ایک حقیقت افروز اور مایوس کن قول نے زندگی بھر آزردہ رکھا۔ یونان میں کسی فلسفی نے کہا تھا، شاید ارسطو نے یا افلاطون نے یا سقراط نے۔ اس نے کہا تھا ’’میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا‘‘ اس حقیقت کا اظہار میں نے بارہا کیا اور اس سچ پر جھٹلایا گیا۔ جھٹلانے کی وجہ نہ یہ قول ہے نہ میرا وجود بلکہ جھٹلانے کی وجہ یہ ہے کہ اگر میرے اس سچ کو نہ جھٹلایا جائے تو میری صف میں وہ تمام اندھے جو رقص کی تعریف کر رہے ہیں۔ وہ تمام بہرے جو موسیقی کی نہ صرف داد دے رہیں بلکہ ان کی داد سر رس کا ساتواں در کھول رہی ہے۔ وہ گونگے جو ایوان خطابت میں اپنی خطابت کا رس گھول رہے ہیں اور وہ بونے جو قد آوروں کا قد ناپ رہے ہیں، وہ جاہل جن کی ماؤں نے اپنی محبت سے میرے نام کے جز کی طرح اپنی اولادوں کو علامہ کہا سب معرض بحث میں آ جائیں گے۔ میں تو تمام عمر اس عقدہ کشائی میں گم رہا کہ میں ہوں بھی یا نہیں مگر فرانسیسی مفکر Descartes جسے دیکارتے کہا جاتا ہے اس نے مشکل حل کر دی کہ میری فکر نے میرے وجود سے سرگوشی کی کہ ’’میں‘‘ ہوں۔ جب عالمی اردو کانفرنس کے حوالے سے مجھے ادب کی ان نامور ہستیوں پر لکھنے کے لئے کہا جاتا ہے تو میرا سراپا ایک عکس فریادی سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتا کہ کہاں شعر و ادب کی عظیم بلندیاں اور میری کوتاہ قامتی اور پھر اردو کے صنم کدے میں غزل جیسی کافر ادا جو عیاں بھی، نہاں بھی، پردہ نشین بھی، جلوہ افروز بھی، اس کی بحروں کی حشر سامانیاں۔ قوافی و ردیف کی قیامت خیز یاں، مضمون آفرینی کی توبہ شکن انگڑائیاں، صنائع کی قیامت خیزیاں۔ ایسے میں کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے۔
غزل میں دنیا سے محبت کے کچھ ادھ سنے راگ سنائی دیتے ہیں اور تمام حقیقی محسوسات اور وجدانی تجربات کی الگ الگ آوازیں ہوتی ہیں۔ شاعر کی انفرادیت ان محسوسات اور تجربات کی خلاقی میں ایک مرکزی عنصر ہے۔ ان محسوسات و تجربات کے بقیہ عناصر روایتوں اور ان فضاؤں کے ہاتھوں بنتے ہیں۔
منور رانا کی آواز جدید اردو غزل میں نئی اور منفرد آواز ہے۔ یہ آواز وجدانی ہوتے ہوئے بھی غیب سے نہیں اتری بلکہ زمینی آوازوں ہی کی مدد سے انہوں نے اپنی آواز تخلیق کی ہے۔
ان کی شاعری طرز احساس کے نئے تن انداز و آہنگ کی جدت کے با وصف کلاسیکی رنگ و آہنگ سے الگ نہیں ہو پائی۔ قدامت کی کوکھ سے ندرت خیال کو پیدا کرنے کا سلیقہ ان کے یہاں بڑے خوبصورت انداز سے ملتا ہے اور اس سلیقے سے انہوں نے اس طرح کام لیا ہے کہ اپنے سامنے کھڑی دنیا اور اس کے نشیب و فراز سے آنکھ ملائے رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعرانہ نہج کی انفرادیت کو کسی نام سے موسوم کرنے کی کوشش کیجئے تو کوئی نام تو ذہن میں نہیں آتا لیکن بُعد یک قربت اور ہر قربت میں ایک بُعد کے ساتھ یہ احساس ضرور ملتا ہے کہ جس کو ٹوٹ کے چاہا اسے نہ کھویا ہے نہ پایا ہے۔ کبھی کسی شب کے سناٹے میں منور رانا کی شاعری کے لفظ تحلیل ہو جاتے ہیں جیسے آوازیں سناٹے میں بدل جاتی ہیں تو احساس کے شبستان میں کبھی روشنی اور کبھی جھلملاہٹ کی نرمی یہ سوچنے لگتی ہے کہ چراغ دل کو یہ کون جلائے ہے یہ کون بجھائے ہے۔
غزل کے بارے میں مولوی امداد امام اثر کی طرح یہ دعویٰ کرنا تو آسان ہے کہ ’’چوں کہ واردات قلبی اور کوائف ذہنی کی کوئی حد و انتہا نہیں اس لئے غزل کا دائرہ بھی محدود ہوتے ہوئے بھی انتہائی وسیع ہے‘‘ لیکن اس دائرے کو تنگنائے غزل میں اس طرح سمیٹنا کہ زندگی کے انتہائی مشکل مسائل اور عقدہ ہائے دشوار بھی طبع غزل پر بار نہ گزریں ہر شاعر کے بس کی بات نہیں ہے۔ ظاہر میں تو غزل اتنی آسان صنف دکھائی دیتی ہے کہ ہر مبتدی اسی سے اپنی شاعری شروع کرتا ہے اور یہ شیشہ بدن ہر جور و ستم سہہ جاتی ہے لیکن حقیقتاً غزل گوئی کا فن اس قدر دشوار ہے کہ ہر شاعر کو نمایاں مقام حاصل ہونا مشکل ہے۔ بقول غالب
ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں
آج غزل زندگی کی ہر تلخ حقیقت، ذہنی الجھن، دل کی دھڑکن، سماج کی پیچیدہ کیفیت اور روح کی بے تابی کی صورت گری میں پیش پیش ہے۔ استعارہ اگرچہ کہ بڑی حد تک معاون ثابت ہوتا ہے لیکن جب تک توفیق نہ ہو بس کی بات بھی نہیں ہے۔ منور رانا کوئی ضرورتاً شاعر نہیں ہیں وہ طبعاً بلکہ بہ اعتبار جبلت شاعر ہیں۔ آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس کا معصوم بچپن ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ رہتا ہے۔ بچپن لاکھ غربت میں سہی منور رانا کی نظر میں راج سنگھاسن سے کم نہیں اور یہ حقیقت بھی ہے بال ہٹ اور راج ہٹ دونوں مقابلے میں کھڑے ہوں تو ہال ہٹ کے آگے راج ہٹ بھی سپر ڈال دیتی ہے۔ تریاہٹ کے آگے تو شاعر خود سپرد ہے اس لئے میں اسے موضوع نہیں بناؤں گا ویسے شاید دکن ہی کے کسی شاعر نے کہا ہے کہ
یہ ترا حسن عنایت ہے مری نظروں کی
ورنہ تو شعلہ رخ و شعلہ بدن کچھ بھی نہیں
کہہ نہیں سکتا کہ کیا یہ واقعی حقیقت ہے یا شاعر نے یگانہ کی طرح اپنے تفوق کے اظہار محض کی خاطر یہ شعر کہا ہے۔ اظہار تفوق اور انا کی خاطر تو اس قبیل کے شاعر کو انیس کے کلام پر اصلاح بھی دیتے دیکھا یہ جنون صنعت قد آوری ہے یا احساس کمتری اتنی نچلی سطح پر پہنچ کر تقد کرنا ایک لاحاصل سعی ہے۔ منور رانا ایک Self Made انسان ہیں۔ بچپن کے تعلق سے انہوں نے لکھا ہے کہ ان کی ماں بتاتی تھی کہ انہیں سوکھے کی بیماری تھی، ماں کو یہ بتانے کی ضرورت کیا ہے در اصل ان کے اندر کا آدمی آج تک بیماری سے بھی اپنا رشتہ نباہتا آ رہا ہے۔ ان کی زندگی کا ہر کنواں خشک ہے۔ آرزو کا، دوستی کا، محبت کا، وفا داری کا، منور رانا جب ہنستے ہیں تو وہ در اصل اندر کا آدمی ہنستا ہے۔ ان کی ہنسی خود بقول ان کے ’’انشاء‘‘ کی کھوکھلی ہنسی اور ’’میر‘‘ کی خاموش اداسی سے ملتی جلتی ہے۔ ان کے موضوعات میں بچپن معصوم بھی ہے دلخراش بھی۔ پیوند کی طرح چمکتی ہوئی روشنی میں نظر آتے ہوئے بجھے بجھے چہرے، چہروں پر لکھی داستانیں۔ داستانوں میں چھپا ہوا ماضی، ماضی میں چھپا ہوا بچپن، جگنوؤں کو چنتا ہوا بچپن، تتلیوں کو پکڑتا ہوا بچپن، پیڑ کی شاخ سے جھولتا ہوا بچپن، کھلونوں کی دوکانوں کو تکتا ہوا بچپن، باپ کی گود میں ہنستا ہوا بچپن، ماں کا پھٹا آنچل اوڑھ کر سوتا ہوا بچپن، مدرسہ میں سپارے رٹتا ہوا بچپن، جھیل میں تیرتا ہوا بچپن، دھول مٹی سے سنورتا ہوا بچپن، شام کے وقت ننھے ننھے ہاتھوں سے دعا مانگتا ہوا بچپن، غلیل سے نشانے لگاتا ہوا بچپن، پتنگ کی ڈور سے الجھا ہوا بچپن۔ ریت بھی موجود ہے۔ ندی بھی گنگنا رہی ہے لیکن اس کے کنارے گھروندے بنانے والا بچپن چھن گیا جو دھوپ کو چاندنی سے زیادہ حسین کر دیتا ہے۔ منور رانا کو یہ احساس بھی شدید ہے کہ ماں نے تو اپنے آنچل میں بیٹے کو محفوظ رکھا لیکن غریبی کے تیز جھکڑوں نے ماں کے خوبصورت چہرے کو جھلسا جھلسا کر سانولا کر دیا۔ اسی لئے منور رانا کی شاعری میں ماں، بیٹا، بیٹی، بھائی، بہن، دوست، کثرت سے یہ موضوعات ملتے ہیں۔ ان کے نقاد ان موضوعات پر کہے ہوئے اشعار کو Emotional Blackmailing کہتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں اس کی وضاحت کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ آئن اسٹائن کی Theory of Relativity جب بہت مشہور ہوئی تو ایک دن کار میں سفر کرتے ہوئے اس کی پوتی نے اس سے پوچھا کہ میرے کالج کی سہیلیاں مجھ سے کہتی ہے کہ تمہارے دادا بہت بڑے آدمی ہیں۔ بہت مشہور اور بہت قابل احترام، لوگ ہر جگہ ان کی Theory of Relativity کی بات کرتے ہیں۔ پلیز کیا آپ مجھے بتلائیں گے کہ یہ Relativity کیا ہے۔ آئن اسٹائن نے مسکرا کر اس کی سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور پھر اس کا ما تھا چوم کر کہا ’’جب میں تمہارے باپ سے پانچ منٹ بات کرتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں ان سے ایک گھنٹے سے ہمکلام ہوں ہوں میں اور جب میں تم سے ایک گھنٹہ باتیں کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ ابھی دو پل بھی نہیں گزرے۔‘‘ نہیں معلوم آئن اسٹائن کیا کہہ رہا ہے۔ نہیں معلوم منور رانا غزل میں کیا کہتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ ان کے نقادوں کی کیا رائے ہے۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔
میں نے روتے ہوئے پونچھے تھے کسی دن آنسو
مدتوں ماں نے نہیں دھویا دوپٹہ اپنا
تار پر بیٹھی ہوئی چڑیوں کو سوتا دیکھ کر
فرش پر سوتا ہوا بیٹا بہت اچھا لگا
پرانا پیڑ بزرگوں کی طرح ہوتا ہے
یہی بہت ہے کہ تازہ ہوائیں دیتا ہے
کسی کے پاس آتے ہیں تو دریا سوکھ جاتے ہیں
کسی کی ایڑیوں سے ریت میں چشمہ نکلتا ہے
اگرا سکول میں بچے ہوں گھر اچھا نہیں لگتا
پرندوں کے نہ ہونے سے شجر اچھا نہیں لگتا
کسی کو گھر ملا حصہ میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
کئی باتیں محبت سب کو بنیادی بتاتی ہے
جو پردادی بتاتی تھی وہی دادی بتاتی ہے
ہمیں حریفوں کی تعداد کیوں بتاتے ہو
ہمارے ساتھ بھی بیٹا جوان رہتا ہے
یاروں کو مسرت میری دولت پہ ہے لیکن
اک ماں ہے جو بس میری خوشی دیکھ کے خوش ہے
جو بھی دولت تھی وہ بچوں کے حوالے کر دی
جب تلک میں نہیں بیٹھوں یہ کھڑے رہتے ہیں
اب دیکھئے کون آئے جنازے کو اٹھانے
یوں تار تو میرے سبھی بیٹوں کو ملے گا
٭٭٭