مہاجر نامہ
(پانچ سو اشعار کی اس مشہور غزل نما نظم سے کچھ اشعار کا انتخاب)
مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
کہانی کا یہ حصہ آج تک سب سے چھپایا ہے
کہ ہم مٹی کی خاطر اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں
نئی دنیا بسا لینے کی اک کمزور چاہت میں
پرانے گھر کی دہلیزوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں
عقیدت سے کلائی پر جو اک بچی نے باندھی تھی
وہ راکھی چھوڑ آئے ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں
کسی کی آرزو کے پاؤں میں زنجیر ڈالی تھی
کسی کی اون کی تیلی میں پھندا چھوڑ آئے ہیں
پکا کر روٹیاں رکھتی تھی ماں جس میں سلیقے سے
نکلتے وقت وہ روٹی کی ڈلیا چھوڑ آئے ہیں
جو اک پتلی سڑک اُنّاو سے موہان جاتی ہے
وہیں حسرت کے خوابوں کو بھٹکتا چھوڑ آئے ہیں
یقیں آتا نہیں، لگتا ہے کچّی نیند میں شائد
ہم اپنا گھر گلی اپنا محلہ چھوڑ آئے ہیں
ہمارے لوٹ آنے کی دعائیں کرتا رہتا ہے
ہم اپنی چھت پہ جو چڑیوں کا جتھا چھوڑ آئے ہیں
ہمیں ہجرت کی اس اندھی گپھا میں یاد آتا ہے
اجنتا چھوڑ آئے ہیں ایلورا چھوڑ آئے ہیں
سبھی تیوہار مل جل کر مناتے تھے وہاں جب تھے
دوالی چھوڑ آئے ہیں دسہرا چھوڑ آئے ہیں
ہمیں سورج کی کرنیں اس لئے تکلیف دیتی ہیں
اودھ کی شام کاشی کا سویرا چھوڑ آئے ہیں
گلے ملتی ہوئی ندیاں گلے ملتے ہوئے مذہب
الہ آباد میں کیسا نظارہ چھوڑ آئے ہیں
ہم اپنے ساتھ تصویریں تو لے آئے ہیں شادی کی
کسی شاعر نے لکھا تھا جو سہرا چھوڑ آئے ہیں
کئی آنکھیں ابھی تک یہ شکایت کرتی رہتی ہیں
کہ ہم بہتے ہوئے کاجل کا دریا چھوڑ آئے ہیں
شکر اس جسم سے کھلواڑ کرنا کیسے چھوڑے گی
کہ ہم جامن کے پیڑوں کو اکیلا چھوڑ آئے ہیں
وہ برگد جس کے پیڑوں سے مہک آتی تھی پھولوں کی
اسی برگد میں ایک ہریل کا جوڑا چھوڑ آئے ہیں
ابھی تک بارشوں میں بھیگتے ہی یاد آتا ہے
کہ ہم چھپر کے نیچے اپنا چھاتا چھوڑ آئے ہیں
بھتیجی اب سلیقے سے دوپٹہ اوڑھتی ہوگی
وہی جھولے میں ہم جس کو ہمکتا چھوڑ آئے ہیں
یہ ہجرت تو نہیں تھی بزدلی شائد ہماری تھی
کہ ہم بستر میں ایک ہڈی کا ڈھانچا چھوڑ آئے ہیں
ہماری اہلیہ تو آ گئی ماں چھٹ گئی آخر
کہ ہم پیتل اٹھا لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں
مہینوں تک تو امی خواب میں بھی بدبداتی تھیں
سکھانے کے لئے چھت پر پودینہ چھوڑ آئے ہیں
وزارت بھی ہمارے واسطے کم مرتبہ ہو گی
ہم اپنی ماں کے ہاتھوں میں نوالہ چھوڑ آئے ہیں
یہاں آتے ہوئے ہر قیمتی سامان لے آئے
مگر اقبال کا لکھا ترانہ چھوڑ آئے ہیں
ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیتی تھی
میاں آؤ وضو کر لو یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں
وضو کرنے کو جب بھی بیٹھتے ہیں یاد آتا ہے
کہ ہم جلدی میں جمنا کا کنارہ چھوڑ آئے ہیں
اتار آئے مروت اور روا داری کا ہر چولا
جو اک سادھو نے پہنائی تھی مالا چھوڑ آئے ہیں
جنابِ میر کا دیوان تو ہم ساتھ لے آئے
مگر ہم میر کے ماتھے کا قشقہ چھوڑ آئے ہیں
اِدھر کا کوئی مل جائے اُدھر تو ہم یہی پوچھیں
ہم آنکھیں چھوڑ آئے ہیں کہ چشمہ چھوڑ آئے ہیں
ہماری رشتے داری تو نہیں تھی، ہاں تعلق تھا
جو لکشمی چھوڑ آئے ہیں جو درگا چھوڑ آئے ہیں
۔ق۔
کل اک امرود والے سے یہ کہنا آ گیا ہم کو
جہاں سے آئے ہیں ہم اس کی بغیا چھوڑ آئے ہیں
وہ حیرت سے ہمیں تکتا رہا کچھ دیر پھر بولا
وہ سنگم کا علاقہ چھٹ گیا یا چھوڑ آئے ہیں
ابھی ہم سوچ میں گم تھے کہ اس سے کیا کہا جائے
ہمارے آنسوؤں نے راز کھولا چھوڑ آئے ہیں
۔۔۔
محرم میں ہمارا لکھنؤ ایران لگتا تھا
مدد مولیٰ حسین آباد روتا چھوڑ آئے ہیں
محل سے دور برگد کے تلے نروان کی خاطر
تھکے ہارے ہوئے گوتم کو بیٹھا چھوڑ آئے ہیں
تسلی کو کوئی کاغذ بھی ہم چپکا نہیں پائے
چراغِ دل کا شیشہ یوں ہی چٹخا چھوڑ آئے ہیں
سڑک بھی شیر شاہی آ گئی تقسیم کی زد میں
تجھے ہم کر کے ہندوستان چھوٹا چھوڑ آئے ہیں
ہنسی آتی ہے اپنی ہی ادا کاری پہ خود ہم کو
بنے پھرتے ہیں یوسف اور زلیخا چھوڑ آئے ہیں
گزرتے وقت بازاروں میں اب بھی یاد آتا ہے
کسی کو اس کے کمرے میں سنورتا چھوڑ آئے ہیں
ہمارا راستہ تکتے ہوئے پتھرا گئی ہوں گی
وہ آنکھیں جن کو ہم کھڑکی پہ رکھا چھوڑ آئے ہیں
تو ہم سے چاند اتنی بے رخی سے بات کرتا ہے
ہم اپنی جھیل میں ایک چاند اترا چھوڑ آئے ہیں
یہ دو کمروں کا گھر اور یہ سلگتی زندگی اپنی
وہاں اتنا بڑا نوکر کا کمرہ چھوڑ آئے ہیں
ہمیں مرنے سے پہلے سب کو یہ تاکید کرنا ہے
کسی کو مت بتا دینا کہ کیا کیا چھوڑ آئے ہیں
٭٭٭
اڑے کبوتر اڑے خیال
اک بوسیدہ مسجد میں
دیواروں محرابوں پر
اور کبھی چھت کی جانب
میری آنکھیں گھوم رہی ہیں
جانے کس کو ڈھونڈ رہی ہیں
میری آنکھیں رک جاتی ہیں
لوہے کے اس خالی ہک پر
جو خالی خالی نظروں سے
ہر اک چہرہ دیکھ رہا ہے
اک ایسے انسان کا شاید
جو اک پنکھا لے آئے گا
لائے گا اور دور کرے گا
مسجد کی بے سامانی کو
خالی ہک کی ویرانی پر
میں نے جب اس ہک کو دیکھا
میری ننھی پھول سی بیٹی
میری آنکھوں میں دوڑ آئی
بھولی ماں نے اس کی
اپنی پیاری راج دلاری بیٹی کے
دونوں کانوں کو
اپنے ہاتھوں سے چھید دیا ہے
پھولوں جیسے کانوں میں پھر
نیم کے تنکے ڈال دیے ہیں
امیدوں آسوں کے سہارے
دل ہی دل میں سوچ رہی ہے
جب ہم کو اللہ ہمارا
تھوڑا سا بھی پیسہ دے گا
بیٹی کے کانوں میں اس دن
بالیاں ہوں گی بندے ہوں گے
میں نے انتھک محنت کر کے
پنکھا ایک خرید لیا ہے
مسجد کے اس خالی ہک کو
میں نے پنکھا سونپ دیا ہے
ہک میں پنکھا دیکھ کے مجھ کو
ہوتا ہے محسوس کہ جیسے
میری بیٹی بالیاں پہنے
گھر کی چھت پر گھوم رہی ہے
٭٭٭
پتھر کے ہونٹ
کل رات
بارش سے جسم
اور آنسوؤں سے
چہرہ بھیگ رہا تھا
اس کے غم کی پردہ داری
شاید خدا بھی کرنا چاہتا تھا
لیکن دھوپ نکلنے کے بعد
جسم تو سوکھ گیا
لیکن آنکھوں نے
قدرت کا کہنا ماننے سے
بھی
انکار کر دیا
اس کے اداس
ہونٹ پتھر کے ہو گئے تھے
اور پتھر مسکرا نہیں سکتے
٭٭٭