مبینہ یا سکینہ ۔۔۔ گربخش سنگھ / اعجاز عبید

 

(پنجابی)

 

گاؤں کے اکلوتے پکے مکان کے پچھواڑے سے ایک مرد اور عورت چوروں کی طرح آگے پیچھے دیکھتے ہوئے نکلے۔ سامنے سورج ڈھل رہا تھا۔ اس کی سیدھی کرنیں ان کے منہ پر پڑ رہی تھیں۔ مرد دیکھنے میں جوان اور طاقتور تھا، عورت حسین اور دبلی پر دونوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ ایک دو لمحے وہ دوسری سمت سے آنے والی آوازوں کو سننے کے لیے رک گئے۔ پھر وہ سر سر کرتے ایکھ کے کھیت میں گھس گئے۔ اس کھیت کی ایک اور منڈیر پر لسوڑے کا پیڑ تھا۔

یہ ذیلدار ہاشم علی کا بیٹا قاسم اور اس کی بہو زینت تھے۔ ذیلدار ہاشم، اس کا قبیلہ اور گاؤں کے بہت سے لوگ تقریباً دو گھنٹے پہلے گاؤں خالی کر گئے تھے۔

آج تک ذیلدار نے بڑے حوصلے سے کام لیا تھا۔ افواہیں اڑ رہی تھیں کہ اُس گاؤں پر حملہ ہو گیا ہے اور اِس گاؤں پر حملہ ہونے کا خطرہ ہے۔ ایک گھوڑی والا اس کنوئیں پر کہہ رہا تھا کہ لوہاروں کی سبھی جھگیاں جل گئی ہیں۔ ذیلدار کہتا سب افواہیں ہیں، حوصلہ رکھو، نئے نگر کا بڑا سردار میرا دوست ہے۔ وہ ہمارے بچے بچے کو گاؤں میں سلانے کے لیے تیار ہے۔

پر آج صبح جب ذیلدار اس سے تسلی لینے کے لیے گیا تو سردار کچھ فکر مند نظر آیا۔ اس کے پاس بیٹھے سردار کو کچھ سِکھ اٹھا کر پرے لے گئے۔ اس کے کان میں بھی کچھ بھنک سی پڑ گئی:

’’سردار جی دھوکا نہیں کھانا۔ بھسینو آیا نے جتھا بنا لیا ہے اور وہ کسی کی نہیں سنتا۔‘‘

گاؤں واپس لوٹ کر ذیلدار نے بڑی مسجد میں ایک جلسہ کیا اور گاؤں خالی کر دینے کا فیصلہ لیا۔ سارے گاؤں میں آہ و زاری ہونے لگی۔ روتے دھوتے لوگوں نے گٹھڑیاں باندھیں، سکھ بچوں کے ساتھ کھیلتے بچوں کو ڈرا دھمکا کر گھر واپس لایا گیا۔ کہرو نے سراج کا بازو پکڑ لیا، ’’نہیں تائی، اس کو میں نہیں جانے دوں گا۔‘‘ سراج کی ماں نے یہ کہتے ہوئے کہ اس گاؤں سے ہمارا دانہ پانی اٹھ گیا ہے، بیٹے کا بازو چھڑا لیا۔

افرا تفری میں چیزیں اٹھا پٹک کر، کچھ اپنے ہم سائے کے سپرد کر، دروازوں کو تالے لگا، چوپایوں کی پیٹھ پر پرانی رضائیوں کو پھینک کر، سبھی لوگ اپنے گھروں سے نکل کر گلیوں میں اکٹھے ہو گئے۔ گاؤں کی روح اپنا جسم چھوڑ رہی تھی۔ اپنے مکانوں کی دیواروں کی اور دیکھ کر بوڑھے گریہ کر رہے تھے۔ ہاشم ذیلدار کی آنکھیں بھی بھر آئی تھیں۔ وہ اپنے بیٹے کو پیچھے رہنے سے منع کر رہا تھا۔

