کہتے ہیں سکندر اعظم نے اپنے دور حکومت میں ہر شعبہ فکر کیلئے وظائف مقرر کیے سوائے شعراء حضرات کے۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ یا تو مورخین جانیں یا وہ جنہیں شاعروں سے للہی محبت ہے۔ البتہ اس خبر سے شعراء حضرات کے تنقیص کا پہلو برآمد کرنا نری جہالت ہے۔ ہاں کہیں توہین کا پہلو نکلے تو بجائے راقم الحروف کے سکندر اعظم سے شکوہ کرے۔ بحیثیت تاریخ کے طالب علم ہونے کے ہمیں سکندر اعظم کے بعض فتوحات سے گلہ تھا۔ لیکن ان کے اس کار خیر سے ایک خاص قسم کی ہمدردی ان سے محسوس ہونے لگی ہے۔
اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ شعراء حضرات نے قوم کو سوائے وقت کی بربادی، فرضی ہجر و وصال کے بے لذت قصوں اور گلے شکوے کے کچھ نہیں دیا۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے وقت برباد کرنے کے زریں اصول دریافت کیے اور گلے شکوے کو نئی جہتوں سے روشناس کرایا۔ کسی قوم میں شاعروں کی بہتات اس قوم کا ادب سے اشتغال کم اور فارغ البال ہونے کی دلیل زیادہ ہے۔
ہمارے ایک واقف کار جو ہر دم اس بات پر نازاں رہتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں بچہ بچہ شاعر ہے، اور ادب ان کے گھر ہی نہیں گاؤں بھر کی لونڈی ہے۔ تا وقتیکہ خود ہی یہ انکشاف نہ کر دیا کہ ان کے ہاں عورتیں دن بھر کام کاج کرتی ہیں اور مرد چارپائیوں پر بیٹھ کر ایک دوسرے کے کرتوتوں اور مصرعوں کی اصلاح کرتے ہیں۔
کسی قوم میں ایک خراب شاعر اس قوم کے جملہ اخلاقی خرابیوں پر بھاری ہوتا ہے۔ اور پھر شاعروں کی بہتات کسی نہتی قوم کے ساتھ وہی سلوک کرتی ہے جو کئی نا تجربہ کار قصائی ایک بکرے کے ساتھ کرتے ہیں۔
ضروری نہیں یہ خرابی شعریت کے حوالہ سے ہی ہو۔ چال چلن اور کرتوت بھی اس میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ بلکہ بعض دانا کہتے ہیں فی زمانہ شاعر ہونے کی تہمت ہی لگ جائے تو خرابیاں وافر مقدار میں آدمی کو مل جاتی ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں شاعری روح کی آواز ہے لیکن خود شاعر کیا ہیں؟ کیا کبھی اس متعلق کسی نے سوچا؟
شعر سے کسی احمق ہی کو گلہ ہو سکتا ہے البتہ شاعر سے گلہ نہ کرنا خود حماقت کی دلیل ہے۔
اس تمہید طولانی کا مقصد بجز اپنے محبوب کرم فرما اور دوست غضنفر علی تہلکہ کے تعارف کے کچھ نہیں جو ہمارے جاننے والے بھی ہیں۔ سرپرست بھی اور بد قسمتی سے شاعر بھی۔
غضنفر علی تہلکہ ایک دن تشریف لائے تو کہنے لگے میاں! آج ایک اہم نکتہ تک رسائی ہوئی۔
عرض کیا بیان کیجئے؟
کہنے لگے جس طرح علم کی دو اقسام ہیں: وہبی علم اور کسبی علم، بعینہ شعراء کی بھی دو اقسام ہیں۔۔ وہبی شعراء اور کسبی شعرا۔
کسبی شعراء میں اپنے ان تمام ہمعصر شعراء کا نام لیا جن سے ان کی مخاصمت شعر و سخن میں ایک عرصہ سے جاری تھی۔
یہ ہمارے ان جاننے والوں میں سے ہیں جن سے تعلق کے اسباب میں سے ایک ان سے شعری قباحت دور کرنا بھی ہے۔
لیکن ٹھہرئیے۔!
جہاں کہیں ہم انہیں یہ احساس دلاتے کہ یہ لفظ گری، قافیہ پیمائی آپ کو زیب نہیں دیتی تو کہنے لگتے آپ جیسے ناخلفوں ہی کی وجہ سے آج یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے ادب کو۔ ورنہ آپ کے بزرگ جو گذر چکے، بڑے ہی اچھے غزل گو تھے۔
کسی زمانے میں ’’خفا‘‘ تخلص استعمال کیا کرتے۔ بلکہ یوں کہیے کہ تخلص انہیں استعمال کرتا تھا۔ تخلص رکھتے ہی غضنفر علی تہلکہ ایسے زود رنج واقع ہوئے کہ اپنی ہر چھینک پر ایک ایک سسرالی رشتے دار سے ناراض ہو جایا کرتے کہ
’’ضرور انہوں نے برے الفاظ میں یاد کیا ہوگا‘‘
تخلص میں جان ڈالنے کیلئے ان دنوں چہرے کے حدود اربعہ بگاڑ کر چلتے کہ لگے ’’خفا صاحب‘‘ آرہے ہیں۔
کثرت سے اس زمانے میں محض ان شاعروں اور رشتہ داروں کو ناراض کرنا شروع کیا جن کے قلم اور حرکتوں سے سوائے ’’آہ و فغاں‘‘ کے کچھ حاصل نہ ہو۔ مشاعرہ پڑھنے جاتے تو چہرہ کچھ یوں لٹکایا ہوتا کہ سامعین مقطع سے نہ سہی چہرے سے تو تخلص کا پتہ لگا ہی لیں۔ یاروں سے ان دنوں بات بے بات خفا ہو جایا کرتے۔
کوئی اگر پوچھ لیتا کہ میاں کیوں ناراض ہو؟ بھڑک جاتے اور کہتے یہ نہ پوچھو کہ کیوں ناراض ہو، یہ کہو کہ کیوں "خفا” ہو۔؟
مولوی سبحان نیرنگ کے بقول غضنفر علی تہلکہ نے ان دنوں بربنائے تخلص ڈیڑھ درجن بچپن کے دوستوں کو ناراض کیا جن میں دو عدد خواجہ سرا بھی شامل تھے۔
غضنفر علی تہلکہ مشاعروں پر جان چھڑکتے تھے۔ لیکن شرکت کرنا اور مشاعرہ پڑھنا بقول ان کے انہیں پسند نہیں۔
کہتے ہیں مشاعرہ پڑھنا انہیں اپنے منصب کے موافق نہیں لگتا۔ بقول یوسفی مرحوم لوگ کیا کہیں گے پرائی بہو بیٹیوں پر مضمون باندھتا ہے۔
دوسری بات شعریت کا مادہ من جانب اللہ ہے اور عوامی مقامات پر اس کے اظہار سے کبر پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جس سے انہیں للہی خوف آتا ہے۔
بعد میں ان کے بڑے بیٹے نے انکشاف کیا کہ والد حضور کو مشاعروں میں شرکت کی دعوت ہی نہیں دی جاتی جس کا غصہ وہ ہم پر مشاعرہ والی رات اس طور نکالتے ہیں کہ مہینے بھر کی غزلیں، نظمیں ہمیں اس رات ان سے سننی پڑتی ہیں۔ بیٹے کی زبانی یہ انکشافات سن کر تجسس پیدا ہوا کہ انہیں آخر مشاعروں میں کیوں مدعو نہیں کیا جاتا۔؟
اپنے تئیں تحقیقات کی تو علم ہوا کہ محلہ جمن شاہ کے منتظمین مشاعرہ غضنفر علی تہلکہ کے ہنگامہ پرور طبیعت اور ان کے دل پھینک ہونے سے ٹھیک ٹھاک "خفا” ہیں۔
انجمن مشاعرہ کے ایک رکن سر راہ ملے تو باتوں باتوں میں ہم نے تہلکہ صاحب کا قصہ چھیڑ دیا۔ قصہ چھیڑنے کی دیر تھی کہ منتظم صاحب پھٹ پڑے۔ کہنے لگے ماضی میں بارہا ایسا ہوا کہ ان کے کسی مصرعہ پر کوئی خاتون مسکرا جاتیں تو بعد مشاعرہ لوگوں سے اس کا نام و پتہ پوچھتے پھرتے۔
معلوم ہو جاتا تو پیغام بھجواتے کہ ’’سخن شناس معلوم ہوتی ہیں، شعر کہنے کا سلیقہ ہو تو اصلاح لے سکتی ہیں۔‘‘
مشاعرہ پڑھتے ہوئے کوئی خاتون انہماک سے شعر سنتی تو مشاعرہ چھوڑ کر اسے گھورنے لگ جاتے تاوقتیکہ خاتون مشاعرہ سے لوٹ کر نہ چلی جائے۔ دوران مشاعرہ گردن، نظریں،اشارے خواتین کے حلقہ کی جانب ہوا کرتیں۔ اب آپ بتائیں ایسے میں انہیں مدعو کریں یا اپنا مشاعرہ سنبھالیں۔؟
بات چونکہ مناسب تھی لہذا ہمیں اثبات میں سر ہلانا پڑا۔
کچھ اور تحقیق ان کے متعلق کی تو یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ مشاعرہ پڑھنا بقول غضنفر علی تہلکہ کے انہیں پسند نہیں لیکن ان کی عقابی نظروں نے ان حالات سے قبل ہی اپنے لیے انتظام کر لیا تھا۔
اوائل جوانی میں جب وہ نئے نئے محلہ جمن شاہ آ کر آباد ہوئے تھے تو کسی مشاعرے میں شرکت کی غرض سے پرائی عورتوں کو تاڑنے گئے۔ اتنے میں سامعین نے اچانک شور مچانا شروع کر دیا۔ ہر طرف چیخ و پکار، کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ مجمع میں بے چینی پھیل گئی اور پھر سامعین نے بیک آواز کھلبلی۔۔ کھلبلی۔۔۔ کھلبلی۔۔ کہنا شروع کیا۔ معلوم ہوا مقامی اسکول ماسٹر کی بیوہ لڑکی امینہ ناز کھلبلی مشاعرے میں اپنا کلام پیش کرنے آئی ہوئی ہیں۔ یہ معلوم شعری تاریخ کی واحد خاتون شاعرہ ہیں جنہیں سامعین نے تخلص سے نوازا تھا۔ غضنفر علی تہلکہ نے یہ منظر دیکھا تو رہا نہیں گیا۔ حسب عادت ایک خط مشاعرے ہی میں لکھ ڈالا اور موقع دیکھ کر ان کی طرف روانہ کر دیا۔
خط کا مضمون کچھ یوں تھا۔
آفتاب علم و ادب، ملکہ نظم و غزل،جان مشاعرہ محترمہ امینہ ناز کھلبلی صاحبہ۔
سلامت تا قیامت
گزشتہ شب آپ کی شرکت نے مشاعرہ میں ایک نئی روح پھونک دی، بعض مصرعوں پر سامعین کو غش کھا کر گرتے ناچیز نے خود دیکھا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے خود میری حالت مرغ بسمل سے کسی طور کم نہ تھی۔ شعر و سخن میں جس ندرت خیال، انوکھی تراکیب اور بلیغانہ تلمیحات کو آپ نے رواج دیا ہے یقیناً آسمان ادب میں یہ ایک نئے ورق پر مرصع ہوگا۔ بعض غزلوں سے عیاں آپ کی دلفگاری نے نمناک آنکھوں سے آپ کا مونس و غمخوار بننا چاہا۔ البتہ خاکسار کو ایک آدھ جگہ مصرعوں میں آپ کے ملکوتی حسن کی طرح شادابی کی لہر دکھائی نہیں دی کہ جس سے دل کے تار جھنجھنا اٹھتے۔ اصلاح کی ضرورت محسوس ہوئی، اس سعادت کیلئے اگر ناچیز کو موزوں قرار دیا جائے تو نیاز مند رہوں گا۔
الفت نامہ کا منتظر
ہیچمداں
غضنفر علی تہلکہ
امینہ ناز کھلبلی عین جوانی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ خط کے مضمون اور مضمون سے چھلکتی بے قراری نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ مراسلہ بھیجا اور بغرض اصلاح خط و کتابت دونوں کے درمیان شروع ہو گئی۔ دونوں جانب سے خطوط کا تبادلہ جاری تھا۔ کہیں اصلاح کا پیوند ہوتا خطوط میں تو کہیں ہمدردی کا۔ بالآخر ایک غزل کی تقطیع میں غضنفر علی تہلکہ نے امینہ ناز کھلبلی کو اپنے حرم کا راستہ دکھلا دیا۔
اس حادثہ فاجعہ کی اطلاع محلہ جمن شاہ کے منتظمین مشاعرہ کو ہوئی تو بالاتفاق انجمن نے یہ قرارداد پیش کی کہ آئندہ غضنفر علی تہلکہ کو کسی مشاعرہ میں مدعو نہیں کیا جائے گا۔ انجمن کا قیام محلے میں علم و ادب کے فروغ کے لیے عمل میں لایا گیا ہے نہ کہ کسی کے تجرد کو رفع کرنے کیلئے۔ اس کے بعد انجمن نے احتجاجا کئی ماہ تک مرد شعراء کو مدعو کرنا ترک کر دیا تھا۔ محض خواتین شاعرات کو مدعو کیا جاتا جس کے سامعین میں ایک بڑی تعداد خود منتظمین کی ہوا کرتی۔
ایک دن غضنفر علی تہلکہ سے بعض بے تکلف دوستوں نے اصرار کیا کہ علامہ! (علامہ کہنے سے ایک خاص قسم کی چمک ان کے چہرے پر پیدا ہو جاتی جس کی تابناکی سے کہنے والے خوب خوب فائدہ اٹھاتے) شادی کے بعد آپ "تہلکہ” تخلص کیوں استعمال کرنے لگے ہیں۔؟ جو دکھ درد، تکالیف آپ نے سابقہ تخلص پر جھیلے ان کا کیا بنے گا۔؟
ایک ٹھنڈی آہ بھر کر بولے کہتے تو ٹھیک ہو۔ لیکن کھلبلی صاحبہ کی شرط تھی کہ شادی کے بعد تخلص میری مرضی کا ہوگا۔
آپ انکار کر دیتے۔! دوستوں نے کہا
انکار کا سوچا تو تھا۔ لیکن بعض ذرائع سے علم ہوا کہ میرے ہمعصر شعراء کو کھلبلی صاحبہ کے تخلص کی شرط معلوم ہوئی تو خفیہ طور پر انہوں نے یہاں تک پیغام بھجوائے کہ تخلص کے ساتھ ساتھ ہم خاندان، نام و نسب، پیشہ آباء بھی آپ کی مرضی کا رکھ لیں گے، بس آپ ہمارے لیے ہاں کر دیں۔ ایسے خون آشام حالات کے سامنے آپ بتائیں تخلص نہ بدلتا تو کیا کرتا۔؟
ان کے بعض مکتوبات سے انکشاف ہوا کہ امینہ ناز کھلبلی کو اپنی محبت کا یقین دلانے کیلئے انہیں بعض ایسے جملے وضع کرنے پڑے جن سے ظاہر ہوتا یہ کسی عاشق رم گزیدہ کا خط نہیں بلکہ ایک شیر خوار کی صدا ہے جو ماں کے دودھ کیلئے بلک رہا ہے۔۔
ناراضی کے ڈر سے ہم ان خطوط کا متن یہاں پیش نہیں کر سکتے اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو ہمارے دوست ناراض ہو سکتے ہیں۔ دوسری وجہ نئی نسل کو نئے مواقع میسر آ جائیں گے۔
یہ ماضی کے قصے ہیں۔
اب الحمد للہ کسی حد تک غضنفر علی توبہ تائب ہو چکے ہیں، تخلص لگانا چھوڑ دیا ہے۔ کپڑوں کی دکان کھول بیٹھے ہیں، شعر و شاعری ترک کر دی ہے ہاں کوئی قرض خواہ آ جائے تو ان کی شاعرانہ روح جاگ جاتی ہے تب تک کہ جب تک قرض خواہ اٹھ نہ جائے۔
٭٭٭