی۔

(دو روز قبل شب برأت تھی)

یہ وہی تبرک ہے نوش فرمائیں۔  یھاں تو کوئی جانتا ہی نہں۔

انہوں نے آہستہ سے کہا۔  ہم صرف جی۔  جی ہاں کہہ کر رہ گئے۔  پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو آج کے ادبی منظر نامہ سے شروع ہو کر ان کی تصانیف تک پہونچا۔  ہم لوگ اپنی بساط بھر ان کی زبان اور خصوصیت سے ان کی تصانیف میں شامل تاریخی حوالہ جات پر باتیں کرتے رہے اور وہ خوش ہوتی رہیں میں نے اپنے دل کی بات ذرا گھما کر یوں کہہ دی۔

آپا تخلیق کی خوبصورتی میں تخلیق کار کی اپنی ذاتی شخصیت کا حسن بھی شامل ہوتا ہے۔

میری بات کی تائید میں ایک ہلکی سی مسکراہٹ اور بس۔  پھر بات ان کے نئے ناول ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ تک پہونچی، نامی انصاری اپنے تنقیدی شعور کو کام میں لا رہے تھے اور میں اردو کے ایک طالب علم کا رول ادا کر رہا تھا۔  دوران گفتگو انتہائی احتیاط کے باوجود نہ جانے کیسے میرے منہ سے ایک غیر ضروری جملہ نکل گیا۔

عینی آپا آپ اب بھی بہت اچھا لکھ رہی ہیں۔

ان کے چہرے کا رنگ اچانک بدل گیا۔  نامی صاحب نے میرا ہاتھ دبایا لیکن تیر تو کمان سے نکل چکا تھا شرمندگی کی وجہ سے مجھے پسینہ آ گیا۔

اب بھی سے آپ کا کیا مطلب ہے؟

جی چاہا اٹھ کر بھاگ جاؤں لیکن ہمت کر کے بہ مشکل اتنا کہہ سکا۔

میرا مطلب صرف یہ تھا کہ یہاں جس ماحول میں رہ رہی ہیں وہ نہایت غیر ادبی ہے۔

’’عارف صاحب آپ عینی سے بات کر رہے ہیں۔‘‘

اس جملے کے بعد میرے سارے کس بل نکل گئے اور عافیت اسی میں سمجھی کہ غلطی مان لوں۔

ہاں آپا آپ نے صحیح سمجھا میرا مطلب وہی تھا معافی چاہتا ہوں۔

ان کے چہرے سے غصہ ہٹ گیا اور ہلکی سی فاتحانہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔  کچھہ دیر بالکل سناٹا رہا، میں سر جھکائے خاموشی سے ان کے اگلے حکم کا منتظر تھا۔  نامی صاحب بھی رومال سے اپنا پسینہ خشک کر رہے تھے۔  ڈرائنگ روم کے اس سناٹے کو عینی آپا کی آواز نے زندگی دے دی۔

میں آپ کو اس لئے معاف کرتی ہوں کہ آپ نے فوراً اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا دوسری وجہ یہ کہ آپ کا تعلق اس جگہ سے ہے جو میرے ادبی دوستوں کا وطن بھی ہے۔  اور آخری وجہ یہ کہ آپ کا نام عارف اور میرے پیر و مرشد کا نام بھی یہی ہے، کیا آپ کبھی مجگواں شریف گئے ہیں؟

جی ابھی تک شرف حاصل نہیں ہوا ہے اب کوشش کروں گا۔

میں نے بہت سنبھل کر جواب دیا۔

میری بد حواسی پر وہ زیر لب مسکرا رہی تھیں۔  پھر انہوں نے خادمہ کو آواز دی۔

بھئی وہ چنے کی دال والا حلوہ جو میرے لئے بنا ہے وہ ان لوگوں کے لئے بھی لاؤ اور میرے لئے بھی۔

خادمہ نے ایک پلیٹ ہم لوگوں کے سامنے لا کر رکھی اور ایک عینی آپا کے سامنے جو اپنے دیوان پر بیٹھی تھیں۔  حلوہ یقیناً بہت لذیذ تھا۔  نامی صاحب لطف لے کر تعریفیں بھی کر رہے تھے اور میں بھی بظاہر حلوہ کھا رہا تھا لیکن احساس ندامت اس قدر تھا کہ اس کھانے سے زیادہ ردولی کی زبان میں زہر مار کرنا کہا جا سکتا تھا۔  بہر کیف حلوے کی مکرر پیش کش اس بات کا ثبوت تھی کہ عینی آپا نے مجھے واقعی معاف کر دیا تھا۔  یہ میری چوتھی اور آخری ملاقات تھی اور افسوس ہے کہ اس کے بعد وہ اپنے اس ابدی سفر پر روانہ ہو گئیں جہاں جا کر کآ رہائے جہاں کا اختتام ہو جاتا ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے