کئی بار لکھنا اتنا درد کیوں دیتا ہے ؟
______________________
حرف کیوں جڑتے ہیں
لفظ کیوں بنتے ہیں
اور اس بننے بگڑنے میں
ہمارے وجود کے سنگریزے
ریزہ ریزہ ہو کر
کیوں شامل ہو جاتے ہیں
کیا شہرت کا سرمستی اس درد کا مداوا کرتی ہے ؟
یا کسی کردار کے ہونٹوں پر آئی مسکان
لبوں پہ دم توڑتی دعا
مصنف کی ہمرکاب بنتی ہے
حرف سے لفظ
لفظ سے سطر
پھر کہانی کا سفر
ندی کے بہاؤ کی مانند
کئی تخریب کاریاں اپنے جلو میں سمیٹے
بہتا چلا جاتا ہے
آخر ہم لکھتے کیوں ہیں ؟
جب کہ یہ جانتے ہیں
لکھنا درد دیتا ہے
٭٭٭
دن کے سفید چہرے پر
______________________
دن کے سفید چہرے پر
ایک کہانی لکھنے کے لیے
جب میں نے ظلمت شب سے
روشنائی مانگی
تو ہر رنگ مجھ پر
قہقہہ لگا کر ہنسا
میں نے اپنی انگلیاں تراش کر
قلم بنائے
ہر ورق
اپنے رگ و ریشے سے سینچا سجایا
پھر اک دن
افلاک کی مجلس میں پہنچی
زہرہ پر اقبال رومی اور ٹالسٹائی
نطشے اور گوئٹے کے ساتھ
محو گفتگو ملے
میں حیران ہوئی
مریخ کی بجائے یہ سب
زہرہ پر موجود ہیں
یہ دیکھ کر شہر زاد کھلکھلا کر ہنسی
پھر میرا بازو پکڑ کر زمین کی سیر کو واپس لائی
جہاں مائی تاجاں کپاس کے پھولوں سے
اپنا کفن کات رہی تھی
اور کئی قیوم گدھ راج بنے
سیمیں بدن کی گھات میں
روحانیت کی پرتیں تلاش کر رہے تھے
نسیم صبح کی کترنیں لیروں لیر
کوڑے کے ڈھیر پر پڑی تھیں
یہ دیکھ کر میں نے پوچھا
اے شہر زاد
کیا دکھلانے لائی ہو
وہ مسکائی اور کہا
سر پر لٹکتی تلوار
شاہکار کہانیاں لکھواتی ہے
یا نشتر جیسے
چبھتے احساسات
ان کہانیوں کو جنم دیتے ہیں
میں نے ہنس کر اسے الوداع کہا
اور ایک کہانی لکھنے بیٹھ گئی
٭٭٭