میں داغِ دل کو چلو سب کے روبرو کر لوں
سجاؤں کرب سے چہرے کو، ہاؤ ہو کر لوں
غمِ حیات اگر وقت دے تو میں خود سے
طویل بات نہیں تھوڑی گفتگو کر لوں
اذیّتوں کے زمانے تھے جب یہ حسرت تھی
میں اپنی ذات کو گم کر کے خود کو تُو کر لوں
یہ ممکنات کی دنیا ہے اس میں حیرت کیا
میں اُس کو دوست کروں آج، کل عدو کر لوں
اگر یہ خوئے ملامت مجھے اجازت دے
کہیں کہیں سے رِدائے انا رفو کر لوں
ہمارے پاس وسائل ہیں صرف گنتی کے
جہاں سے پانی پیوں میں وہیں وضو کر لوں
قلم سے لفظ ٹپکتے ہیں بن کے آبِ حیات
میں کاش ان کی روانی کو آب جو کر لوں
جو سب سے سخت سزا تھی، مرا نصیب ہوئی
میں جس کو پا نہ سکوں اس کی آرزو کر لوں
لو اپنے ہاتھ سے کاشف پھر اختیار گیا
پھر اس کو یاد کروں دل لہو لہو کر لوں
٭٭٭
زباں پہ حرف ملائم بھی، دل میں کینہ بھی
عجیب شخص ہے، اچھا بھی ہے، کمینہ بھی
لہو تو خیر کہاں کا، یہ جاں نثار ترے
بہائیں گے نہ کبھی بوند بھر پسینا بھی
وہاں گزار دیے زندگی کے اتنے برس
جہاں نہ مجھ کو ٹھہرنا تھا اک مہینا بھی
جلا بروز ازل جو بنام رب سخن
اُسی چراغ سے روشن ہے میرا سینہ بھی
درون دل انہی متروک سلسلوں میں کہیں
چھپا ہُوا ہے تری یاد کا خزینہ بھی
تمہارا ذوقِ سخن ہے خیال تک محدود
ہمیں تو چاہیے اظہار میں قرینہ بھی
بس ایک پل کو جو دربان کی نظر چوکے
مری نگاہ میں وہ بام بھی ہے، زینہ بھی
تلاش ہست میں معدوم ہو، کہ ممکن ہے
عدم کی تہہ سے برآمد ہو یہ دفینہ بھی
سوال یہ ہے کہاں سے نتھر کے آیا ہے
یہ ایک اشک ہی پانی بھی ہے، نگینہ بھی
ملے گی کونسی بستی میں دل زدوں کو پناہ
کہ اہل درد سے خالی ہُوا مدینہ بھی
وہ خواہ ساحل فرقت ہو یا جزیرۂ وصل
کسی کنارے تو لگ جائے یہ سفینہ بھی
٭٭٭