نظمیں ۔۔۔ سنیل گنگوپادھیائے / اعجاز عبید

(بنگلا)

 

صرف نظم کے لیے

___________________

 

صرف نظم کے لیے ہوا یہ جنم

صرف نظم کے لیے ہوئے کچھ کھیل

 

صرف نظم کے لیے

تمہارے چہرے پر شانتی کی ایک جھلک

صرف نظم کے لیے

تم عورت ہو

 

صرف نظم کے لیے

زیادہ زیادہ بڑھتا خون کا دباؤ

صرف نظم کے لیے

بادلوں کے بدن پر گرتا ہے آبشار

 

صرف نظم کے لیے

اور بھی زیادہ دنوں تک

زندہ رہنے کا لالچ ہوتا ہے

مردوں کی طرح مایوس

صرف نظم کے لیے

میں نے امر ہو جانا حاصل کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

تم سے ملنے پر

___________________

 

تم سے ملنے پر

میں پوچھتا ہوں:

تم آدمی سے عشق نہیں کرتے ہو،

پر ملک سے کیوں پریم کرتے ہو؟

ملک تمہیں کیا دے گا؟

ملک کیا خدا کی مانند ہے کچھ؟

 

تم سے ملنے پر

میں پوچھتا ہوں:

بندوق کی گولی خریدنے کے بعد

جان دینے پر ملک کہاں پر ہو گا؟

ملک کیا جائے پیدائش کی مٹی ہے

یا کہ کانٹے دار تار کی سرحد؟

بس سے اتر کر

جس کا تم نے قتل کیا

کیا اس کا ملک نہیں؟

 

تم سے ملنے پر

میں پوچھتا ہوں:

تم کس طرح سمجھے کہ میں تمہارا دشمن ہوں؟

کسی سوال کا جواب نہ دینے پر

کیا تم میری طرف رائفل گھماؤ گے؟

ایسے بھی

عشق سے عاری ملک کے  عاشق ہوتے ہیں!

٭٭٭

 

 

 

پانا

___________________

 

اندھیرے میں میں نے

تمہارا ہاتھ چھو کر

جو پایا ہے

بس، وہی تھوڑا سا پایا ہے

 

اچانک ندی کی طرف سے آئیں

سفید پانی کی بوندیں

جو ماتھے کو چھو کر جاتی ہیں۔

 

تم جانتی تھیں

تم جانتی تھیں

انسان انسانوں کے

ہاتھ چھو کر بولتے ہیں۔ دوست۔

 

تم جانتی تھیں

انسان انسانوں کے

آمنے سامنے آ کر کھڑے ہوتے ہیں

تمہاری ہنسی واپس لوٹ جاتی ہے،

شمال جنوب کی طرف۔

 

تم جیسے آ کر کھڑی ہوتی ہو میرے پاس

کوئی پہچانتا نہیں،

کوئی دیکھتا نہیں،

سب، سب سے نا شناسا ہیں۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے