باتوں کی نظم دہرائی جاتی رہے گی! (ٹرائلاجی) ۔۔۔ سدرۃ المنتہیٰ

ہم نے سوچا تھا ہم باتیں کریں گے

 

ہم نے سوچا تھا کہ ہم باتیں کریں گے

اور پھر باتوں کی تتلیاں اڑیں گی

باتوں کے پھول نکھریں گے

 

مگر آج کے دور میں جب بات شروع اخبار کے صفحے سے ہوتی یے

مجھے کئی لاشیں بکھری ہوئیں دریدہ نظر آئیں

تو ان پر منڈلاتے ہوئے چیل کوے پھڑپھڑانے لگے

اور باتوں کی آواز ان کے پھڑپھڑاتے پروں کے شور میں دب جاتی ہے

میں ایسے میں کیسے تمہاری میز پر آؤں

اور اپنے درد کیسے کھولوں۔۔

اور تمہارے درد کیسے سنوں

کہ ہمارے درد تو سسک کر مدھم ہو جاتے ہیں

مگر ناشتے کی میز پر اخبار چیختا ہے

تم نے اس میز کی داہنی طرف اپنا نئے ماڈل کا آئی فون رکھ دیا ہے

دیکھنا تھا ادھر ہی میرے خواب سوئے پڑے تھے

جو میں چائے کی پیالی کے پاس بھول آئی تھی

آج تک وہ آنسووں کا ایک قطرہ زندہ ہے

جو میری آنکھوں کے اندر ہی رہ گیا تھا

اور وہ کئی ان کہی باتیں بھی

جن سے تتلیاں اڑتی ہیں

جن سے پھول کھلتے ہیں

میں تمہیں بتاؤں وہ ساری باتیں میں نے کل باسی روٹی کے ڈبے میں رکھ دی ہیں

انہیں باس لگ گئی ہے

اور تتلیوں کے رنگ پھیکے ہو گئے ہیں

تمہاری میز پر رکھا اخبار ہر روز چیختا ہے

میں ہر روز تمہیں کچھ کہنے سے پہلے بھول جاتی ہوں

ہم نے سوچا تھا ہم باتیں کریں گے

باتوں سے پھول کھلیں گے

پھولوں پر تتلیاں آ کر بیٹھیں گیں

تمہاری میز پر اخبار چیختا ہے

میری شیلف کے بند خانے میں تتلی پھڑپھڑانے لگی ہے

میں نے شیلف کا خانہ کھول دیا ہے

تم اپنا اخبار تہہ کرو

اور سوچو کہ ہم نے آج کیا بات کرنی تھی

مجھے معلوم ہے ہم آج بھی وہ لمحہ بھول جائیں گے

تمہاری میز پر اخبار پڑا چیختا رہے گا

باتوں کے پھول

مرجھا گئے ہوں گے

٭٭

 

 

 

 

اب تم میری آنکھوں سے دیکھا کرنا!

 

چلو اب سو جائیں

رات بہت اندھیری ہو جاتی ہے

ٹھنڈ بڑھنے لگی ہے

باتیں فریزر کے خانے میں پڑی سوکھ گئی ہیں

ان پر ٹھنڈ پہرا دیتی ہے

میں نے ان کے لئے اس بار کوئی اوور کوٹ نہیں خریدا ہے

میرے کچن کے خالی ڈبے میں بھی حتی’ کہ ہر جگہ باتیں ہیں

اور میرے ہونٹوں کو چپ لگی ہے

تم نے آج بھی مجھ سے میری چپ کا شکوہ کر دیا

اور اپنے ناشتے کی میز پر نہیں دیکھا۔۔

میں تمہیں سال کے آخری دنوں میں آنکھیں بھیجوں گی

تم اب کے بعد میری آنکھوں سے دیکھا کرنا

تمہیں سب کچھ نظر آئے گا

وہ سب جو میں روزانہ دیکھتی ہوں

وہ تمہارے اخبار کی سرخی سے زیادہ گہرا ہے

اور دھندلا ہے

جو چیختا ہی نہیں

جو صرف سسکتا ہے

مجھے تمہارے اخبار کی چیخ پسند ہے

مگر میں چاہتی ہوں کہ تم میری سماعتوں سے باتوں کو سنو

اور محسوس کرو

کہ اس دنیا میں

درد کی

کتنی قسمیں رہتی ہیں

٭٭

 

 

 

 

مگر ہم آج کے بعد صرف ایک دوسرے کے لئے جئیں گے!

 

مجھے تمہارے سنڈے کا ہر روز انتظار رہتا ہے

تم اخباروں کے ڈھیر مت لایا کرو

میں تمہیں کتنی بار سمجھاؤں کہ خواب۔۔ ۔

میں تمہیں کتنی مرتبہ بتاؤں کہ تمہاری میز پر اخبار۔۔ ۔!

 

میں تمہیں کتنی بار لمحوں کا حساب سمجھاؤں۔۔

 

میری گھڑی کے کانٹے کا وقت بہت سست ہے

اور تمہاری گھڑی کو پر لگے ہوتے ہیں

 

میرا اتوار ایک مہینے کے بعد آتا ہے

اور تمہارا اتوار آ کر گزر بھی جاتا ہے

 

تمہارے کاموں کی فہرست لمبی ہے

میری تو زندگی ہی کام سے جڑی ہے

جس سے کانٹ چھانٹ کر میں نے اپنی باتیں نکالنی ہیں

ان کو صاف کر کے دھونا ہے

انہیں سکھانا ہے

اور پھر تمہارے سفری بیگ میں لگے کیمرے کے لینس سے

یا پھر تمہاری عینک میں لگے شیشوں والے فریم سے

یا پھر تمہاری جیب کے والیٹ کے کسی خانے میں

یا پھر تمہارے آئی فون کی دراز میں

رکھ دینی ہیں!

 

مگر میں جانتی ہوں باوجود اس کے

تمہیں میری باتیں زہر لگنے لگی ہیں

میں نے تمہارے بغیر۔۔ ۔ بد گمانیوں کے ڈھیر جمع کر لئے ہیں

اور تمہیں سچ سننے سے سخت نفرت ہونے لگی ہے

تمہیں صرف یہ سننا ہے کہ محبت آج بھی زندہ ہے

باوجود اس کے بھی تم نے محبت کی موت دیکھے بغیر اسے مرا ہوا پایا

تمہیں صرف زمانے کی مڈبھیڑ میں الجھ کر زمانوں کے جنتر منتر پڑھنے آتے ہیں

تمہیں صرف سننا ہے کہ میں تمہارے لئے مقید ہوں

تمہیں دنیا داری کے جھمیلوں سے فرصت نہیں

میرے پاس بھی کاموں کا انبار باریاں لگائے کھڑا ہے

مگر اس دھکم پیل میں نجانے کیوں

میرے اندر کی خواہشیں ہمیشہ خون مانگتی ہیں

 

کیونکہ مجھے تم سے صرف اتنا سننا ہے کہ ہفتے کی اس اتوار کو ہم تم ساتھ ناشتہ کریں گے

 

تم مجھے چار سال بعد دل کھول کر دیکھ لینا

اور مجھے پورا ایک گھنٹہ تمہاری بے سر و پا باتیں سننی ہیں

ہم آج کے بعد ایک دوسرے کے لئے جیا کریں گے!

صبح کی میز پر اخبار چیختا رہے گا

رات کے سرہانے دکھ سو چکے ہوں گے

شام کی سرخی ہمارے سروں پر سے گزر جائے گی

مگر ہم آج کے بعد صرف ایک دوسرے کے لئے جئیں گے

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے