مکاتیب رفیع الدین ہاشمی

نا معلوم قلم سے

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی شخصیت اور کام کسی تعارف کا محتاج نہیں، اقبالیات میں آپ کی گراں قدر خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جا چکا ہے۔ پاکستان کے تمام اہم ادبی اداروں اور جامعات میں آپ کے خطبات اور کتابوں سے استفادے کا سلسلہ جاری ہے۔ مودودیات، نقد و اعتقاد، تالیف و تدوین، سفر نامہ نگاری اور خطوط نویسی میں آپ کا کام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ طویل عرصہ شعبہ اردو، اورینٹل کالج سے بطور مدرس وابستہ رہے، اردو کانفرنسوں اور سیمی نارز میں شرکت کے لیے پاکستان سمیت دنیا کے کئی اہم ملکوں کا سفر کیا، آپ کا ایک زمانہ معترف ہے۔ اقبال شناسی اور تالیف و تحقیق کے علاوہ خطوط نویسی میں آپ کا نام بطور سند پیش کیا جاتا ہے، آپ کی جسٹس جاوید اقبال، انتظار حسین، جگن ناتھ آزاد، حکیم محمد سعید، عاشق حسین بٹالوی، غلام جیلانی برق، رشید حسن خان، مشفق خواجہ، محمد طفیل، ڈاکٹر سید عبد اللہ اور ڈاکٹر وحید قریشی سمیت درجنوں نابغوں سے خط و کتابت رہی، ان خطوط میں کئی اہم موضوعات اور کتب زیر بحث رہیں لہٰذا یہ خطوط اپنی جگہ ایک مستند تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر زیب النساء نے ان خطوط کو ’’مکاتیب رفیع الدین ہاشمی‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے، گزشتہ ہفتے یہ کتاب استادِ محترم ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اپنے دستخط کے ساتھ مجھے ارسال فرمائی، میرے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی حیران کن تھا، کئی اہم کتابوں اور شخصیات سے تعارف اسی کتاب کے توسط سے ہوا، میں کچھ خط آپ کی بصارتوں کی نذر کرتا ہوں۔ انتظار حسین کے نام ۱۵ جنوری ۲۰۱۱ء کا ایک مکتوب ملاحظہ فرمائیں:

 

مکرمی جناب انتظار حسین صاحب!

آپ نے بہت دن پہلے مجھے ایک کتاب عنایت کی تھی، میں اس عرصے میں ذوق و شوق سے وقتاً فوقتاً مطالعہ کرتا رہا، یہ آپ کے پرانے کالموں کا مجموعہ ہے جنھیں میں ان کے اصل زمانہ اشاعت میں بھی پڑھ چکا تھا لیکن مکرر پڑھنے میں بھی ایک لطف محسوس ہوا۔ میں نے کئی مقامات پر نشانات لگائے، ان میں سے بعض اشعار بھی نشان زد کیے، خیال تھا کسی وقت آپ سے بات کروں گا یا خط لکھوں گا۔ ابھی یہ نوبت نہیں آئی تھی کہ آپ نے دوبارہ اردو کالم لکھنا شروع کر دیا اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، پہلے کالم کا عنوان تھا ’’کچھ میڈیائی اردو کے بارے میں‘‘۔ میرے لیے ایک تو خوشی کی بات یہ تھی کہ آپ نے دوبارہ اردو کالم لکھنا شروع کر دیا۔ اگرچہ ڈان میں آپ کا ہفتہ وار کالم بھی دل چسپی سے پڑھا جاتا ہے اور ہمیں کم از کم مجھے تو خوشی ہے کہ ایک اردو والا انگریزی والوں تک اپنی بات پہنچا رہا ہے اور انگریزی والے اردو زبان اور شعر و ادب، اردو کتابوں اور اردو شعرا اردو کی ادبی صورت حال سے واقف ہوتے ہیں۔ لیکن صاحب! یہ آپ نے جو ’’میڈیائی اردو‘‘ کا ذکر چھیڑا تو میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ میڈیائی اردو کی ترکیب نہایت عمدہ اور برمحل ہے، اخبارات میں ہر روز میڈیائی اردو کے نمونے دیکھ دیکھ کر کیسی کوفت ہوتی ہے، بیان سے باہر ہے۔

والسلام۔

 

عاشق حسین بٹالوی کے نام ۱۴ نومبر ۱۹۷۲ء کو لکھے گئے ایک خط کا متن ملاحظہ کریں:

 

محترم جناب عاشق حسین بٹالوی صاحب، سلام مسنون!

مجھے آپ کی قابل قدر تصنیف ’’اقبال کے آخری دو سال‘‘ کا دوسرا ایڈیشن دیکھنے کا موقع ملا، اس قدر عمدہ تصنیف پر مبارک باد قبول فرمائیے۔ آپ نے مسلمانانِ پنجاب کے ایک خاص دور کے سیاسی اتار چڑھاؤ اور نشیب و فراز کو نہایت عمدگی، حسنِ ترتیب اور جامعیت کے ساتھ قلم بند کر دیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سے شاعر مشرق کے آخری دو سال کی سیاسی سرگرمیوں کی مفصل تاریخ نہایت واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے۔ یقیناً یہ بڑا کارنامہ ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، آمین۔ کتاب کے صفحہ ۴۳۱۔ ۴۳۶ پر آپ نے اقبال کا فلسطین سے متعلق بیان نقل کیا ہے، یہ بیان لطیف احمد شروانی کی مرتبہ: ’’حرف اقبال ‘‘میں بھی شامل ہے مگر دونوں کے متن میں خاصا فرق ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ دونوں متن، انگریزی بیان سے ترجمہ کیے گئے ہیں۔ ’’حرفِ اقبال‘‘ والا ترجمہ ناقص ہے اور بعض جگہ اختصار کر کے کچھ الفاظ و فقرے چھوڑ دیے گئے ہیں، البتہ اس کے ابتدا میں یہ عبارت درج ہے جو آپ کے ترجمے میں نہیں: ’’مجھے سخت افسوس ہے کہ میں اس جلسہ عام میں جو مسلمانانِ لاہور آج فلسطین رپورٹ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی غرض سے منعقد کر رہے ہیں، شمولیت نہیں کر سکتا۔‘‘ وضاحت طلب امر یہ ہے کہ اقبال کا اصل بیان انگریزی میں تھا یا اردو میں؟ اور اردو میں تھا تو آپ نے اسی اصل بیان کا متن اپنی کتاب میں شامل کیا ہے یا انگریزی ترجمے کا اردو ترجمہ کر کے شامل اشاعت کیا ہے؟ وضاحت فرما دیں تو از حد ممنون ہوں گا۔ راقم کو اقبال مرحوم اور ان کی شاعری اور ان کے افکار سے خاص دل چسپی ہے۔ اقبالیات سے متعلق اردو اور انگریزی میں دستیاب کتب (لٹریچر) کی ایک جامع اور مفصل ببلوگرافی بنا رہا ہوں، مقامی گورنمنٹ کالج میں لیکچرر ہوں۔ اگر آپ اقبال سے اپنی ملاقاتوں، محبتوں اور گفتگو کو قلم بند کر دیں تو ملت اسلامیہ پر یہ ایک احسانِ عظیم ہو گا، آپ کی مصروفیات کے باوجود آپ کی جانب سے مختصر ہی سہی، جواب کا متوقع ہوں۔

والسلام۔

 

ہاشمی صاحب کی طرف سے موصول ہونے والے مکاتیب انتہائی دل چسپ ہیں، دہلی یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس سے ۱۴ جون ۱۹۹۷ء کو مشفق خواجہ کے نام لکھا گیا خط بھی انتہائی اہم ہے، اس خط میں بڑی تفصیل سے سفرِ دہلی اور وہاں کے سیمی نارز کا ذکر کیا گیا ہے، یہ خط، خط کم، سفر نامہ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ کتاب میں شامل ڈاکٹر ایوب صابر، ڈاکٹر زاہد منیر عامر، فتح محمد ملک، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر بصیرہ عنبرین اور انوار حسن صدیقی کے نام خطوط بھی بہت اہم موضوعات اور سوالات کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ علامہؒ مرحوم کے صاحب زادے جسٹس (ر) جاوید اقبال کو ’’زندہ رود‘‘ کی اشاعت پر لکھے گئے خطوط بھی غیر معمولی ہیں، ان خطوط میں ’’زندہ رود‘‘ پر ہاشمی صاحب کی رائے سند کا درجہ رکھتی ہے۔

٭٭

ماخذ:

https://www.roznama92news.com/%D9%85%D8%A8-%D8%B1%D9%81-%D9%86-%D8%B4%D9%85%DB%8C

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے