ہمارے آج کے دانش وروں، خصوصاً ’روشن خیال‘ دانش وروں کو یہ بات مان لینی چاہیے کہ پوری بیسویں صدی میں اقبال سے بڑا کوئی صاحب دانش نہیں تھا، اور دانش حاضر اور اس کی گہرائیوں اور پیچیدگیوں سے بھی ان سے بڑھ کر کوئی واقف نہ تھا۔
اقبال کے ہاں ’عقل‘ اور ’دانش‘ مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں اور عقل کے کچھ محدود سے فوائد بھی علامہ نے بتائے ہیں، مگر اس مضمون میں ’دانشِ حاضر‘ کی ترکیب اُس دانش اور عقل عیار کے معنی و مفہوم میں استعمال کی گئی ہے، جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا:
تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زُنّاری
یا ؎
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
دانشِ حاضر کی ترکیب تو اقبال نے دوچار جگہ ہی استعمال کی ہے مگر زمانۂ حاضر، تہذیب حاضر، علم حاضر، دورِ حاضر، دانشِ فرنگ، سرمۂ افرنگ، عقلِ ذو فنوں، فکرِ خدا داد، فلسفہ و حکمت اور آزادیِ افکار جیسی تراکیب اور خرد، خبر، علم، ظن، تخمین عقل، دانش اور فرنگ جیسے الفاظ ان کے ہاں بکثرت ملتے ہیں۔ اگر ہم اس طرح کے اشعار کو نگاہ میں رکھیں:
برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ
فرنگ دل کی خرابی، خرد کی معموری
______
نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی بَرّاقی
______
ڈھونڈھ رہا ہے فرنگ، عیشِ جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام، وائے تمنائے خام
تو اندازہ ہو گا کہ وہ اُس تہذیب، طرز ِعمل اور فکر سے بے اطمینانی اور بے زاری کا اظہار کر رہے ہیں جو عقل پرستی کی بنیاد پر وجود میں آنے والی دانش حاضر کا شاخسانہ ہے اور جس کے بارے میں علامہ نے کہا:
عذاب دانشِ حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیل
صرف اقبال ہی نہیں، عہد اقبال کا ہر شخص دانشِ حاضر کے عذاب سے باخبر تھا بلکہ ما بعدِ اقبال عہد کی دنیا بھی اس عذاب کو بھگت رہی ہے اور جانے کب تک اس عذاب کی آگ میں جلتی رہے گی۔
دانشِ حاضر چالاکی و عیاری، مکاری و فریب کاری، پُرکاری و سخن سازی اور چرب زبانی میں اپنی مثال آپ ہے۔ عہد حاضر میں دانشِ حاضر نے ساحر الموط کی سی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ جو لوگ اس کے فریب میں آ جاتے ہیں اور اس کے جال میں گرفتار ہو جاتے ہیں، عہدِ جدید کا یہ ساحر ان کے سامنے ایسے حسین و جمیل، چمکنے دمکنے اور نظر کو خیرہ کرنے والے بت تراش دیتا ہے کہ نوگرفتار، ان کی چکا چوند کے سامنے بے اختیار سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ ان بتوں میں چھوٹے بڑے، مختلف شکل و صورت کے اور کئی قسموں کے بہت سے بت شامل ہیں، مثلاً:
وطنیت اور قوم پرستی کا بت
دین و سیاست کی مغائرت کا بت
عقیدوں، روایات اور اقدار میں تشکیک اور ان سے بغاوت کا بت
مادہ پرستی اور فلزات پرستی کا بت
ملحدانہ سوشلزم کا بت
عوام کی حاکمیت کا بت
آزادیِ افکار کا بت
مرد و زن کی مساوات اور نام نہاد آزادی نسواں کا بت، وغیرہ۔
یہ سب معبودانِ فرنگی اُسی دانش حاضر کے تراشیدہ ہیں اور، میں بڑی معذرت کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے بہت سے پاکستان ہی کے نہیں، مسلم دنیا کے دانش ور بھی( ادیب، صحافی خصوصاً کالم نگار، قلم کار، اساتذہ اور ایک نئی مخلوق جسے ’اینکر پرسن‘ کا نام دیا جاتا ہے، یہ سب)، اِلّا ماشاء اللہ اسی دانش حاضر کے پھندے میں گرفتار ہیں اور انھی معبودان فرنگی کے سامنے سجدہ ریز ہیں، جن سے بچنے کا علامہ اقبال نے مشورہ دیا تھا اور ان سے ہوشیار رہنے کی تنبیہ بھی کی تھی مگر دانشِ حاضر کے بیچارے یہ نوگرفتار سمجھتے ہیں کہ ’وحیِ ولایت‘ کے ہر ہر حرف پر آمنّا و صدّقنا کہنا ہی زندگی میں کامیابی کی کلید ہے۔ یہاں مشکل تو یہ ہے کہ جن کی تعریف میں ہمارے دانش وَر رطب اللّساں ہیں، ان میں سے کسی ایک بت نے بھی بنی نوع انسان کی مسیحائی نہیں کی بلکہ اس کے برعکس سو سو طرح سے مرنے والی مخلوقِ خدا کو ہمیشہ بے اطمینانی اور بے حضوری اور بے یقینی اور محرومی ہی سے دوچار کیا ہے۔ دانش حاضر کے زائیدہ تمام فلسفوں، اِزموں، بتوں اور معبودوں نے انسان کے اعتماد …خدا پر ایمان، کائنات پر یقین، کسی مذہب پر (یعنی زندگی بسر کرنے کے لیے کسی ضابطے، راستے اور عقیدے پر) ایمان، اور انسان کا خود اپنے اوپر یقین اور اعتماد…دانش حاضر نے ان سب کو ٹھیس پہنچائی ہے، کمزور کیا ہے اور انسان کو تشکیک اور تذبذب میں مبتلا کیا ہے۔
علامہ فرماتے ہیں:
علمِ حاضر پیشِ آفل در سجود
شک بیفزود و یقیں از دل ربود
اور اسی لیے عصر حاضر کا انسان ’’بوعلی اندرغبارناقہ گم‘‘ کی سی کیفیت سے دوچار ہے۔
علامہ اقبال نہایت دیانت داری سے سمجھتے تھے کہ دانش حاضر نہ صرف خود گم کردہ راہ ہے بلکہ گمراہی پھیلاتی بھی ہے اور اس نے ایک دنیا کو راہِ راست سے بھٹکایا ہے۔ اس گمراہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دانش حاضر فیضانِ سماوی سے محروم ہے۔ اس نے مشرقی اقوام پر مغربی استعمار کی سامراجی گرفت کو مضبوط تر کرنے کا نا مسعود کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک دانش حاضر کے ڈانڈے ابلیس سے ملتے ہیں:
گو فکرِ خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادیِ افکار ہے ابلیس کی ایجاد
ابلیس کے علاوہ دوسری ہستی میکاولی کی ہے جسے دانش حاضر نے اپنا مرشد بنا رکھا ہے۔ اس ابلیسیت اور میکاولیت کی بنیاد پر دانش حاضر نے جو گل کھلائے، ہم اقبال کی وفات کے پون صدی بعد بھی اس کے ’’فیوض و برکات‘‘ کی زد سے باہر نہیں نکل سکے۔ عہد حاضر میں آزادی فکر، آزادی نسواں، مساوات مرد و زن، روا داری، دوستی، روشن خیالی اور نظریہ پاکستان کے مفہوم کے از سر نو تعین کے سلسلے میں سیکولرزم پر اصرار اور ایک خاص مفہوم اور پس منظر میں ’عوام کی عدالت‘ کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور اس کی مقننہ اور عدلیہ سے بھی بالا تر قرار دینے کا نعرہ۔ یہ سب جیسا کہ اُوپر عرض کیا گیا، دانش حاضر کے زائیدہ مسائل اور امراض ہیں۔ عہد اقبال میں بھی یہ سب موجود تھے اور علامہ کو ان کا پورا ادراک تھا۔ اس کے بعض پہلوؤں کا اظہار انھوں نے ’بالِ جبریل‘ کی نظم ’’لینن‘‘ میں کیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائیِ تعمیر میں، رونق میں، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
بیکاری و عریانی و مے خواری و اِفلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
فرنگی مدنیت کی فتوحات کی پوری فہرست بہت طویل ہے۔ جنسی بے راہ روی نے کنواری ماؤں، نا جائز بچوں اور شادی کے رجحان میں بتدریج کمی کی منازل سے گزر کر فرنگی معاشرے کو خاندانی اکائی سے محروم اور خاندانی نظام کی تباہی سے دوچار کر دیا ہے اور اب دانش حاضر ہم جنس پرستی پر مصر ہے۔ جب دانشِ حاضر نے عالم انسانی کو اتنی ساری مہلک بیماریوں میں مبتلا کر دیا تو انسانیت کیسے پنپ سکتی ہے۔ اقبال نے خطبات میں ایک جگہ کہا ہے:
Believe me, Europe to-day is the greatest hindrance in the way of man’s ethical advancement
خیر، یہ تو فرنگی مدنیت کا ایک پہلو ہے۔ اس کا سب سے روشن اور قابل قدر چہرہ تو ’’یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت‘‘ قرار دیا جاتا تھا مگر اب مغرب کا علم و ہنر، تعلیم و تعلم، حکمت و حکومت اور تدبر و تفکر وغیرہ سب کچھ دانش حاضر سے مسموم ہو چکا ہے۔ اب علم ’تخمین و ظن‘ اور ’سراپا حجاب‘ بن چکا ہے۔ اقبال نے اس ظلمات اور ان فتنوں سے باخبر رہنے کی تلقین کی ہے۔
اے مسلماناں! فغاں از فتنہ ہائے علم و فن
اہرمن اندر جہاں ارزاں و یزداں دیریاب
خیال رہے کہ دانش حاضر کی زائیدہ بہت سی بیماریوں میں سے روشن خیالی کی بیماری، ہمارے ایک طبقے کو عہد اقبال ہی سے لاحق ہو چکی تھی۔ پنڈت نہرو کے ساتھ قادیانیت کے مسئلے پر قلمی مناقشے میں ایک جگہ اقبال نے لکھا ہے:
The so-called "enlightened” Muslim has seldom made an attempt to understand the real cultural significance of the idea of Finality in Islam and a process of slow and imperceptible Westernisation has further deprived him even of the instinct of self-preservation.
یہself-preservation سے محرومی کیا ہے؟ اس کی وضاحت علامہ نے مثنوی ’پس چہ باید کرداے اقوامِ شرق‘ میں بایں الفاظ کی ہے:
اے تہی از ذوق و شوق و سوز و درد
می شناسی عصرِ ما با ما چہ کرد
عصرِ ما ما را زِ ما بیگانہ کرد
از جمالِ مصطفیٰؐ بیگانہ کرد
سوزِ او تا از میانِ سینہ رفت
جوہرِ آئینہ از آئینہ رفت
باطنِ ایں عصر را نشناختی
داوِ اوّل خویش را درباختی
علّامہ نے صرف تشخیصِ مرض ہی پر اکتفا نہیں کیا، دانش حاضر کی اس بیماری کا علاج بھی بتایا ہے اور وہ ہے: ع
اندر ایں کشور مقامِ خود شناس
پھر وہ کہتے ہیں کہ یہ خود شناسی لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ کی طرف مراجعت ہی سے ممکن ہے اور یہی دانش حاضر کے زہر کا تریاق ہے۔ اسی مثنوی میں ایک جگہ کہتے ہیں:
نکتۂ می گویم از مردانِ حال
اُمتاں را لا جلال اِلَّا جمال
لا و اِلَّا احتسابِ کائنات
لا و اِلَّا فتحِ بابِ کائنات
ہر دو تقدیرِ جہانِ کاف ونوں
حرکت از لا زاید از اِلَّا سکوں
تا نہ رمزِ لَا اِلَہ آید بدست
بند غیر اللہ را نتواں شکست
یہ رمز لَا اِلٰہ کیا ہے؟ اس کی وجہ علامہ نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ کے عنوان سے ضرب کلیم کی پہلی نظم میں بیان کی ہے۔ خیال رہے کہ ۱۹۳۶ء میں ضرب کلیم کی اشاعت کو اقبال نے دانش حاضر کے فتنے کے خلاف ’اعلانِ جنگ‘ قرار دیا تھا __ یہ نظم خود شناسی کی وضاحت بھی ہے اور رمز لَا اِلٰہ کا مفہوم بھی کھولتی ہے __فرماتے ہیں:
خودی کا سرِّ نہاں لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
خودی ہے تیغ، فساں لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زُنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں، لَا اِلٰہ اِلَّا اللّٰہَ
٭٭
ماخذ: جریدہ ترجمان القرآن، اپریل ۲۰۲۱ء
٭٭٭