غزلیں۔۔۔ کاشف غائر

یہ معجزہ بھی ہُوا ہے دُعا کے آخری دن

پلٹ گیا مرے نزدیک آ کے آخری دن

 

وہ پہلے دن سے ہی منزل کے انتظار میں تھا

کہ موج لے گئی جس کو بہا کے آخری دن

 

تمام عمر کی میں بے رُخی کو بھول گیا

ملا جو مجھ سے کوئی مُسکرا کے آخری دن

 

یہ ایک بات اُسے خط میں کس طرح لکھتا

کہ کتنا رویا تھا اُس کو ہنسا کے آخری دن

 

ہے پیش لفظ کتابِ اجل کا خوابِ حیات

کُھلای ہ بھید جہاں میں بِتا کے آخری دن

 

کئی دنوں سے وہ اٹکھیلیاں نہیں کرتی

چمن میں جیسے ہوں بادِ صبا کے آخری دن

 

میں بے قصور تھا غائری ہ بات منصف کو

پتا چلی بھی تو میری سزا کے آخری دن

٭٭٭

 

 

 

 

آخر زوال دستِ ستمگر پہ آ گیا

جو زخم دل پہ آنا تھا، خنجر پہ آ گیا

 

پیاسے کا ڈوبنا بھی کہانی سے کم نہیں

الزام خودکشی کا سمندر پہ آ گیا

 

لکھا گیا ہے اس کے مقدر میں ٹوٹنا

یونہی نہیںی ہ دل کسی پتھر پہ آ گیا

 

میں حادثے کو جب نظر آیا نہ راہ میں

میری مزاج پُرسی کو وہ گھر پہ آ گیا

 

مجھ ایسے تنگ دست سے اُس نے کِیا سوال

تو ہنس پڑا میں، پیار گداگر پہ آ گیا

 

دیوانگی میں مجھ کو پتا ہی نہیں چلا

یہ دل کا بوجھ کیسے مرے سر پہ آ گیا

 

غائر یہ آسمان و زمیں گھومنے کے بعد

جس در سے میں اٹھا تھا، اسی در پہ آ گیا

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے