آسماں کی ناف میں رکھا ہوا دن اور چلتی ہوئی رات میں توصیف خواجا کی نظم ۔۔۔ علی محمد فرشی

شاعری کے بارے میں ہمارے ہاں دو مغالطے بہت راسخ ہیں ایک تو یہ کہ شاعری بہت آسان کام ہے؟ نہ اس کے لیے کسی درس گاہ کی ضرورت، نہ مشاہدے کی حاجت اور نہ زندگی کو تجربے کی بھٹی میں جھونکنے کی اذیت! اور اعلیٰ شاعری کا تنقیدی مطالعہ تو محض وقت کا ضیاع ہے۔  ان گناہ گار کانوں نے بعض نابغوں کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ مطالعہ کرنے سے دوسروں کے اثرات پڑنے کا خطرہ ہوتا ہے! اصل میں وہ جتانا یہ چاہتے ہیں کہ ان پر شاعری بہ صورتِ الہام اُترتی ہے! ایسے شعرا کاغذ، سیاہی اور اپنے وقت کو ضائع کرنے کے علاوہ کوئی بڑا نقصان نہیں کرتے اور عموماً پانچ دس سال میں سمجھ جاتے ہیں کہ اِن تلوں میں تیل نہیں! تاہم شاعری کو ذریعۂ عزت اور طرۂ امتیاز سمجھنے والے خود تو شاید اپنی خیالی جنت میں کسی مقامِ معلیٰ پر متمکن ہوں لیکن دوسروں کی زندگی جہنم بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے! اس نوع کے شعرا نہ صرف اپنے بلکہ اپنوں کے لیے بھی کسی بلائے ناگہانی سے کم نہیں ہوتے! اِس مجموعے میں شامل نظمیں پڑھ کر ایک بات تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ توصیف کا تعلق مذکورہ بالا دونوں قبائل سے نہیں ہے۔

ایک زمانے میں،اپنے تئیں میں نے فن پارے کی قدر کا تعین کرنے کے لیے ایک زینۂ مراتب وضع کر لیا تھا جس نے ادب کی پرکھ پرچول اور درجہ بندی میں میری بہت مدد کی۔

چھوٹا ادیب قاری کو سامنے رکھ کر لکھتا ہے

متوسط ادیب خود کو سامنے رکھ کر لکھتا ہے

بڑا ادیب نا معلوم کو سامنے رکھ کر لکھتا ہے

اور عظیم ادیب نا موجود کو سامنے رکھ کر لکھتا ہے۔  (گویا خلق کرتا ہے)

میرے خیال میں اگر کوئی شاعر درمیانی دو منزلوں تک نہیں پہنچ پاتا تو اسے کوئی اور مفید سرگرمی اختیار کر لینی چاہیے۔  اب رہا یہ سوال کہ توصیف میرے قائم کردہ زینے پر کہاں کھڑا ہے تو اس سوال کے جواب تک پہنچنے کے لیے آپ کو میرے ساتھ مل کر اس کی نظموں کے جنگل میں راستہ بنانا ہو گا کیوں کہ وہ بنے بنائے رستوں پر چلنے کا عادی نہیں۔  اس نے اپنا رستہ خود بنایا ہے جو کہ معاصر نظم کے کسی بھی شاعر کے لیے از بس ضروری ہے بالخصوص اکیسویں صدی میں ہجوم کا حصہ دکھائی دینے والے کسی بھی فنکار کی زندگی ایک پلک جھپکی سے زیادہ نہیں ہو گی، لہٰذا وقت کی آندھی سے وہی نقش بچ پائے گا جس میں تخلیقیت کے جملہ عناصر اضافی قوت کے ساتھ موجود ہوں گے۔

آسماں کی ناف میں رکھا ہوا

ہر دن مرا

تیری اس ننگی زمیں سے منعکس ہوتا نہیں

میر ے اندر ٹوٹتا ہے

روشنی آنکھوں سے باہر جھانکتی ہے!

سر کٹی راتوں کو

اندھے جنگلوں میں راستہ ملتا نہیں

سانس کی ڈوری کو کاٹ (خدا سے)

یہاں بصری، صوتی، لامسی،شامی اور ذائقی امیجز کا استعمال اپنی جگہ فنی کمال ہے لیکن آخری تین سطور میں جس اسلوبیاتی ایجاد کاری سے موضوع کا عمودی دائرہ بنایا ہے اسے نظم کے عنوان کو ذہن میں رکھ کر دیکھیں تو پورا آسمان اس میں سما جاتا ہے۔  جبکہ نیچے زمین پر فرد کی زندگی تنہائی، بے گانگی، اذیت کوشی، مایوسی، بے مائیگی اور بے سہارگی وجودی کرب کا ایسا شکنجہ نظر آتی ہے جس سے آزادی سانس کی ڈوری کٹنے سے مشروط ہے۔  کرب کی اس سطح کو مس کر لینے کے باوجود شاعر قنوطیت کا شکار نہیں ہوتا کیوں کہ نظم کا عنوان ڈھال کی صورت موجود ہے۔

رات پھر وہ خواب میں میرے مقابل آ گیا

آنکھ انگارہ،لبوں پر خون کی گُل کاریاں

ہاتھ دونوں تھے دھوئیں کے

اور اُن میں ناچتی تھیں آگ کی دس انگلیاں

اور باقی نقش یاد آتے نہیں!

 

سازشوں کی بو میں لپٹے قہقہے کے بعد یوں گویا ہوا

’’تجھ کو خود میں شور کرتے پانیوں پہ ناز ہے

دیکھنا میں تیرے چاندی پانیوں کو زہر سے نیلا کروں گا ایک دن

اور اداسی کے ہرے جنگل میں

بکھراؤں گا پھر تیری انا کے زرد بیج

پھیر دوں گا اس طر ف شہر گماں کی آندھیاں

یوں تری شاخِ بدن کو سبز سے پیلا کروں گا ایک دن (ہم زاد)

نظم سے لیے گئے اس اقتباس کو میں نے اپنی سہولت کی خاطر دو اجزا میں تقسیم کر لیا ہے۔  پہلے جز میں تمام امیجز ہاتھوں میں ہاتھ ڈال ایک متحرک دائرہ بناتے ہیں جیسے بھوت پریت واحد متکلم کے گرد رقص کرتے ہوئے آہستہ آہستہ گھیرا تنگ کر رہے ہوں۔  آخری سطر اس قابوس کو توڑ دیتی ہے۔  دوسرا جز خواب سے باہر پھیلی حقیقی زندگی کا منظر نامہ بناتا ہے جو اپنی اصل میں مرگِ مسلسل کے تاریخی جبر کا سماجی اظہاریہ ہے۔  عنوان کو نظم کی کلید مان کر فرد کی دو لخت شخصیت کا نفسیاتی تجزیہ کریں تو آج کے انسان کو در پیش بھیانک صورتِ حال کی تعبیر واضح ہونے لگتی ہے۔

کامیاب نظم کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ وہ قاری کو تخلیقی عمل میں شریک کر کے اس کے متخیلہ کو مہمیز لگاتی ہے یوں پڑھنے والا تخلیق مکرر کے عمل سے گزر کر فن پارے کی تکمیل کرتا ہے۔

راستوں پر سرمئی چھتری کُھلی

گنگ بازاروں میں آوازوں کی بارش

اور مدھم ہو گئی

روشنی کم ہو گئی

نیکیوں کے بوجھ سے خالی

گناہ گاروں نے اپنی گٹھڑیاں

اپنے شانوں سے اُتاریں

اور زمیں کی کھینچ سے باہر گرے (شام)

اگر کوئی نظم جہانِ حیرت سے دو چار نہیں کرتی تو پڑھنے والے کا ذہن اسے یاد رکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرے گا اور نہ اجتماعی حافظے میں اس کی جگہ بن پائے گی۔  اس نظم میں ہماری اجتماعی زندگی اپنے جوہر سے محروم ہو کر ایک میکانکی گردش کا شکار ہو چکی ہے۔  آوازوں کا شور شرابا الفاظ کے معانی کو مسخ کر دیتا ہے۔  ہم صارفیت کے دور میں سانس لے رہے ہیں۔  صارف معاشرہ تخلیقی صلاحیتوں محروم ہو کر نئے صبح شام پیدا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا لہٰذا بھس بھرے ناکارہ ہجوم کو زمین کچرے کی طرح پھینک دیتی ہے۔  تخلیق خواہ ربِ رحیم و رحمٰن کی ہو یا تلمیذ الرحمٰن کی جب وہ اپنے جوہر کا حق ادا نہیں کرتی تو زندہ رہنے کی اہلیت بھی کھو بیٹھتی ہے۔

زخم خوشبو میں اور گھڑی چُپ پر

رات چلتی ہے سوئی میں چُھپ کر

اک انگیٹھی کے سرخ شعلے میں

خشک لکڑی کا شور باقی ہے

آج کمرے میں میز پر کس نے

باسی لفظوں کا ڈھیر رکھا ہے

اور پہلو میں سرد سانسوں کی

تازہ آنسو کی ٹوٹتی آواز (محبت)

دنیا بھر کی شاعری کا سب سے بڑا موضوع محبت ہے۔  زندگی کی زائیدہ ہے جو اس کائنات کی افضل ترین صفت ہے۔  محبت کے بغیر زندگی اپنے معنی سے تہی ہو جاتی ہے اور زندگی کے بغیر محبت اپنا ظہور نہیں کرتی۔  حیاتیاتی سطح سے مابعد الطبیعیاتی رفعت تک محبت کے ان گنت مراتب ہیں اور یہ سب کے سب حسبِ توفیق شاعری کے مدارج قرار پاتے ہیں۔  اب ایک مختصر سی نظم دیکھیے۔  شاعر نے کس فنی مہارت سے ایک کائنات جتنے بڑے موضوع کو مٹھی بھر الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔

شام کی رمز بھری آنکھوں میں

دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے

یہ زمانوں سے اُلجھتا دریا

مجھ سے ٹکرا کے کدھر جاتا ہے

(آگ پیتا ہوں، سلگتا ہوں، دھواں پھونکتا ہوں)

توصیف کی نظمیں ایسے طویل عنوانات کی قائل نہیں ہیں۔  اس لیے پہلی نظر میں یہ ذرا عجیب سا لگتا ہے۔  سگریٹ نوشی کی ہلاکت خیزی کو ذہن میں رکھ کر نظم کا مطالعہ کریں تو وقت کے عظیم سیلاب کے سامنے کھڑا انسان وجودیت کے ہولناک عفریت کی گرفت میں دکھائی دیتا ہے۔  لیکن شاعر نے چوتھی سطر میں ایک دیو ہیکل سوال کھڑا کر دیا ہے جس نے مایوسی کے ریلے کے آگے بند باندھ دیا ہے۔  یہیں سے نظم زندگی کے اسرارِ نہاں کی جستجو میں تخلیقی حرکیات کا آغاز کرتی ہے۔

تخلیقی شعور اور تنقیدی فہم ایک ہی ورق کے دو صفحات ہیں، جنھیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔  ہر تخلیق کار کا تنقیدی فہم بھی اس کی فنی سطح کے مطابق ہوتا ہے جو اسے فن پارے کے خود سے متعین کردہ معیار سے کم پر مطمئن نہیں ہونے دیتا۔  اسی طرح نقاد کا تنقیدی شعور اس کے تخلیقی فہم کے مطابق ہوتا ہے جو کسی فن پارے کی قدر مقرر کرنے میں اس کی راہنمائی کرتا ہے۔  (البتہ استثنائی صورتیں تو ہر شعبے میں ہوتی ہیں۔  ) ٹی ایس ایلیٹ نہ صرف بیسویں صدی کا نمایاں تر بڑا شاعر ہے بلکہ جدید تنقید میں بھی مساوی قد کاٹھ کا نقاد ہے۔  میں اس طویل جملۂ معترضہ کے محل کی وضاحت بعد میں کروں گا۔  پہلے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

ہوا نے خشک پتوں سے

کہانی جب گئے موسم کی چھیڑی تو

اداسی شام کی مانند

کمر ے میں اُتر آئی

لبوں پر تشنگی کی فصل اُگ آئی

دھواں بن کر بدن دیوار سے لپٹا رہا میرا! (نظم)

ایلٹ کی مشہور نظم The Love Song of J. Alfred Prufrock

کی دو سطور دیکھیے،جو ایلیٹ شناسوں سے ہمیشہ داد وصول کرتی رہیں گی۔

The yellow fog that rubs its back upon the window-panes,

The yellow smoke that rubs its muzzle on the window-panes

ایلیٹ کا کمال اپنی جگہ قائم ہے، اسے ذرا بھر بھی ادھر اُدھر کھسکانا ممکن نہیں۔  ہر اصیل شاعر ماضی کے عظیم شعرا کی روایت کی زنجیر کو تھام کر وقت کا دریا پار کرتا ہے۔  کسی عظیم شاعر سے استفادہ کرنا قطعاً معیوب نہیں لیکن استفادہ اس طور سے ہو کہ اصل میں کچھ نہ کچھ اضافہ ضرور کرے، یوں وہ روایت میں توسیع کا باعث بنے گا۔  میں نے توصیف کی نظم سے جو اقتباس نقل کیا ہے اس میں ایلیٹ کے امیج کی تخلیقی توسیع ہوئی ہے۔  ’’دھواں بن کر بدن دیوار سے لپٹا رہا میرا!‘‘ یہ گھر کی دیوار ہے، جس کی وضاحت ما قبل سطور میں موجود ہے۔  گھر کی علامت میں معنیاتی توسیع اپنی جگہ لائق ستائش ہے۔

اک ستارہ

تری سرمئی آنکھ میں

کہکشاؤں کی جھلمل میں چھپنے لگا

صبح کی روشنی کی پھوار

میرے دل پر گری

آسمانی صحیفوں کی قرأت کی آواز آنے لگی!

یہ سماعت مرے دل پہ اک بوجھ ہے

میں ازل سے ابد سے مخاطب نہیں

میں کسی آسمانی روایت کا کاتب نہیں

میں تو نکلا تھا

اُس سرمئی آنکھ کو ڈھونڈنے

جو مرے دل میں روشن رہے (آرزو کا سفر)

تلاش و جستجو ہی اصل حیات اور حاصل زندگی ہے۔  آج کا انسان جب فزکس کی آنکھ سے کائناتوں کے متوازی نظام اور بلیک ہول کا مشاہدہ کرتا ہے تو اسے اپنے سیارے کی مخلوق چیونٹی سے بھی حقیر دکھائی دیتی ہے لیکن جب وہ کائناتِ اصغر میں جھانکتا ہے تو ذات کے نہاں خانوں میں خارج سے کہیں بڑے طلسم کدے دکھائی دیتے ہیں۔  اس نظم میں دوئی اور یکسوئی یوں باہم پیوست ہیں انھیں الگ کرنا ممکن نہیں

’’صبح کی روشنی کی پھوار

میرے دل پر گری

آسمانی صحیفوں کی قرآت کی آواز آنے لگی!

یہ سماعت مرے دل پہ اک بوجھ ہے

میں ازل سے ابد سے مخاطب نہیں

میں کسی آسمانی روایت کا کاتب نہیں‘‘۔

ان سطور کا مطالعہ سفر العشق میں وحدت الوجودی زاویے سے کریں تو بات میں پڑی گرہ کھل جاتی ہے۔

ہو ا کا شور ہے

رستے مگر چپ چا پ لیٹے ہیں

محاذوں سے خبر چلتی ہوئی

جب شہر میں پہنچی

تو آنکھیں تیرگی کی تھپکیاں لینے کی عادی تھیں

کسی میں خوابِ رنگیں تھا

کسی میں آخری آنسو! (یہ کیسی رات اُتری ہے)

شاعری خواہ اساطیری، آفاقی اور کائناتی جہات سے منور ہو، اگر اس کی جڑیں اپنی زمین میں مضبوط نہیں ہیں تو اس کی مثال تارِ عنکبوت جیسی ہے۔  جسے وقت کا ہلکا سا جھونکا صفحۂ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دیتا ہے۔  توصیف کی شاعری کی جڑیں اپنی ثقافت و تہذیب اور سیاست و تاریخ میں بہت گہرائی تک پھیلی ہوئی ہیں لہٰذا شاعر کو یقین رکھنا چاہیے کہ اس کتاب کی اشاعت میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی! البتہ میں اسے احساس دلانا چاہتا ہوں شاعری جز وقتی سرگرمی نہیں، یہ کل وقتی ذمہ داری اور ہمہ وقت روشن الاؤ ہےجسے دہکائے رکھنا ہی تخلیقی وجود کے لیے جوازِ حیات ہے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے