دکھلا کبھی مدینہ مرا دل اُجال کر
اے یادِ شہرِ طیبہ! مُجھے بھی نِہال کر
کچھ دیدنی ہو حال کہ دیکھیں وہ آ کے خود
اے کیفِ ہجر! آج مجھے یوں نڈھال کر
وہ زندگی تھی در پہ جو اُن کے بسر ہوئی
کیا زندگی ہے طیبہ کے وہ دن نکال کر
طیبہ سے رخصتی پہ ملا تھا جو دفعتاً
اے ساعتو! وہ کیف تو رکھنا سنبھال کر
کیا دن تھے جب پڑا تھا درِ مصطفیٰﷺ پہ میں
اے لوحِ بخت! میرا وہ منصب بحال کر
اے کاش میں بھی عشقِ پیمبر میں جَل بُجھوں
میرے خدا! عطا مجھے سوزِ بلال کر
دنیا کی سروری کو سمجھتا ہوں ہیچ تر
خیرات اُن کے در کی میں جھولی میں ڈال کر
تیری طلب سے تجھ سے زیادہ ہیں با خبر
اے دل! یہاں دراز نہ دستِ سوال کر
اتنی تری مجال کہ لیتا ہے سانس تُو
ثاقب! ہے بارگاہِ ادب، کچھ خیال کر
٭٭٭