الجھا ہے جو انکار سے اقرار مسلسل
اک حشر بپا ہے پسِ دیوار مسلسل
کانٹے ہیں یہاں پھول سے بے زار مسلسل
مجھ سے ہیں خفا میرے سبھی یار مسلسل
جب زخم مری پشت پہ آیا تو میں سمجھا
لڑتا رہا دشمن سے میں بے کار مسلسل
بنیاد جو نفرت کی کبھی اٌس نے تھی رکھی
میں اُس پہ اُٹھاتا رہا دیوار مسلسل
بازار میں اب بکتی ہے حرمت بھی قلم کی
اس شہر میں جاری ہے یہ بیوپارمسلسل
٭٭٭