غزلیں ۔۔۔ فرحان محمد خان

میرے دل میں بھی اک یاد سی رہ گئی

ان کے پہلو میں بھی کچھ کمی رہ گئی

 

ایک بچہ جو دنیا کا باغی ہوا

ایک ماں جو اسے ڈانٹتی رہ گئی

 

گھر سے نکلے تو ہم پر کھلا بارہا

گھر کی دہلیز پر زندگی رہ گئی

 

زندگی بھر محبت ہی کرتے رہے

اور اس میں بھی شاید کمی رہ گئی

 

ایک بندِ قبا اپنی قسمت ہوا

اک گرہ جو کہ کھلتی ہوئی رہ گئی

 

اک محبت کہ محرومِ اظہار تھی

اک کلی باغ میں ادھ کھلی رہ گئی

 

ایک چہرہ جو آنکھوں میں اٹکا رہا

بات ایسی جو دل میں دبی رہ گئی

 

ایک تصویر ہے جس میں دو لوگ ہیں

زندگی میں یہی اک خوشی رہ گئی

 

کوئی رخصت ہوا، دل یہ کہنے لگا

اپنے حصے میں اب شام ہی رہ گئی

 

اس کو دعوی تھا مڑ کر نہیں دیکھنا

اور دیکھا تو پھر دیکھتی رہ گئی

 

چار یار اور اک چائے کی میز تھی

اب وہاں پر فقط میز ہی رہ گئی

٭٭٭

 

 

 

 

جو جس کے پریم میں ڈوبا ہے وہ اس کی مالا جپتا ہے

ہر ہیر کا اپنا رانجھا ہے ہر کرشن کی اپنی رادھا ہے

 

اپنا بھی انوکھا رشتہ ہے ہر بات پہ جھگڑا ہوتا ہے

میں عشق نگر کا پکھیرو ہوں وہ حسن نگر کی چڑیا ہے

 

ہر دل کی اپنی شریعت ہے ہر دل پہ صحیفہ اترا ہے

ہر شخص کے اپنے سجدے ہیں ہر شخص کی اپنی پوجا ہے

 

کچھ تال نہیں کچھ میل نہیں یہ عشق ہے حضرت کھیل نہی

میں کیسے آپ کو سمجھاؤں پروانہ کیوں آگ پہ بیٹھا ہے

 

یہ دیوانوں کی باتیں ہیں کیوں فرزانوں پر بھید کھلے

میں اس کے لبوں سے ہنستا ہوں وہ میری آنکھ سے روتا ہے

 

وہ جس کو دیکھ کے جینے کی ہر خواہش دھک دھک کرتی ہو

جیون کی بہتی گنگا میں اک آدھ ہی چہرہ ایسا ہے

 

تب کوئی کھلونا ٹوٹ گیا اب کوئی اپنا روٹھ گیا

ہر عمر کے اپنے سپنے ہیں ہر عمر کا اپنا جھگڑا ہے

 

یہ واعظ ہیں وہ صوفی ہے، یہ ملا ہیں وہ ملحد ہے

ہر شخص انا کا قیدی ہے ہر شخص کا اپنا پنجرا ہے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے