(ملیالم)
مجرم
___________________
مجرموں کا جرم ثابت کرنا
بہت آسان ہوتا ہے
ایک حد سے آگے
وہ کچھ بھی چھپا نہیں سکتے
جس راز کو وہ چھپا رہے ہوتے ہیں
اس کے ہی ارد گرد گھومتے رہتے ہیں ان کے جھوٹ…
تھوڑے بہت مختلف ہوں گے ان کے بیان
لیکن آخر میں وہ قبول کر لیں گے اپنے سب گناہ
آخر، انہیں معلوم جو ہے سب کچھ
جینا حرام ہوتا ہے
بے گناہ لوگوں کی وجہ سے
قبول ہی نہیں کریں گے وہ کبھی اپنا جرم
تعاون لفظ کا مطلب جیسے کہ سنا ہی نہیں کبھی
ان کی قوتِ برداشت کمال کی ہوتی ہے
ان کی ماند کو اگر کھود کر دیکھیں گے
تب ہمیں حاصل
کچھ نہیں ہو گا
بے گناہوں سے
زیادہ سخت دل
اور کوئی نہیں اس دنیا میں
٭٭٭
وقت کے مالک
___________________
گھنے اندھیرے میں
بلی کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے
چوہیا اپنے بچہ کو سکھا رہی ہے:
‘‘سنو، ان کی نظر بڑی تیز ہے
تم کبھی بھی ان کی نظر میں پڑ سکتے ہو
ان کے کان بھی بہت تیز ہیں
فرش پر گرتے روئیں کی آہٹ سے بھی
وہ پہچان لیتے ہیں
تمہیں
بہت مہذب شخصیت ہے ان کی
وہ اپنے بچے کے نرم دستانوں کا استعمال کریں گے
تمہارے پیچھے پلٹنے کے لیے
وہ بہت صابر ہیں
چار پانچ گھنٹے لگاتے ہیں
تمہیں آرام سے
دُم تک نگل لینے میں
وہ رحم کے مینار ہیں
صرف اتنا زخمی کریں گے تمہیں جتنا ضروری ہے
وہ کبھی تمہیں مایوس نہیں کریں گے
جان واپس بھی ملے گی
کئی بار تمہیں
بے حد قدر دان ہیں یہ
مزے سے چکھتے رہتے ہیں تمہیں
دُم کی آخری لرزش تک
کبھی کوئی جلدی نہیں انہیں
وقت کے مالک ہیں
مالک … ’’
٭٭٭
راحت
___________________
جب میری ماں گزر گئی
تب مجھے بڑی راحت محسوس ہوئی
اب میں رات کو بھوکا رہ سکتا ہوں
وہ مجھے بے چین نہیں کرے گی
اب مجھے نہانے کے بعد
بالوں کو ٹھیک سے سکھانا نہیں پڑے گا
اب کوئی ہاتھ پھیلا کر
گیلا پن نہیں پرکھے گا
اب میں کوئیں کی آدھی دیوار پر بیٹھ کر
آدھی نیند میں کتاب پڑھ سکتا ہوں
بھاگ کر آتی ہوئی کوئی چیخ
اب مجھے نیند سے نہیں اٹھائے گی
اب میں شام ہونے پر بغیر ٹارچ لیے بھی
اندھیرے میں نکل سکتا ہوں
سانپ کے ڈسنے سے مر جانے والے پڑوسی کی یاد میں
رات رات بھر جاگنے والی اب نہیں رہی
اب میں جہاں چاہوں
وہاں بے فکر سو سکتا ہوں
میرے آنے سے پہلے ہی بجھنے والا چراغ
اب ہمیشہ کے لیے بجھ گیا
اپنے کئے کی سزا بھگت رہا ہوں میں
ازلی بے چینی سے
میری ماں آزاد ہو ہی گئی
آخر اس کا مجھے جنم دینا ختم ہوا
اب اس دھرتی پر بھلے ہی بدن درد سے روئے
غصے میں کوئی نہیں روئے گی اب
٭٭٭