پیارے نحریر جاوید کی نذر
یوں تو اپنے تئیں تھے بہت با خبر کھلتے کھلتے کھلا اس حقیقت کا در ہائے افسوس ہم بے خبر ہی رہے بے خبر جائیں گے خواب رہ جائیں گے
در کھلا تو کھلا فلسفہ زیست کا کوئی کچھ بھی کہے ماجرا ہے یہی جانتے کچھ نہیں اک نہ اک دن سبھی مان کر جائیں گے خواب رہ جائیں گے
دائرے میں رہو قاعدے میں رہو یا خسارے بھرے فائدے میں رہو وہم ہے زعم ہے سب گماں ہے فقط اپنے نام آئے گا ایک دن ایک خط
کوئی حجت نہیں سر جھکائے چلو منہ چھپائے چلو کوئی چارہ نہیں اپنے وہم و گماں سے مکر جاؤ تم ہم مکر جائیں گے خواب رہ جائیں گے
سب کہا ان کہا ہو کے رہ جائے گا سب سنا ان سنا ہو کے رہ جائے گا، مثل الفاظ جو ہو چکے ہم ادا الغرض سب کا سب بے اثر جائے گا
شام ڈھل جائے گی رات کٹ جائے گی دن گزر جائے گا وا دریغا یونہی دیکھتے دیکھتے صورتِ برگ و گُل ہم بکھر جائیں گے خواب رہ جائیں گے
ایسے مد ہوش تھے جیسے بے ہوش تھے جان ہی کب سکے اس کہانی کا دکھ رائگانی کا دکھ اک ندا آئے گی سب دھرے کا دھرا ہائے رہ جائے گا
سارے موسم بدل جائیں گے بے دلی، سارے دریا اتر جائیں گے بے کلی، طے شدہ کچھ نہیں پھر کدھر جائیں گے پر جدھر جائیں گے خواب رہ جائیں گے
اے ہوس بس بھی کر بس بھی کر اے ہوس جان لے مختصر مختصر جان لے ایک دن سب یہاں سب یہاں ایک دن چھوڑ جانا ہے بس اس طرح جس طرح
مقتدر جائیں گے نامور جائیں گے معتبر جائیں گے تاجور جائیں گے کرّ و فر جائیں گے سب اگر جائیں گے سب مگر جائیں گے خواب رہ جائیں گے
اوّلش اوّلش ہم یہ سمجھے نہ تھے شوقِ پرواز میں رات دن ہم اُڑے آخرش یہ کھلا شوق رہ جائے گا پال و پر جائیں گے خواب رہ جائیں گے
زمزمے بھی گئے ہمہمے بھی گئے قہقہے بھی گئے چہچہے بھی گئے آپ تاصف میاں چشمِ نم آئے تھے چشمِ تر جائیں گے خواب رہ جائیں گے
٭٭٭
فشارِ خوں نہ اپنی ٹانگ اڑاتا
تو ایسے کیوں بھلا دل ہڑبڑاتا
پرندہ نو گرفتہ لگ رہا ہے
وگرنہ اس طرح کیا پھڑپھڑاتا
میں خود سے مل کے واپس آ رہا تھا
سراسیمہ ہراساں لڑکھڑاتا
کیے بیٹھا تھا چشم در مقفّل
مگر اک خواب آیا دھڑدھڑاتا
بہت مطعون کرتا ضبط میرا
اگر کچھ زیرِ لب ہی بڑبڑاتا
اگر جنبش میں دے پاتا بدن کو
تو پہلے بیڑیوں کو کھڑکھڑاتا
ملمّع سازیاں شامل نہ ہوتیں
میانِ داستاں کیوں گڑبڑاتا
٭٭٭