’’آپ بالکل فکر  نہ کریں‘‘ قاسم نے کہا تھا، ’’زینت کچھ بیمار ہے اور بہت گھبرائی ہوئی ہے ،مبینہ کو اٹھا کر اس سے چلا نہیں جائے گا۔ ساتھ ہی میں ساری خبر لے کر آؤں گا۔ دور سے جتھا آتا ہوا دیکھ کر میں زینت کو گھوڑی پر بیٹھا، ندی پار کر کے آپ سے آ ملوں گا۔‘‘ کئی اور جوان بھی پیچھے رہ گئے تھے۔ کیا پتہ جتھا نہ ہی آئے۔ نئے نگر کا سردار جتھے کو روک ہی لے۔ ایسی صورت میں وہ سارے گاؤں کو واپس لے آئیں گے۔

وطن چھوٹ رہا تھا، کنوئیں کھیت چھوٹ رہے تھے۔ میدان چھوٹ رہے تھے۔ جہاں کی مٹی میں بچپن کے ساتھیوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتے کرتے کندھے چھل گئے تھے، نہ بھلائی جانے والی یادیں بن گئیں۔ بیر کے پیڑ چھوٹ رہے تھے۔ بچپن میں چوری سے کھائے بیروں کی مٹھاس اب کہاں ملے گی!

اپنے کنوئیں کے پاس سے نکلتے ہوئے ابراہیم کی بہو کی سسکی نکل گئی:

’’ابھی نئی ریہٹ کی بالٹیاں لگوائی تھیں۔ بیس روپے لگا کر نئی شہتیر لگوائی تھی۔‘‘

وہ بار بار گھوم کر اپنے گاؤں کو، کھیتوں کی منڈیروں کو، باڑوں کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی نظر ان پر تھم کر رہ جاتی۔ پلک جھپکتے ہی سب کچھ ختم ہو گیا۔ پردیس کی اور بڑھتا غموں سے نڈھال قافلہ گاؤں کی سرحد پر بیٹھ گیا۔

ادھر نئے نگر سے کھیتوں میں سے آ کر کوئی انہیں بتا گیا کہ جتھا بھٹے تک پہنچ گیا ہے۔ قاسم اپنے اصطبل کی طرف بھاگ کر گیا، پر گھوڑی وہاں نہیں تھی۔ اور دور سے کافی دوری سے چمکتی تلواریں اسے نظر آ رہی تھیں۔

’’زینت، زینت! اٹھاؤ مبینہ کو کوئی گھوڑی کھول کر لے گیا ہے۔ جلدی کرو گھر کے پچھواڑے ایکھ کے کھیت میں چھپنے کے سوائے اور کوئی راستا نہیں۔‘‘

ایکھ کے کھیت میں گھسے تھے کہ جتھا گاؤں میں پہنچ گیا۔ منڈیر کے پاس سے بھاگتے نکلتے کئی لوگوں کی آواز آئی۔

’’یہ اپنے ہی ہوں گے، ندی کی اور بھاگ کر جا رہے ہیں۔‘‘ قاسم نے کہا۔

اتنے میں گاؤں سے ایسے شور آنے لگا جیسے وہاں آسمان ٹوٹ پڑا ہو۔ شور ان کے پاس آتا جا رہا تھا۔ ایکھ کے کھیت میں بہت اومس تھی۔ مبینہ ابھی اٹھی نہیں تھی، پر کروٹیں لینے لگی تھی۔

’’بڑی مصیبت ہے، یہ رو پڑے گی اور جتھا اب ہمارے گھر پہنچا کہ پہنچا۔‘‘

دھڑدھڑاتے ہوئے دو گھڑ سوار منڈیر کے پاس سے نکل گئے، جیسے کہ کسی کے پیچھے بھاگ رہے ہوں۔

’’زینت! لا، جاگنے سے پہلے میں مبینہ کو لسوڑے کے نیچے لٹا آؤں۔ وہاں وہ سوئی رہے گی اور جب جتھا نکل جائے گا، تو اسے اٹھا لاؤں گا۔‘‘

’’من نہیں مانتا ہڈی کی طرح اسے کیسے پھینک دوں۔‘‘

’’جلدی کرو اس کا اور ہمارا بھلا اسی بات میں ہے یہ اگر جاگ گئی تو ہم سب مارے جائیں گے۔‘‘

گاؤں میں گولی چلنے کی ٹھائیں ٹھائیں آواز آئی۔

’’مجھے دے دو ایک منٹ بھی نہ سوچو۔‘‘

زینت نے مبینہ کا منہ چوما اور قاسم نے جلدی سے اس کے ہاتھوں سے لڑکی کو اٹھا لیا اور کھیت سے باہر آ کر اسے لسوڑے کے نیچے لٹا دیا۔ قاسم کا دھیان سونے کی زنجیر کی طرف گیا جو قاسم کی ماں نے مبینہ کے گلے میں ڈالی تھی۔ پہلے اس نے سوچا کہ زنجیر کو اتار لے، پھر خیال آیا کہ اگر مبینہ کو چھوڑنا پڑا تو جسے زنجیر سمیت مبینہ ملے گی اس کے سر پر بوجھ نہیں بنے گی اور وہ اس کا اچھی طرح خیال رکھ سکے گا۔

’’خدا حافظ‘‘ اور قاسم زینت کے پاس آ گیا۔

اسی لمحے ان کے گھر میں سے آوازیں آنے لگیں۔

’’میرے پیچھے پیچھے پودوں کو بچا کر۔۔ ذرا بھی آواز نہ ہو۔۔ زینت تم چلی آؤ۔‘‘

آوازوں سے گھبرا کر وہ کھیت کے دوسری اور چلے گئے۔

’’ہائے! مبینہ رو پڑی ہو گی‘‘ زینت رک گئی۔

’’مبینہ کو اللہ کو سونپو ۔۔۔ آؤ رکنے کا وقت نہیں۔‘‘‘

وہ پودوں سے بچتے کھیت کے دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔ امس سے زینت کی جان منہ کو آ رہی تھی۔

’’تم ذرا یہاں رکو میں منڈیر سے دیکھ آؤں۔‘‘

اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ کیا انسان، کیا حیوان، پرند بھی گھونسلوں کی طرف لوٹ رہے تھے۔ جس راستے سے وہ پچھلے آٹھ سالوں سے دوسرے گاؤں کے سکول جایا کرتا تھا، وہ آج اسے موت سا بھیانک لگ رہا تھا۔ جس کنوئیں پر زینت کی ڈولی پچھلے سال اتری تھی، آج کھانے کو آ رہا تھا۔

اوپر سے بادل گرجنے لگے۔ بھینی بھینی پھوار ہوا سے اڑتی اس کے ہونٹوں پر پڑی۔ پیاس لگی تو اسے احساس ہوا کہ مبینہ ساری رات بھوکی روتی رہے گی۔

جب اندھیرا گہرا ہو گیا، زینت اور قاسم ندی کی جانب چل دئیے۔ مبینہ کو لانا کٹھن ہو گیا تھا۔ پانچ بیگھے کی زمین پر اس نے اپنے خون پسینے کی محنت سے فصل بوئی تھی۔

ندی پر بہت بھیڑ تھی۔ ناؤ ایک ہی تھی۔ ملاح اگرچہ مسلمان ہی تھے مگر پار جانے کے بیس روپیوں سے کم پر تیار نہیں ہو رہے تھے۔ عورتیں گہنے اتار اتار کر دے رہی تھیں۔ اپنے شوہروں سے بچھڑی دو عورتیں گڑگڑا کر ہار گئی تھیں۔ زینت نے دو چوڑیاں ہاتھ سے اتار کر قاسم کو دیں۔ قاسم نے بقیہ دونوں بھی اتروا کر جیب میں ڈال لیں اور ملاح کو تاکتے ہوئے کہا:

’’میاں کچھ تو خوف کرو۔ آپ کو اچھا لگے گا اگر یہ جوان عورتیں دشمنوں کے ہاتھ آ جائیں۔ یہ دو چوڑیاں سو روپے سے کم نہیں ہیں۔‘‘

ملاح، قاسم کے رعب میں آ گئے اور کشتی کو بھر کر دوسرے کنارے لے گئے۔ وہاں سے بارڈر سوا میل تھا، بیچ میں آبادی نہیں تھی۔

ساری رات برسات کبھی ہوتی، کبھی تھم جاتی۔ لسوڑے کے چوڑے پتوں پر برسات کی بوندیں اکٹھی ہو گئی تھیں۔ ہوا چلتی تو بوندیں مبینہ کے منہ پر پڑتیں۔ روتے ہونٹ ‘لپ لپ’ کرنے لگ پڑتے۔ کئی بوندیں چھوٹے سے منہ میں چلی جاتیں۔

کبھی روتی، کبھی پانی کی بوندوں سے ‘لپ لپ’ کرتی، کبھی تھک کر سو جاتی، اسی طرح رات بیت گئی۔ سورج کی پہلی سنہری کرن جب مبینہ کے منہ پر پڑی، اس سمے وہ ہاتھ پیر مار رہی تھی۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور اس کے فیروزی کپڑوں پر سونے کی زنجیر چمک رہی تھی۔

رات کو جتھا بڑی اور قیمتی چیزیں اٹھا کر چلا گیا تھا۔ سنسان گاؤں کی خوف ناکی لٹیروں کو بھی ڈرا رہی تھی۔ دن ہوتے ہی وہ پھر لوٹ آئے۔ اجاڑ جگہ پھر بس گئی، لیکن لوگوں کا یہ بسنا نرالا تھا، صندوق توڑے جا رہے تھے، تالے ٹوٹ رہے تھے، نرم جگہوں کو کھودا جا رہا تھا۔

زینت کے مکان کی ایکھ کے کھیت کی طرف والی کھڑکی کھلی، کسی نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا۔سر سر کرتی ایکھ، برسات سے نہائے لسوڑے کے ہرے پتے اور یہ کیا کوئی بچہ چھوٹا سا چیختا چلاتا۔ دیکھنے والا جلدی سے کوٹھے سے اتر لسوڑے کے پاس آ گیا۔

کسی کو اپنی سمت آتا دیکھ کر مبینہ ایک دم چپ ہو گئی، اس کی پلکوں سے آنسو ٹپک رہے تھے اور کپڑوں پر زنجیر لٹک رہی تھی۔

دیکھنے والا بہت خوش ہوا۔ اس نے جھک کر بانہیں پھیلائیں۔ مبینہ نے ہونٹ سکیڑ لیے جیسے اسے آدمی پر بھروسہ نہ ہو رہا ہو۔ آدمی نے اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلیوں سے پیار کیا۔ مبینہ اب مسکرا پڑی۔ آدمی نے اس کے گلے سے زنجیر اتار کر پھینٹے سے باندھ لی اور اسے گود میں اٹھا واپس آ گیا۔

اس کا ساتھی بھی، جو کچھ اسے ملا تھا، اس سے خوش ہو رہا تھا۔ ہاشم کا گھر بھرا پرا تھا۔

’’مجھے چھٹی دے دو، سردار جی مجھے بہت کچھ مل گیا ہے۔‘‘

’’کیا ملا ہے؟‘‘ اس نے گود میں مبینہ کو دیکھ لیا، ’’اس سے تیرا پیٹ تو نہیں بھرے گا۔ مار لے دو ہاتھ اور۔ ابھی وقت ہے پھر پچھتاؤ گے۔‘‘

’’نہیں سردار جی، آپ مجھے جانے ہی دیں اب کسی چیز کو ہاتھ لگانے کا من نہیں کر رہا یہ پتہ نہیں کب کی بھوکی ہے۔‘‘

’’لڑکی ہے۔‘‘

’’جی ہاں، لڑکی ہے۔‘‘

’’تب تیری موج ہو گئی۔ ذرا دکھا، قاسم کی ہو گی۔‘‘

’’میں پھر جاؤں؟‘‘

’’تیری مرضی، وقت اچھا ہے، چنگڑی کے لیے کچھ کپڑے ہی لے جاتے۔‘‘

’’میری چنگڑی کو تو تم جانتے ہی ہو مجھے تو کاٹ کر کھاتی ہے کہ میرے ہی برے کرموں کے کارن اس کے بچہ نہیں ہوا۔ کپڑوں سے زیادہ وہ اس کو چاہے گی۔‘‘

’’جاؤ، اسے لے جاؤ اور گھوڑی ہماری حویلی میں باندھ دینا۔‘‘

وہ چنگڑ ماناں وال کے ایک زمیندار کا ساتھی تھا۔ اس کی مدد سے زمیندار نے کئی چوریاں کی تھیں اور چار دن پہلے جب سب مسلمان اس کے گاؤں سے چلے گئے تھے، اس نے اسے جانے نہیں دیا تھا، ’’کوئی دیکھے تو سہی تیری طرف۔‘‘

چنگڑی نے دروازہ کھولا اور بنا چنگڑ کی طرف دیکھے وہ گھوم گئی۔ سانکل لگا کر چنگڑ نے کہا:

’’پوچھتی نہیں، میں کیا لایا ہوں۔‘‘

’’لایا ہو گا کوئی بڑا خزانہ، جس کے ساتھ تیری ساری عمر گذر جائے گی۔‘‘ چنگڑی نے اب بھی بنا اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

’’ایسے ہی بڑ بڑ کر رہی ہو، دیکھو تو سہی۔‘‘ اور اس نے مبینہ کے منہ سے کپڑا ہٹا دیا۔

’’ہائے! میں مر جاؤں۔‘‘ چنگڑی نے دونوں ہاتھ ملتے ہوئے کہا، ’’اس کی غریب ماں کو کسی ظالم نے مار دیا ہے؟‘‘

’’مجھے کچھ پتہ نہیں۔ ذیلدار کے گھر کے پچھواڑے لسوڑے کے پیڑ تلے پڑی تھی۔‘‘ پھر پھینٹے سے زنجیر نکال کر بولا، ’’یہ اس کے گلے میں پڑی تھی دیکھ کر کوئی جلے نہیں، اس لئے اسے پھینٹے میں چھپا لیا تھا۔‘‘

چنگڑی نے مبینہ کو گود میں اٹھا لیا منہ سر چوما، بھگوان کو لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ زنجیر اسے بھول ہی گئی۔

’’تو بھوکی ہو گی بہت بھوکی/ساری رات تو نے کچھ نہیں پیا۔ صبر کرو۔ تیرے کارن ہی گائے بھی مل گئی ہے۔ کل تو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتی تھی۔ تم اسے ذرا پکڑو۔‘‘

چنگڑی نے کپڑا بھگو کر اس کے منہ میں دودھ ڈالا۔وہ کافی دودھ پی گئی، اپنے کپڑوں سے اس کا منہ پونچھتے ہوئے چنگڑی نے کہا، ’’نبی رسول کے طریقے نرالے ہیں۔ میرے پیٹ کو پھلتا تھا۔۔ ۔ خدا کا لاکھ شکر۔۔ ۔ میرے ساتھ ہی رہنا کہیں اور نہ جانا۔‘‘

چنگڑ اور چنگڑی کے کئی دن مبینہ کو لاڑ پیار کرتے بیت گئے۔ خدا کے اس فضل کے سامنے پرانے دکھ وہ بھول گئے۔ چنگڑی نے چنگڑ کو راضی کر لیا کہ وہ اب کبھی چوری نہیں کرے گا۔

’’دو پیٹ کوئی بھاری نہیں، اتنا تو میں اکیلی کر سکتی ہوں۔‘‘

مگر ابھی دو ہفتے بھی نہیں بیت پائے تھے کہ گاؤں میں ان کے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔ پاکستان سے اجڑ کر آئے کئی لوگوں نے گاؤں میں پناہ لی۔ وہ کسی مسلمان کو دیکھنا کیا، اس کا نام تک سننے کو تیار نہیں تھے۔

ایک دن ان کا سردار گھر آ کر کہنے لگا:

’’مولوا اس بات کی مجھے بہت خوشی ہے۔۔ ۔ میرا بس نہیں چل رہا۔ آپ کی جان کو خطرا بڑھتا جا رہا ہے۔ اچھایہی ہے کہ تم تیار ہو جاؤ۔ میں میں آپ کو سرحد پار کرا دوں گا۔‘‘

’’جیسا آپ کہیں۔۔ ۔ آسرے ہی بچے ہوئے ہیں۔‘‘

’’پانی گلے سے اترتا جا رہا دیکھ کر ہی میں نے ایسا کہا ہے نہیں تو مولو کو کیا میں بھیج دیتا۔۔ ۔!‘‘

’’ہمارے مائی باپ ہیں آپ۔‘‘

’’آج ہی چلے جاؤ۔ کل پتہ نہیں کیا ہو جائے۔ رات اندھیری ہے، نالہ بھی سوکھا ہے اس میں چلتے ہوئے کسی کو نظر بھی نہیں آئیں گے مگر یہ لڑکی آپ کو یہاں چھوڑنی پڑے گی۔‘‘

چنگڑی نے مبینہ کو چھاتی سے لگا لیا۔ جیسے چنگڑی کی سانس رک گئی ہو، بولی:

’’نہ سردار جی ایسا نہ کہیں جو خوشبو اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں ہے وہ میری جان میں سما گئی ہے۔‘‘

’’آپ کے بھلے کے لیے ہی ایسا کہا تھا۔ چھ میل چلنا ہو گا کسی جگہ بھی اگر یہ رو پڑی، بچہ ہے۔ تو سبھی مارے جاؤ گے۔ میری تو کوئی سنے گا نہیں۔ لٹیرے تو راہ ہی دیکھ رہے ہیں۔’’

’’جو بھی ہو۔۔ گئے تو مر گئے ۔ٛ لڑکی کو میں نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘

’’جیسی آپ کی مرضی۔ اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں رکھوں گا۔‘‘

کھانے پینے کے بعد گاؤں میں سناٹا چھا جاتا تھا کوئی باہر کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا۔ سردار اور مولو نے ڈھاٹے باندھ لیے اور لاٹھیاں ہاتھوں میں لے لیں۔ چنگڑی نے مبینہ کے لیے دودھ بوتل میں ڈال لیا۔ نالے میں وہ چلتے جا رہے تھے۔ راوی کے کچھ ادھر ہی مبینہ رو پڑی۔ اسی لمحے اس پار سے آ رہی گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ جیسے موت آ رہی ہو۔ مولو اور چنگڑی گھبرا کر ایک دوسرے کے کندھے سے لگ گئے۔ سردار کو کچھ سوجھا، اس نے جھٹ مبینہ کو چنگڑی سے لے لیا اور ان دونوں کو اشارے سے بیٹھ جانے کے لیے کہا اور خود نالے کے اوپر چڑھ گیا۔

گھوڑی والوں نے للکارا۔ ڈھاٹا کھول کر سردار نے کہا:

’’کوئی پرایا نہیں، میں ہی ہوں۔‘‘

”کون ذیل سنگھ، یہ کیا اٹھایا ہوا ہے؟‘‘

’’آیا تو تھا کسی شکار کے پیچھے۔ سنا تھا کوئی موٹی آسامی بھاگ رہی ہے۔‘‘

’’یہی سن کر تو ہم آئے تھے پر سرحد تک تو ہمیں کوئی ملا نہیں۔‘‘

’’گئے تو ضرور ہیں یہ بچہ ۔۔۔ رونے سے ڈرتے ہوئے پھینک گئے ہیں۔‘‘

گھوڑی والے گاؤں کی طرف چلے گئے سردار نے چنگڑ چنگڑی کو دلاسہ دیا اور ہوشیاری سے انہیں سرحد پار کرا دی۔

دوسرے دن وہ لاہور پہنچ گئے۔ دھکے کھاتے وہ شرنارتھی کیمپ پہنچ گئے۔ چاروں طرف سسکیاں اور آنسو تھے مگر چنگڑی خوش تھی کہ خطرا ٹل گیا۔ لڑکی کے ماں باپ بچے نہیں ہوں گے جیتے جی کون ماں لڑکی کو اس طرح پھینکے گی۔

پر ان کے کیمپ سے صرف چار گھر دور مبینہ کی ماں پاگل ہو رہی تھی۔ کوئی ڈاکٹر اس کے لیے کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔ وہ اپنا گلا دباتی اور کہتی:

”ماں نہیں، میں ڈائن ہوں، کہیں رو نہ پڑے، ہم مارے نہ جائیں، میں اسے زندہ

پھینک آئی۔ گیدڑ کھا گئے ہوں گے۔ گھوڑوں کے پیروں کے نیچے آ گئی ہو گی۔ خوشبو دار ہاتھ کچلے گئے ہوں گے۔ وہ بھوکی مر گئی ہو گی اسے کس نے دفنایا ہو گا؟‘

اس کا گریہ کسی سے سنا نہیں جا رہا تھا۔ اس کا بھائی سرکاری افسر تھا۔ اس نے ڈپٹی کمشنر سے ایک فوجی ٹرک کا پرمٹ لیا اور خود ہندوستان زینت کے سسرال کے گاؤں گیا۔ وہاں سے اتنا ہی پتہ لگا کہ مولو چنگڑ مبینہ کو ماناں وال لے گیا تھا۔ ماناں وال سے خبر ملی کہ وہ شیخوپورہ اپنے ساڑھو کے پاس جانے کی سوچ رہا تھا۔

لاہور لوٹ کر انہوں نے شیخوپورہ جانے کا ارادہ کیا۔ زینت نے پاگلوں کی طرح ضد کی کہ وہ بھی ساتھ چلے گی۔ سمجھانے پر بھی وہ نہ سمجھی۔ آخر اسے ساتھ ہی لے جانا پڑا۔

مولو ٹھیک شیخوپورہ صادق کے پاس ہی گیا تھا۔ پتہ تو مل گیا، پر نہ تو چنگڑی اور نہ ہی مبینہ اس کے گھر میں ملے۔ اسنے کہا کہ وہ کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔ مولو کو تھانے میں پکڑ کر لایا گیا۔ اس نے اتنا ہی بتایا کہ لڑکی کو وہ لائے ضرور تھے، مگر بھوکی ہونے اور دودھ نہ ملنے کے کارن وہ ہندوستان سے آتے ہوئے راستے میں ہی مر گئی۔ جلدی میں وہ جتنی قبر کھود سکے کھود کر اسے دفنا آئے۔ نہ مار اور نہ لالچ اس سے کچھ کہلوا سکے۔

دوسرے دن پولس چنگڑی کو بھی پکڑ کر لے آئی۔ چنگڑی کے چہرے پر ذرا بھی گھبراہٹ نہیں تھی۔ اس نے بھی چنگڑ والی کہانی دہرا دی۔

چنگڑ کی کہانی سن کر زینت کا دل ٹوٹ گیا۔ اس نے جبکہ بات وہی کہی تھی، مگر اس کا منہ دیکھ کر زینت بالکل مایوس نہیں ہوئی۔ اسنے کہا وہ چنگڑی سے اکیلے میں کچھ پوچھنا چاہتی ہے۔

کمرے میں اکیلے جب زینت نے چنگڑی کے چہرے کے جذبات دیکھے تو اس کے ذہن میں بھی وہ وقت یاد آ گیا جب ماناں وال کے سردار نے انہیں لڑکی چھوڑ جانے کے لیے کہا تھا۔ ’شاید اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کی خوشبو اس کے پرانوں میں بسی ہو‘ چنگڑی نے سوچا، پر اپنی کمزوری پر قابو پا کر وہ زینت کے سوالوں کے جھوٹے جوابات دیتی گئی۔

’’تو سچ کہتی ہے اسے تو نے اپنے ہاتھوں سے دفنایا تھا؟‘‘

’’ہاں بی بی میں نے انہیں پاپی ہاتھوں سے اس پر مٹی ڈالی تھی۔‘‘

’’اس کے گلے میں ایک سونے کی زنجیر تھی۔‘‘ زینت نے کانپتی آواز میں پوچھا۔

چنگڑی نے جیب سے زنجیر نکال کر زینت کو پکڑا دی۔

’’یہ آپ کی امانت ہے بی بی۔‘‘

زنجیر دیکھ کر زینت دہاڑ مار کر رونے لگی۔ سبھی اندر آ گئے۔ زنجیر زینت کے ہونٹوں سے لگی ہوئی تھی اور وہ بیہوش پڑی تھی۔

اب تھانیدار کو بھی یقین ہو گیا کہ چنگڑ سچے ہیں۔ سونے کی زنجیر سے پانچ مہینے کی لڑکی ان کے لیے قیمتی نہیں تھی۔

دونوں کو چھوڑ دیا گیا پر وہ وہیں کھڑے رہے۔ اور سبھی زینت کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہے تھے۔

ڈاکٹر بھی پہنچ گیا۔ اسے ساری کہانی سنائی گئی۔ چنگڑی کا ذکر آتے ہی اس نے چنگڑی کو دیکھنا چاہا۔ پر چنگڑ اور چنگڑی ہر ایک کو اپنے راستے کا کانٹا سمجھ چپ چاپ چلے گئے تھے۔

ڈاکٹر نے دیکھا بھالا۔ سانس ٹھیک تھی، نبض ٹھیک تھی۔

’’کوئی فکر کی بات نہیں ہے اسی طرح کچھ دیر لیٹی رہنے دو، شاید اپنے آپ یہ کچھ بولے۔ اس سے علاج کے لیے کچھ اشارہ مل سکتا ہے۔‘‘

بیس منٹ وہ اسی طرح پڑی رہی۔ بیہوشی میں وہ کچھ نہیں بولی۔ اب ڈاکٹر صلاح کر رہا تھا کہ کچھ سنگھا کر اسے ہوش میں لایا جائے۔ تبھی ایک طرف سے چنگڑی چپ چاپ اندر آئی اور بچہ زینت کی چھاتی پر لٹا دیا۔ قاسم نے چیختے ہوئے کہا ’’مبینہ ۔۔۔۔‘‘

ایک دم سناٹا چھا گیا۔

مبینہ کو کمر سے ابھی چنگڑی نے پکڑا ہوا تھا۔ اور اس کے دونوں ہاتھ زینت کے گالوں پر رکھ دئیے تھے۔

ڈاکٹر نے مبینہ کو زینت کی چھاتی پر بوجھ سمجھ کر اٹھا لینے کے لیے کہا۔

’’نہیں۔۔ ۔ زیادہ بوجھ اپنے ہاتھوں پر رکھا ہوا ہے۔‘‘ چنگڑی نے کہا، ’’اس کے ہاتھوں کی خوشبو اس کے ناک میں چلی جانے دو۔ زنجیر میں سے اس کے گلے کی خوشبو سونگھ کر ہی وہ بیہوش ہوئی ہے۔‘‘

سچ مچ زینت نے آنکھیں کھول دیں اور خود پر کچھ پیارا سا محسوس کر کے وہ نیم بیہوشی میں بدبدائی ’’کون۔۔ ۔ کسی خوش بو ۔۔۔ یہ کس کے ہاتھ ۔۔۔۔‘‘

’’تیری مبینہ‘‘ قاسم بولا۔

’’نہیں یہ میری سکینہ‘‘ چنگڑی نے کہا۔

زینت نے مبینہ کا منہ بار بار چوما تو وہ رو پڑی۔ چنگڑی نے اسے واپس لے کر پیار کیا اور پھر واپس دیتے ہوئے کہا ’’تم اپنے آپ کہو بی بی یہ تیری مبینہ ہے یا میری سکینہ ۔۔۔ جنم دیا ہے میں نے، اسے بچایا ہے میں نے، اس کا نام سکینہ رکھا ہے۔ اگر یہ تیری مبینہ ہے تو میں اس کی خالہ بنوں گی۔ اگر یہ میری سکینہ ہے تو تم خالہ بن جانا۔ میں اسے دن رات ایک کر کے جیسے کہو گی ویسے پالوں گی، جہاں کہو گی وہاں ہی اس کی شادی کروں گی جو بھی تم کہو گی میں مانوں گی۔‘‘

زینت کو چنگڑی فرشتہ لگ رہی تھی۔ مبینہ پر اس کا حق اسے اپنے حق سے زیادہ لگ رہا تھا۔ اس نے مبینہ کا منہ چوم کر، ہاتھ آگے کر کے چنگڑی کی گود میں دے دیا۔

’’یہ تیری ہی سکینہ رہے گی۔ تم ماں اور میں اس کی خالہ بنوں گی ۔۔۔ پر ایک بات تم بھی مان لو۔‘‘

چنگڑی خود کو اس کمرے میں سما نہیں پا رہی تھی۔ اب وہ سکینہ کی ماں تھی۔ سرکاری افسر، لڑکی کا ماموں، باپ اور ماں اس کے سامنے تھے۔

’’ہاں ۔۔۔ بی بی بہن تمہارے منہ سے نکلی بات میں کبھی نہیں ٹھکراؤں گی۔ تم حکم کرو میں تو تمہاری باندی ہوں۔‘‘ چنگڑی نے اپنی ساری زندگی میں خود کو کبھی اتنا اچھا، اتنا نرم اور اتنا امیر محسوس نہیں کیا تھا۔

’’وہ یہ کہ سکینہ اور اس کے ماں باپ آج سے میرے گھر میں ہی رہیں گے۔‘‘ زینت نے چنگڑی کی طرف اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔

چنگڑی نے وہ بانہیں اپنے گلے میں ڈال لیں۔ آنسوؤں کی دھار میں ماں اور خالہ کا فرق بھی ختم ہو گیا۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے