بہت یاد آتے ہیں ۔۔۔ ہری ونش رائے بچن

 

(ہندی سے، محض رسم الخط کی تبدیلی)

 

 

میں یادوں کا

قصہ کھولوں تو،

کچھ دوست بہت

یاد آتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

 

۔ ۔ ۔ گزرے پل کو سوچوں

تو، کچھ دوست

بہت یاد آتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

 

۔ جانے کون سی نگری میں،

آباد ہیں جا کر مدت سے۔ ۔ ۔ ۔

 

دیر رات تک جاگوں تو،

کچھ دوست

بہت یاد آتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

 

باتیں تھیں پھولوں جیسی،

لہجے خوشبو جیسے تھے،

صحنِ چمن میں ٹہلوں تو،

کچھ دوست بہت یاد آتے ہیں۔

 

زندگی بدل گئی،

نئے سرے میں ڈھل گئی،

 

۔ ۔ ۔ کو نوکری سے فرصت نہیں۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ کو دوستوں کی ضرورت نہیں۔ ۔ ۔ ۔

یار گم ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔

"تو” سے "تم” اور  "آپ” ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

 

گزرے پل کو سوچوں

تو، کچھ دوست بہت یاد آتے ہیں۔ ۔ ۔

 

۔ ۔ ۔ دھیرے عمر کٹ جاتی ہے۔ ۔ ۔

۔ ۔ ۔ یادوں کی پستک بن جاتی ہے،

۔ ۔ ۔ کسی کی یاد بہت تڑپاتی ہے۔ ۔ ۔

اور کبھی یادوں کے سہارے زندگی کٹ جاتی ہے۔ ۔ ۔

 

کناروں پہ ساگر کے خزانے نہیں آتے،

جیون میں دوست پرانے نہیں آتے۔ ۔ ۔

 

جی لو ان پَلوں کو ہنس کے دوست!

پھر لوٹ کے دوستی کے زمانے نہیں آتے۔ ۔ ۔ ۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے