غزلیں ۔۔۔ صابرہ امین

کب کوئی جیتا اسے ہے حکمت و تدبیر سے

جیت ہوتی ہے محبت میں فقط تقدیر سے

 

تجھ سے ملنا، تجھ کو پانا اب کہاں اپنا نصیب

ہم کیا کرتے ہیں باتیں بس تری تصویر سے

 

ہم کو ہم سے چھین کر تم نے سزا دی اس طرح

ہو گئے ہم خالی داماں ہائے اس تعزیر سے

 

رازِ الفت کھول کر ہم کس قدر پچھتا چکے

مضمحل ہیں زخمِ دل کی اس قدر تحقیر سے

 

اب تو خود سے بھی چھپائیں گے ہم اپنا حالِ دل

باز آئے ہم جنوں کی اس قدر تشہیر سے

 

خواب ہم نے تو بنے تھے چاہتوں کے، پیار کے

کیوں نہ ہوں اب ہم شکستہ اس الٹ تعبیر سے

 

پیار کی خوشبو کبھی کیا روک پایا ہے جہاں

تم ڈراتے ہو ہمیں کیوں طوق سے، زنجیر سے

 

ہم کو بھی جانے کی جلدی تھی یہ دنیا چھوڑ کر

اور وہ بھی ہم تلک پہنچے ذرا تاخیر سے

 

کر رہے تھے ہم دعائیں بھول جانے کی تمہیں

مستجابی کیسے ہوتی حرفِ بے تاثیر سے

 

داستاں سننے کو گرچہ اک زمانہ ساتھ ہے

ہم کہا کرتے ہیں دل کا حال اک تصویر سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

عشق کا انسان سے گر واسطہ ہوتا نہیں

زیست کرنے کا جہاں میں کچھ مزا ہوتا نہیں

 

عاشقی کا درد تو سب کو عطا ہوتا نہیں

بس سبب یہ ہے کہ وہ ہم پر فدا ہوتا نہیں

 

پیار کرنا جرم بھی ہوتا مرے رب کے قریں

کوئی بھی پھر اس جہاں میں بے خطا ہوتا نہیں

 

اس کی بنیادوں میں ہے موجود ارمانوں کا خون

یوں تمھارے دل میں گھر اپنا بسا ہوتا نہیں

 

وصل کی خواہش ہمیں لے جائے گی کیا گور تک

وعدہ کرتے ہو مگر تم سے وفا ہوتا نہیں

 

پیار کی کشتی ڈبونے میں تمہارا ہاتھ ہے

جو خدا بن بیٹھے پھر وہ ناخدا ہوتا نہیں

 

کیا دکھا اس شخص میں چھوڑا ہمیں جس کے لیے

گر نہ اس کو دیکھتے ہم کو گلہ ہوتا نہیں

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے