جدید اردو شاعری کی عصری معنویت ۔۔۔ محمد اسد اللہ

جدیدیت اور ترقی پسند تحریک عالمی ادبیات میں رو نما ہونے والی دو اہم تحریکات تھیں۔  اردو ادب پر بھی ان دونوں تحریکات کے گہرے اثرات مرتسم ہوئے۔  ترقی پسند تحریک کے عطا کر دہ ادبی سرمائے کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زمینی حقیقتوں کی عکاسی، بعض روایات سے بغاوت، احتجاج اور سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت اس کی امتیازی خوبیاں تھیں۔  یہی ترقی پسندی کی پہچان بھی تھی۔

وقت کے ساتھ اشتراکیت کے سماجی اور سیاسی سروکار جب مخصوص نظریات کی ترویج کی دھن میں ادب اور تخلیقی سر گرمیوں سے انحراف کرتے ہوئے کھوکھلی نعرے بازی میں ڈھل گئے تو اس کا دامن تھامنے والے بعض فنکاروں نے اس تحریک سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔  جدیدیت کے متعلق یہ خیال عام ہے کہ وہ ترقی پسند تحریک کے رد میں وجود میں آ ئی تھی۔  جدیدیت محض ترقی پسندی سے انحراف نہ تھا۔  اس تحریک کی بنیاد عصری زندگی کے وہ نئے مسائل تھے جن کے فنی اظہار کے لئے نئے وسیلے، اسالیب اور طریقے در کار تھے۔  جدیدیت نے تخلیقی سطح پر یہ لوازمات مہیا کئے۔  اسی کے ساتھ عصری شعور کے اظہار نے اسے ترقی پسندی سے الگ کر دیا تھا۔

یوں تو ہر زمانے میں نئے مسائل سر اٹھاتے ہیں اور ان میں سے کچھ شعر و ادب کا موضوع بھی قرار پاتے ہیں۔  یہ مسائل فرد کی اپنی ذات کے متعلق بھی ہو سکتے ہیں اور بعض بیرونی معاملات بھی ہو سکتے ہیں جن کا ادراک فنکار کو ذاتی شعور، تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں طبع آزمائی پر آمادہ کرتا ہے پھر وہ انھیں ادب کی شکل میں پیش کرتا ہے۔  جدیدیت نے ادب میں ایک بدلتی ہوئی زندگی اور بڑے تغیرات کی زد پر موجود دنیا کو اپنا موضوع بنایا اور اس کے لیے اپنے اظہار کے طور طریقے اپنائے جن میں موضوعات کے ساتھ زبان، بیان، لفظیات اور طرزِ اظہار سب میں نمایاں تبدیلیاں موجود تھیں۔  شمس الرحمٰن فاروقی نے جدیدیت کی تحریک کو ماہ و سال کے حوالے سے بیان کر تے ہوئے لکھا ہے:

خالص میکانیکی اور زمانی نکتۂ نظر سے نئی شاعری سے میں وہ شاعری مراد لیتا ہوں جو ۱۹۵۵ کے بعد تخلیق ہوئی ہو۔  ۱۹۵۵ کے پہلے ادب کو میں نیا نہیں سمجھتا ہوں۔  اس کا مطلب یہ نہیں کہ ۱۹۵۵ کے بعد جو بھی کچھ لکھا گیا وہ سب نئی شاعری کی زمرے میں آ تا ہے اور یہ بھی نہیں کہ ۱۹۵۵ کے پہلے کے ادب میں جدیدیت کے عناصر نہیں ملتے۔۔۔۔  داخلی اور معنوی حیثیت سے میں میں اس شاعری کو جدید سمجھتا ہوں جو ہمارے دور کے احساسِ جرم، خوف، تنہائی، کیفیتِ انتشار اور اس ذہنی بے چینی کا (کسی نہ کسی نہج سے) اظہار کرتی ہو جو جدید صنعتی اور مشینی اور میکانیکی تہذیب کی لائی ہوئی مادی خوش حالی، ذہنی کھوکھلے پن، روحانی، دیوالیہ پن اور احساسِ بے چارگی کا عطیہ ہے۔  ۱

یوں تو حالی اور محمد حسین آ زاد کی ان کوششوں کو نئی شاعری کا نقطۂ آغاز خیال کیا جاتا ہے جس کے تحت انھوں نے روایتی شاعری سے قدرے انحراف کر کے نئے زمانے کے تقاضوں کو موضوعِ سخن بنانے پر زور دیا اور غزل کے مقابلے میں نظم کے فارم کو بروئے کار لانے کا مشورہ دیا۔  حالانکہ وہ ان شعبوں میں کوئی غیر معمولی تبدیلیاں پیدا نہیں کر پائے۔  اس سلسلے میں خلیل الرحمٰن اعظمی لکھتے ہیں:

شاعری کے سلسلے میں ’’جدید‘‘ کی صفت بطور اصطلاح ہمارے ہاں اس وقت استعمال میں آئی جب آ زاد اور حالی نے شعوری طور پر مقصدی، افادی اور اصلاحی قسم کی نظمیں لکھنے اور اس رجحان کو فروغ دینے کی کوشش کی اس وقت سے لے کر اب سے کچھ دنوں پہلے تک جدید شاعری کے جتنے رجحانات سامنے آئے ہیں ان کے پیچھے زمانۂ حاضر سے متعلق کسی نہ کسی مسلک یا نصب العین کا تصور کار فرما رہا ہے۔  بعض اوقات ایک رجحان دوسرے رجحان کی ضد یا ردّ عمل کے طور پر وجود میں آ یا۔  ۲

حالی اور محمد حسین آ زاد کی کوششوں سے ایک نئی سمت میں اردو شاعری کے سفر کا آغاز ضرور ہوا مگر اس میں قدیم طرزِ شاعری سے انحراف کا پہلو نمایاں تھا اسی کے ساتھ غزل کے مقابلے میں انھوں نے نظم کو ترجیح دی کیونکہ شاعری کا یہ فارم نئے عہد کے اظہار اور نئے موضوعات کو بڑے پیمانے پر پیش کرنے کے لیے مناسب تھا۔  مذکورہ دونوں فنکاروں کی جدت پسندی اس رجحان سے قدرے مختلف تھی جو آگے جا کر جدیدیت کے نام سے پہچانا گیا۔  حالی اور آ زاد کے متعلق شمیم حنفی لکھتے ہیں:

حالی اور آ زاد کی اصلاح پسندی ان کے تخلیقی مزاج سے زیادہ ان کے عہد کی ترجمانی ہے۔  ان کے خیالات میں تضاد نیز ان کے انفرادی میلانِ طبع اور ان کے عہد کے تقاضوں میں کش مکش کا سبب یہی ہے کہ ان کی شخصیتیں اس مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں تھیں اور اس مزاج سے ان کا رشتہ تخلیقی یا فنی کم، شعوری زیادہ تھا۔  ۳

جدید شاعروں نے زندگی کے ابھرتے ہوئے زاویوں کو محسوس کر کے نئی واردات مرتب کی اور اپنے مشاہدات اور تجربات کو لسانی پیرائے میں پیش کیا انھوں نے روایتی شاعری کے متعین وسائل کے بجائے اپنے ادبی وسائل کو استعمال کیا۔  جدید شاعری کے علمبرداروں کے ذہن میں مخصوص لائحہ عمل اور منصوبہ بندی ضرور تھی جس نے اس رجحان کی تشکیل کی تھی۔  اس مخصوص رجحان کی طرف چند اشارے شمس الرحمٰن فاروقی کے مذکورہ بالا بیان میں بھی ملتے ہیں۔  حالی اور محمد حسین آ زاد کے بعد حسرت موہانی کی غزلوں میں جو نیا پن نظر آتا ہے اسے غزل کے احیا سے تعبیر کیا گیا۔  اسی دور میں شاد عظیم آ بادی اور بعض دیگر شعرا کی غزلیں بھی ایک نئے انداز کا احساس دلائی ہیں۔

جدید شاعری کے تحت رو نما ہونے والا نیا پن داخلی اور خارجی تبدیلیوں سے عبارت ہے۔  جدیدیت کا تصور ادب میں نئے پن کو اختیار کرنے اور روایتی موضوعات اور طرزِ اظہار کے برتنے سے زیادہ بدلتی ہوئی زندگی کو ادب میں پیش کرنے پر زور دیتا ہے۔  انیسویں صدی اور اس سے پہلے سے وجود میں آ نے والے سائنسی نظریات، ایجادات اور علمی انکشافات نے انسانی سوچ کو عالمی پیمانے پر متاثر کیا جن کا اثر حیاتِ انسانی پر پڑنا لازمی تھا۔  جن ذہنی اور قلبی سہاروں نے صدیوں سے انسانی زندگی کی راہیں ساری دنیا میں متعین کر رکھی تھیں۔  کائنات اور انسان کے متعلق سائنسی انکشافات نے عقائد اور نظریات کے وہ قلعے مسمار کر دئے۔

وہ تجلی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے تیر

آئینے ٹوٹ گئے آئینہ بر دار گرے

(شکیب جلالی )

دو عظیم جنگوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔  انسانی زندگی کے اتحاد اور امن و امان، آسودگی کو ان آفات نے نہ صرف ختم کیا بلکہ خوف، دہشت تشکیک اور سراسیمگی پیدا کر دی۔  ان حالات کی سب سے بڑی ضرب مذہبی عقائد پر پڑی۔  انسان اپنے ذہنی سہارے چھن جانے اور تشکیک میں مبتلا ہونے کے بعد خود کو کائنات میں تنہا محسوس کرنے لگا۔  موجودہ دور میں زندگی کی قدریں بدل چکی ہیں۔  نئے انسان کا طرزِ زندگی ہی نہیں اس کی سوچ بھی جداگانہ ہے۔  قدیم دور کا انسان زرعی معاشرے کا پروردہ تھا۔  اس وقت مشترک خاندان کی روایت بہت مضبوط تھی۔  نیا معاشرہ صنعتی معاشرہ ہے۔  مشترک خاندان کی روایت اب بہت کمزور ہو چکی ہے اسی طرح انسانی شعور پر مذہبی عقائد کی گرفت بھی اس قدر مضبوط نہیں رہی۔  اس زبردست انقلاب نے ادب کے پیمانوں کو بھی تبدیلی پر مجبور کیا اور جدیدیت اسی نئے دور کی تصویر کشی سے عبارت ہے۔  اس سلسلے میں کمار پاشی کے خیالات ملاحظہ فر مائیں۔

آج کا انسان اب سے پہلے کے انسان سے ذہنی طور پر بہت ہی مختلف ہے۔  وہ اب زمینی فاصلوں کے کم یا ختم ہو جانے سے بین الاقوامی سطح پر ایک عالمگیر قوم میں شامل ہو چکا ہے۔  اس کا کرب اب محدود نوعیت کا نہیں رہا۔  آج جب کہ پوری کائنات کے اسرار کی گرہیں کھل چکی ہیں، اس کے کرب کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔  نیا انسان خارجی وسعتوں کے سامنے خود کو ہیچ پا کر اب اپنے وجود کو تلاش کرنے نکلا ہے۔  اس کا سفر اب خارج سے باطن کی جانب ہے۔  اس لیے آج وہ خود سے ہم کلام ہے۔  سوالات نئے ہیں اور پیچیدہ ہیں۔

(جدید شاعری۔  ایک سیمپوزیم، مطبوعہ: جدیدیت تجزیہ و تفہیم، مرتبہ، ڈاکٹر مظفر حنفی، ۱۹۸۵، لکھنؤ، ص۶۳۱)

جدیدیت اسی نئے عہد میں سانس لینے والے انسان کی محسوسات اور خیالات کا فنکارانہ اظہار ہے۔  ذیل کے اشعار ان کیفیات کی نمائندگی کر تے ہیں۔

بوڑھی چیلیں بارہا اٹھکیلیاں بھرتی رہیں

اپنا میر کارواں اکثر جواں مارا گیا

شمس الرحمٰن فاروقی

سارا لہو بدن کا رواں مشتِ پر میں تھا

شام ہو چکی تھی اور پرندہ سفر میں تھا

وزیر آغا

جواں ہے شہر تمنا فریب کھانے تک

یہ ہاؤ ہو ہے فقط میرے بیت جانے تک کمار پاشی

سرائے دل میں جگہ دے تو کاٹ لوں اک رات

نہیں یہ شرط کہ کہ مجھ کو شریک خواب بنا

حسن نعیم

بین کرتی ہے دریچوں میں ہوا

رقص کرتی ہیں سیہ پر چھائیاں

سلیم احمد

سکھا دیا ہے زمانے نے بے بصر رہنا

خبر کی آگ میں جل کر بھی بے خبر رہنا

وزیر آغا

اونچی عمارتوں کی یہ بستی عجیب ہے

ہر شکل اپنے جسم سے باہر دکھائی دے

(ندا فاضلی)

کہاں کی سیر ہفت افلاک، اوپر دیکھ لیتے تھے

حسیں اجلی کپاسی برف بال و پر پہ رکھی تھی

بانی

نئے دور میں انسان کی تنہائی، عدم تحفظ اور جابر طاقتوں کے آگے بے بسی نے جس خوف، سراسیمگی کو جنم دیا ہے اس کا اظہار بھی ہمیں جدید شاعری میں نئی شعری تراکیب، استعاروں اور علامتوں کے ذریعے ملتا ہے۔

تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو

تا حد نظر ایک بیابان سا کیوں ہے

شہر یار

پکارتی ہیں بھرے شہر کی گزر گاہیں

وہ روز شام کو تنہا دکھائی دیتا ہے

احمد مشتاق

میں بکھر جاؤں گا زنجیرکی کڑیوں کی طرح

اور رہ جائے گی اس دشت میں آواز مری

ظفر اقبال

نہ اتنا تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو

شجر پہ ایک ہی پتہ دکھائی دیتا ہے

شکیب جلالی

ایک مدت سے چراغوں کی طرح جلتی ہیں

ان ترستی ہوئی آنکھوں کو بجھا دو کوئی

ساقی فاروقی

لمبی سڑک پہ دور تلک کوئی بھی نہ تھا

پلکیں جھپک رہا تھا دریچہ کھلا ہوا

محمد علوی

وقت بے رحم ہے لمحوں کو کچل جائے گا

دن کو روکو کہ مہینوں میں بدل جائے گا

شاذ تمکنت

جنسی بے راہ روی، فحاشی، عریانی اور جنسی مسائل بھی جدید شاعری کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔  ہر چند قدیم شاعری میں اس پہلو کو اشاروں اور کنایوں میں اور واضح طور پر بھی خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔  جدید شاعر کا اس طرف دیکھنے کا انداز الگ ہے۔  فرائیڈ اور یونگ کے نظریات نے سیکس کے متعلق نئے زمانے کی سوچ کو بدل دیا۔  انسان کی اس جبلت کے نفسیاتی تعبیریں اور سائنسی نظریات کے فروغ کے ساتھ ہی زمانے نے کروٹ بدلی تو اب وہ قدیم معاشرہ جس میں عورت پردوں کے پیچھے پوشیدہ تھی اور جنسی معاملات ڈھکے چھپے انداز میں بیان کئے جاتے تھے، نئے زمانے نے اسے آزادی اور بے باکی عطا کر دی۔  جنسی معاملات کی طرف دیکھنے کا نظریہ بھی بدل گیا ہے اسی لئے جدید شاعری میں اس سلسلے کا اظہار بھی قدرے بے باک ہے، جدید شاعری میں کھلے طور پر جنسی معاملات اور مسائل کے اظہار کے بے شمار نمونے موجود ہیں۔  جس طرح جدید افسانوں میں ان معاملات کو بے باکی سے کریدا گیا ہے اسی طرح جدید شاعری بھی اپنی ابہام گزیدگی کے ساتھ سیکس کی فراوانی، فحاشی اور آ زادی اظہار کے لیے معتوب بھی رہی ہے۔

سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا

کھڑکی کے پردے کھینچ دئے رات ہو گئی

ندا فاضلی

الف سیر کرنے گیا نون میں

ملے میم کے نقشِ پا نون میں

عادل منصوری

رات کا انتظار کون کرے

آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا۔

بشیر بدر

بارش میں بھیگنے کا مزہ اس کو آ گیا

کپڑوں کے ساتھ ساتھ بدن کو نچوڑ کے

شاہد کبیر

روایتی شاعری کے متعلق سرسری طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ گل و بلبل کی شاعری ہے حالانکہ ہمارا یہ شعری سر مایہ ان ہی علامات، تشبیہات و استعاروں میں زندگی اور کائنات کے بے شمار پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔  جو کل کہاجا چکا ہے آج بھی اسی کو بہ اندازِ دیگر کہا جائے گا۔  موضوعات تمام تر تبدیل نہیں ہوتے ان میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔  نیا زمانہ اظہارِ خیال اور طبع آزمائی کے لیے نئے موضوعات مہیا کرتا ہے، مگر سب کچھ نہیں بدلتا۔  روایتیں بہر حال کسی کسی نہ شکل میں برقرار رہتی ہیں۔  روایتی شاعری میں بھی اپنے مخصوص علائم اور لفظیات کے ساتھ زندگی کی عکاسی کی اور موضوعِ بحث موضوعات کے لئے تشبیہات اور استعاروں کے نئے معنوی لبادے تیار کئے۔  اسی بات کی تصدیق غالبؔ کے اس شعر سے بھی ہوتی ہے۔

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو

بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

نئے عہد کے مسائل اور نئے انسان کے احساسات انوکھا لب و لہجہ اور نیا انداز طلب کر تے تھے۔  ایک طرف جدید شاعری نے اس تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش کی اور بعض انوکھے مفاہیم کے لیے الگ زبان تشکیل کی۔  دوم بیشتر جدید شاعروں نے کلاسیکی شاعری کے قابلِ قدر نمونے اپنے اندر جذب کئے اور اسی کے ساتھ نئے انسان کی زندگی کے اہم پہلوؤں سے متاثر ہو کر انھیں اپنی شاعری کا جزو بنایا۔  اسے در پیش مسائل اور اس کے اندر ابھر نے والی آوازوں کو جدید شاعری کے قالب میں ڈھالا جس کی زبان، علائم، شعری تراکیب، اسلوب اور طرزِ اظہار قدیم شاعری سے قدرے مختلف تھا اور بہت حد تک نا مانوس بھی۔  بقول صفدر

الفاظ استعارے اشارے ہمارے اپنے ہیں

انداز شعر گوئی کے پیارے ہمارے اپنے ہیں

مختلف رجحانات اور تحریکات اپنے منفرد انداز میں ادبی سر مائے میں اضافہ کرتی ہیں۔  روایتی شاعری اب بھی از کارِ رفتہ نہیں ہے، نہ ہی مذکورہ تحریکات۔  خاص طور پر جدیدیت کی تحریک کے ادبی سرمائے کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی اہمیت اور افادیت کھو چکا ہے۔  اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ جدیدیت نے جس عہد کے مسائل اور اس سے ابھرنے والے احساسات کو شعری قالب عطا کیا، اس کا بڑا حصہ اب بھی بر قرار ہے اور مستقبل میں اس کی توسیع اور اس میں شدت اختیار کرنے کے قوی امکانات ہیں۔  آج بھی جدید شاعری اپنی مبہم علامتوں اور استعاروں کے باوجود وہ کیفیت پیدا کرنے پر قادر ہے جسے سن کر یا پڑھ کر ہم یہ کہہ اٹھیں: میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔

زنجیر کی لمبائی تک آزاد ہے قیدی

جنگل میں پھرے یا کوئی گھر بار بسا لے

ندا فاضلی

رہ گیا مشتاق دل میں یادِ رنگِ رفتگاں

پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہو گئیں

احمد مشتاق

وہ شخص جس نے خود اپنا لہو پیا ہو گا

جیا تو ہو گا مگر کس طرح جیا ہو گا

عبد الرحیم نشتر

وہ خود نمائی پہ اتنا یقین رکھتا ہے

نہیں ہے ہاتھ مگر آستین رکھتا ہے

حفیظ مومن

اے تنگیِ دیارِ تمنا بتا مجھے

وہ پاؤں کیا ہوئے جنھیں صحرا عزیز تھا

نشتر خانقاہی

بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے

ہم دل کے سلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں

شکیب جلالی

طے ہو سکا نہ خود سے تعارف کا مرحلہ

چھوٹی سی ایک موج سمندر بنی رہی

بشر نواز

نئے زمانے کی بے مروتی، بے گانگی، منافقت، منافرت اور سفاکی کے علاوہ آزادی کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات بھی جدید شاعری میں ایک الگ موضوع کا احساس دلاتے ہیں۔

کوئی نہیں جو دشمن کے خنجر پر خنجر رکھ دے

سب پستے بادام دکھائیں کیا خانم کیا خان

بشیر بدر

جس دن پڑوسیوں نے مرا گھر جلا دیا

اک دیوتا سا تھا میرے اندر جلا دیا

صادق

کیوں دشمنوں کے بیچ کھڑا کر دیا مجھے

کیا کہہ کے اب خطاب کروں سامعین کو

محمد علوی

خوابوں میں میں نے بارہا پکڑی ہیں تتلیاں

رنگوں کی آرزو کا گنہگار میں بھی ہوں

سلیم شہزاد

ملنے والے لاکھ ہوں پھر بھی خفا کوئی نہ ہو

یعنی ہونٹوں کا تبسم بھی مشینی چاہئے

مدحت الاختر

کراں تا کراں پھیلا یہ کرۂ باد

ہے ایک صحرا

کہیں گونجتی ہیں درندوں کی بھوکی صدائیں

کہیں غول در غول وحشی کتے کہ مٹّی کی بو سونگھتے پھر رہے ہیں

زمیں ایک بھٹکا مسافر ہے

کتوں سے بچتی ہوئی راستہ ڈھونڈتی ہے۔

ایک فساد زدہ نظم۔  صفدر

جدید شاعری ہئیت کے تجربات کے لیے بھی جانی جاتی ہے ہر چند اس کا بیشتر سرمایہ غزلوں میں موجود ہے تاہم نظم، آزاد نظم، نثری نظم وغیرہ میں بھی اظہار و بیان کی وسعتیں یہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔  جدید نظموں میں اس عہد کا چہرہ اور انسان کا اندرونی کرب موثر انداز میں مختلف علامات اور استعاروں کی زبانی اور اکثر ان لوازمات کے بغیر بھی صفحۂ قرطاس پر پھیلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

کوہ ساروں، ریگ زاروں سے ندا آ نے لگی

ظلم پر وردہ غلامو، بھاگ جاؤ

پردۂ شب گیر میں اپنے سلاسل توڑ کر

چار سو چھائے ہوئے ظلمات کو اب چیر جاؤ

اور اس ہنگامِ باد آور کو

حیلۂ شب خوں بناؤ

زنجیر۔  ن۔  م۔  راشد

سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمیں؟ کہہ دو

یہ کیسا پھیر ہے، تقدیر کا یہ پھیر تو شاید نہیں، لیکن یہ پھیلا آسماں اس وقت کیوں دل کو لبھاتا تھا۔  حیاتِ مختصر سب کی بہی جاتی ہے اور میں بھی

ہر اک کو دیکھتا ہوں، مسکراتا ہے کہ ہنستا ہے

کوئی ہنستا نظر آئے، کوئی روتا نظر

آئے

میں سب کو دیکھتا ہوں، دیکھ کر خاموش رہتا ہوں

مجھے ساحل نہیں ملتا۔

مجھے گھر یاد آ تا ہے۔  میراجی

یہ لڑکا پوچھتا ہے جب تو میں جھلا کے کہتا ہوں

وہ آشفتہ مزاج اندوہ پرور، اضطراب آسا

جسے تم پوچھتے رہتے ہو کب کا مر چکا ظالم

اسے خود اپنے ہاتھوں سے کفن دے کر غریبوں کا

اسی کی لحد میں پھینک آیا ہوں!

ایک لڑکا۔  اختر الایمان

شامیانے کے پرلی طرف

وقت کے جبر کے سامنے

چپ کھڑی مامتا

جس کے چاروں طرف

تشنہ ہونٹوں

گرسنہ نگاہوں، لٹکتی زبانوں

بدن گیر غراہٹوں کا عجب غول ہے

اور اسی غول سے

اپنی نازوں کی پالی کی خاطر

بڑے صبر سے ایک مجبور ہرنی کی صورت وہ چن لائی ہے

اک ذرا کم ضرر بھیڑیا!

پر وین شاکر

کون کہتا ہے

کہ صورتوں کی لپی سے

میں واقف نہیں؟

اس مرستھل میں تحریر طوفان میں پڑھ چکا ہوں

مجھے خوف کی سب فصیلوں کے اندر کا منظر

دکھائی دیا ہے

میں نے

امکان کی سب دراڑوں کو دیکھا ہے

میں جانتا ہوں

ان کی پسلیوں میں

جو اسرار ہیں ؍ غیر مطلوب ہیں

گواہی۔  صادق

مندرجہ بالا جدید نظموں کے اقتباسات اور ان جیسی بے شمار نظموں میں ہماری زندگی کی جیتی جاگتی تصویریں مل جاتی ہے اور عام انسان کا کرب جدید شاعری میں نظر آتا ہے۔  پروین شاکر، کشور ناہید اور شفیق فاطمہ شعریٰ جیسی کئی خواتین شاعرائیں بھی ہیں جنھوں نے عورت پر ہونے والے ظلم اور استحصال کو نظموں میں موثر انداز میں پیش کیا ہے۔  ظاہر ہے یہ ہمارے عہد کی عکاسی ہے اور انسانی درد کی وہ تصویریں جو اس سے پہلے ناپید تھیں، جدید شاعری ان احساسات اور خیالات کا فنی اظہار ہے جس نے نئے عہد کے مسائل سے سر اٹھایا تھا۔  موجودہ زمانے میں بھی وہ معاملات، حالات اور مسائل اسی طرح برقرار ہیں اور ان کی وہی گونج نئے انسان کے اندر موجود ہے اس لیے جدید شاعری موجودہ زمانے میں بھی اپنی معنویت کے لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے۔

٭٭

حواشی

۱۔  جدید شاعری۔  ایک سیمپوزیم، مطبوعہ: جدیدیت تجزیہ و تفہیم، مرتبہ، ڈاکٹر مظفر حنفی، ۱۹۸۵، لکھنؤ، ص ۶۴۰

۲۔  جدید تر غزل، مطبوعہ: جدیدیت تجزیہ و تفہیم، مرتبہ، ڈاکٹر مظفر حنفی، ۱۹۸۵، لکھنؤ، ص ۳۷۵

۳۔  شمیم حنفی۔  جدیدیت کی فلسفیانہ اساس، نئی دہلی، ۱۹۷۷، ص ۶۰

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے