یہ امر تو مسلم ہے کہ ستیہ پال آنند جیسے ہمہ جہت شاعر کے ہاں، جس نے چھ سو سے کچھ اوپر نظمیں لکھی ہوں، First Person Pronoun یعنی ’’میں ‘‘ کی شخصیت ذاتی یا وارداتی نہیں ہو سکتی۔ ’’میں ‘‘ وہ ’’متکلم یا موجود راوی‘‘ کا نطق ہے جس کے توسط سے شاعر ایک عندیہ اپنے شعری اظہار میں ڈھالتا ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ منشا یا عندیہ اس کا ذاتی ہو۔ اس لیے یہ باور کر لینا کہ فلاں نظم میں شاعر بنفس نفیس خود محو کلام ہے اور آپ بیتی بیان کر رہا ہے، کلیتاً غلط ہے۔ ستیہ پال آنند کا طریق کار، بقول بلراج کومل کچھ اس طرح ہے :
وہ (ستیہ پال آنند) خیال کو جذبے میں بدلنے کے فن میں مکمل طور پر قادر ہیں جو عام طور پر اپنی نظم میں بیانیہ اور کہانی (کہیں کہیں فیبل) کے سے انداز کو بروئے کار لاتے ہیں اور نظم کو مربوط متناسب اکائی کے روپ میں بعض اوقات واحد متکلم موجود راوی، بعض اوقات غیر شخصی راوی یا منظر نامے سے غائب راوی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔
(پیش لفظ۔ ’’ستیہ پال آنند کی تیس نظمیں ‘‘)
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ انیسویں صدی کے آخر تک انگریزی تنقید میں بھی شاعر کی ذات، اس کی زندگی کے حالات، اس کی نفسیاتی، سماجی یا معاشی آسودگی یا نا آسودگی کا ذکر ایک تنقید نگار کے لیے ایک اہم فریضہ تھا، لیکن بیسویں صدی کے شروع میں یورپی تنقید میں شعری یا نثری تخلیق کو اس کے خالق سے آزاد کر کے ایک منفرد اکائی مان لیا گیا، اور تبھی یہ بات واضح ہوئی کہ ’’میں ‘‘ کے صیغہ ’ واحد متکلم موجود راوی ‘ میں بھی ایک سے زیادہ کرداروں کی موجودگی ممکن ہے۔
ستیہ پال آنند کی وہ نظمیں جن میں مرد اور عورت کے باہمی تعلقات کو (زیادہ تر ازدواجی رشتے کے حوالے سے، یا خال خال غیر ازدواجی رشتے کے جزر و مد میں ) دیکھا گیا ہے، تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہیں۔ پانچ صد نظموں کے خالق کے ہاں دس یا بارہ نظموں کی موجودگی موضوعاتی سطح پر اہم نہیں ہے۔ ایک وجہ تو یہی ہے کہ ڈاکٹر آنند نے اپنی تحصیل علم میں، جامعات کی سطح پر تحقیق اورتدریس میں، سیاحت اور ہجرتوں کے ایک لا اختتام سلسلے میں، جو کچھ پایا، وہ عورت مرد کے باہمی تعلقات سے کہیں زیادہ اہم تھا، اور یوں بھی ’’عشق و محبت‘‘ تو، ان کے قول کے مطابق، ’’نا پختہ ذہنوں اور لڑکپن کی پہلی کچی بلوغت کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ‘‘
حیرت کی بات یہ ہے کہ جہاں شاعر کا واحد متکلم اس کا اپنا ذاتی تشخص نہیں ہے، وہاں ڈاکٹر آنند کی ان نظموں کو چالیس برسوں کے احاطے میں رکھ کر دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ یعنی وہ نظمیں جو ۱۹۹۰ء سے پہلے لکھی گئیں، اور وہ جو ۱۹۹۱ ء کے بعد لکھی گئیں۔
پہلے دور کی نظمیں
