شہرِ خوش بخت میں ۔۔۔ اقتدار جاوید

شہرِ خوش بخت میں

جب تو گھر سے نکلتی ہے

گلیاں دمکتی ہیں

رستہ چمکتا ہے

مہکار اڑتی ہے

بازار سجتے ہیں

سینوں میں لذت اُترتی ہے

لوگوں میں جذبے ہمکتے ہیں

جب بھاری پلکیں اٹھاتی ہے

ماتم کی مجلس بپا کر کے

صدیوں کو بھوبل بناتی ہے

ملاح

کشتی کو کھیتے ہیں

دریا کا پانی لرزتا ہے

پانی کے سینے میں

چپو اُترتا ہے

سورج اُبھرتا ہے

کرنیں بکھرتی ہیں

پیڑوں کی شاخیں نکھرتی ہیں

میدان

سیال سونے سے بھر جاتے ہیں۔ شہرِ خوش بخت میں

تو جو گھر سے نکلتی ہے

اسطور کی جو حقیقت ہے

ایمان کا جو تقاضا ہے

باغی جو نعرہ لگاتا ہے

مذہب جو تعلیم دیتا ہے

سائنس جو انکار کرتی ہے

شاعر جو کہتا

ہے

ان سب کی تصدیق ہوتی ہے

تو اپنی پلکیں جھکاتی ہے

اور رات آتی ہے

پیڑوں کے خیموں میں

خاموشی ہوتی ہے

پتوں کی لمبی زبانیں لٹک جاتی ہیں

اک ستارے کی لو سے

الجھتا ہوا دل مچلتا ہے

آفاق گھل جاتے ہیں

موم بتی کی چوٹی سے

شعلہ نکلتا ہے !

٭٭٭

One thought on “شہرِ خوش بخت میں ۔۔۔ اقتدار جاوید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے