(ہندی سے، محض رسم الخط کی تبدیلی)
میں یادوں کا
قصہ کھولوں تو،
کچھ دوست بہت
یاد آتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ گزرے پل کو سوچوں
تو، کچھ دوست
بہت یاد آتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
۔ جانے کون سی نگری میں،
آباد ہیں جا کر مدت سے۔ ۔ ۔ ۔
دیر رات تک جاگوں تو،
کچھ دوست
بہت یاد آتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
باتیں تھیں پھولوں جیسی،
لہجے خوشبو جیسے تھے،
صحنِ چمن میں ٹہلوں تو،
کچھ دوست بہت یاد آتے ہیں۔
زندگی بدل گئی،
نئے سرے میں ڈھل گئی،
۔ ۔ ۔ کو نوکری سے فرصت نہیں۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ کو دوستوں کی ضرورت نہیں۔ ۔ ۔ ۔
یار گم ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔
"تو” سے "تم” اور "آپ” ہو گئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
گزرے پل کو سوچوں
تو، کچھ دوست بہت یاد آتے ہیں۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ دھیرے عمر کٹ جاتی ہے۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ یادوں کی پستک بن جاتی ہے،
۔ ۔ ۔ کسی کی یاد بہت تڑپاتی ہے۔ ۔ ۔
اور کبھی یادوں کے سہارے زندگی کٹ جاتی ہے۔ ۔ ۔
کناروں پہ ساگر کے خزانے نہیں آتے،
جیون میں دوست پرانے نہیں آتے۔ ۔ ۔
جی لو ان پَلوں کو ہنس کے دوست!
پھر لوٹ کے دوستی کے زمانے نہیں آتے۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