________________________________________
پہلے دور کی نظموں میں باہمی اعتماد، محبت اور شفقت ہے۔ ایک دوسرے پر انحصار ہے۔ ہوس اور جسمانی تعلق سے کہیں اوپر اٹھ کر روح کی سطح پر ملن، یا ایک جنم سے تجاوز کر کے آنے والے جنموں تک ساتھ نبھانے کا قول ہے۔ زوال عمر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اس بات کا اعادہ ہے کہ جسم ایک فروعی شے ہے، انسانی خواہشات سے اونچا اٹھ کر، جسم اور اس کی کمزوریوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے، میاں بیوی روح کی بالیدگی کا سامان مہیا کر سکتے ہیں۔ بر خلاف اس کے دوسرے دور کی نظموں میں بد اعتمادی، رنجش، الزام گردانی کا ماحول ہے اور اس کا ذمہ دار عورت کو ٹھہرایا گیا ہے۔ ۔ ۔ پہلے دور کی نظموں میں سر فہرست ’’جُگل بندی‘‘ ہے، جو ۱۹۷۸ء میں لکھی گئی۔ جُگل بندی سنگیت ودیا کی اصطلاح ہے۔ جس میں دو مغّنی یا ایک مغّنی اور دوسری مغنّیہ، آلاپ کے بعد مُکھڑا اور اس کے بعد آنے والے ’بولوں ’ کو، یکے بعد دیگرے، یا باہم دگر یعنی آواز کے ساتھ آواز ملا کر، ایک دوسرے کی آواز کی ’’پورتی‘‘ کرتے ہیں۔ مرد عورت یا پتی پتنی کے ملن کو سنگیت کی بھاشا میں ’جُگل بندی‘ کا لقب دے کر شاعر اسے جسموں کی جُگل بندی کہتا ہے۔
یہ جسموں کی جگل بندی
جسے چالیس برسوں سے
ہر اک سُر تال میں ہم نے
ستھر رکھا ہوا ہے اس طرح مدھّم سے پنچم تک
کہ یک آہنگ اب جسموں کے سُر سنگیت کی لہریں
بہم مل کر
ہماری زندگی کے راگ کی تکمیل کرتی ہیں۔
’ستھر‘ رکھنے سے مراد قائم رکھنا، بغیر کسی رد و بدل کے ایک ہی سطح پرمستحکم رکھنا ہے۔ ’مدھم‘ سے ’پنچم‘ تک مرد اور عورت نے اپنی زندگی کے راگ کو یک آہنگ ہو کر گاتے ہوئے پہنچایا ہے، تو اب اسے آگے بھی ایسے ہی بڑھنا چاہئے۔ پہلا بند جسموں کی سطح پر جگل بندی کا تھا، تو دوسرا بند درون جسم خون کی گردش اور دل کی دھڑکن تک لے جاتا ہے۔
یہ موسیقی
درون جسم ’’ان ہد ناد‘‘ بن کر
بس گئی ہے یوں ہمارے دل کی دھڑکن میں
کہ اب آلاپ کی ہلکی سی میٹھی گنگناہٹ
بِین کی بیکل سی ہلکی تھرتھراہٹ
چھیڑ دیتی ہے سہانا راگ
دونوں جسم سرگم کے نشے میں چور
دو ناگوں
سے، راگوں کی بغلگیری میں جُڑ کر
جھومنے لگتے ہیں مستی میں !
سنگیت ودیا کے رسیا جانتے ہیں کہ ’ان ہد ناد‘ سپیروں کا راگ ہے، جسے دو سپیرے جُگل بندی میں مل کر اپنے بینوں پر بجاتے ہیں۔ یہ وہ مسحور کن راگ ہے، جس سے ناگ اور ناگنیاں مست ہو کر بغلگیری، یعنی اختلاط کی حالت میں، ناچنے لگتے ہیں۔ یہ استعارہ نہایت چابکدستی سے، جسم کی سطح پر مرد اور عورت کے جنسی سمبندھوں کی تصویر کشی کرتا ہے۔ تیسرا اور آخری بند واحد متکلم حاضر کا اپنی جیون سنگنی کو یہ پیغام دیتا ہے کہ جسم کی بات تو بہت ہو گئی، ہم نے جسم کو تو سیر ہو کر جی لیا، اب جسم کی حد سے دور نیچے روح کی گہرائیوں میں اتریں۔
چلو آؤ، یہ امرت رس میں بھیگا سُر ملن
اب اپنے جسموں کی حدوں سے دور نیچے
روح کی گہرائیوں میں ڈوب کر
اک ایسے ابدی راگ میں ڈھالیں
کہ یہ سمبندھ سرگم کا
یہ سنگت پریم بندھن میں بندھی دو آتماؤں کی رہے قائم
جُگل بندی میں آنے والے جنموں تک !
یہ بند بہت اہم ہے۔ مرد عورت کا ملن ہندو عقیدے کے مطابق ایک جنم کا نہیں، بلکہ ’’جنم جنمانتر‘‘ کا ہے۔ نظم کی پہلی سطر میں ’’جُگل بندی‘‘ کی اصطلاح کا echo ہمیں آخری سطر میں بھی ملتا ہے۔
٭٭٭