مجھے کہنا ہے کچھ ۔۔۔۔۔

لیجئے دیکھتے دیکھتے پھر نئے شمارے کا وقت آ گیا ہے، لیکن فلسطین کے حالات مزید دگردوں ہوتے جا رہے ہیں، اور ادھر وطن عزیز میں بھی سی۔ اے۔ اے کا بگل بجا دیا  گیا ہے!! بس اللہ سے دعا ہے کہ ساری دنیا میں نہ صرف مسلمانوں پر ہونے والے مظالم، بلکہ ہر انسان پر ہر قسم کے ظلم کا خاتمہ   ہو جائے۔

پچھلی سہ ماہی میں ادب کی دنیا کئی جانے مانے ناموروں سے خالی ہو گئی۔ ماہر اقبالیات رفیع الدین ہاشمی اور شاعر منور رانا کو اس شمارے میں یاد کیا گیا ہے۔

اردو اب کے دونوں شہنشاہ غالبؔ اور اقبالؔ  اس لحاظ سے بھی منفرد ہیں کہ ہر دو  پر تحقیق اور مختلف زاویوں سے پرکھنے کے اپنے   شعبے غالبیات اور اقبالیات کہے جاتے ہیں۔ اور اس شعبے کے ماہرین ماہرین غالبیات اور اقبالیات کہلاتے ہیں۔ افسوس کہ فی زمانہ یہ دونوں شعبے اپنے ماہرین سے خالی ہوتے جا رہے ہیں۔ اقبالیات  کے شاید آخری ماہر رفیع الدین ہاشمی کا دم غنیمت تھا۔ وہ بھی راہیِ ملک عدم ہو گئے۔

منور رانا (اور راحت اندوری بھی) کا شمار ان شاعروں میں تھا جنہوں نے جدید لہجے کو مشاعروں میں ہر دلعزیز بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ شاعری کے علاوہ ان کی نثر بھی بہت خوب تھی۔

ان دونوں مرحومین کی کچھ تخلیقات کا انتخاب بھی شامل ہے۔ افسوس کہ منور رانا کی نثر سے کوئی تخلیق شامل نہیں کی جا سکی۔

ان کے علاوہ دو مزید ہستیوں ، آواز کی دنیا کے پنکج ادھاس اور امین سیانی، کے انتقال سے بھی بر صغیر کے کئی افراد بالعموم اور ’سَمت‘ کے قارئین بالخصوص بھی غمگین ہوں گے۔ پنکج ادھاس  اور جگجیت سنگھ نے ہندوستان میں  غزل گائیکی  کا بیڑا اٹھا رکھا تھا۔ اگرچہ پنکج ادھاس کے دوسرے ہلکے پھلکے گیت زیادہ مشہور ہو گئے۔ ’چٹھی آئی ہے‘ گیت نے دولت کی خاطر دوسرے ممالک میں کام کرنے والے ہندوستانیوں کے (اور پاکستانیوں کے بھی) دلوں کو چھو لیا تھا۔

امین سیانی  ریڈیو کی آواز تھے۔ ریڈیو سیلون (بعد میں سری لنکا براڈ کاسٹنگ کارپوریشن  کا ویاپار وبھاگ یعنی کمرشیل سروس) سے ہر بدھ کو نشر ہونے والے بناکا گیت مالا  (بعد میں سباکا، جب بناکا ٹوتھ پیسٹ کی کمپنی کا نام ہی بدل گیا) کی وجہ سے ہی ہمارے گھر میں بھی پہلا ریڈیو خریدا گیا تھا۔ (جسے ۱۹۶۹ میں علی گڑھ ہجرت کے بعد  داغ مفارقت دینا پڑا۔ لیکن وہاں ٹرانزسٹر آگیا تھا اس زمانے میں!) اس پروگرام میں شامل سولہ عدد مشہور گیتوں کی شہرت کی ترتیب، بقول امین سیانی پائیدانوں کی ترتیب )کے علاوہ دلچسپی کی چیز  امین سیانی کی گفتگو بھی ہوا کرتی تھی اور ان کی کھنک دار آواز بھی۔ افسوس کہ یہ دونوں آوازیں اب کبھی سنائی نہ دیں گی۔

اس شمارے کی معمول کی تخلیقات بھی امید ہے کہ پسند خاطر ہوں گی۔

سرورق کی تصویر مریم تسلیم کیانی کی تخلیق ہے، ان کے شکریے کے ساتھ شامل کی جا رہی ہے۔

ا۔ ع

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے