’’اپنے وفا دار کتے کو پھانسی پر لٹکا کر تم نے ہی انعام میں ہیرے کی انگوٹھی پائی تھی، مجھ سے۔۔۔ ؟‘‘کافی انتظار کے بعد جب بادشاہ کو ایک سمت سے چرواہا اپنی بھیڑیں لاتا دکھائی دیا تو بادشاہ نے سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کے قریب پہنچ کر اُس کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہوے تلخ لہجے میں دریافت کیا۔ اور چرواہے نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’وہ وفادار کتا واقعی تمھارا اپنا تھا…؟‘‘بادشاہ نے گھوڑے سے اُتر کر اگلا سوال کیا اور چرواہے نے پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’تم نے اپنے وفا دار اور جوان کتے کی سیکسی خواہشات کے لیے کسی کتیا کا بھی انتظام کیا تھا۔۔۔ ۔ ؟ بادشاہ نے طیش میں دریافت کیا۔ اور چرواہے نے انکار میں سر ہلایا۔
’’تواب تم اپنے وفادار کتے کو پھانسی دینے کے جرم میں مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘ بادشاہ نے چیختے ہوئے تلوار نیام سے نکال لی۔
’’جہاں پناہ۔۔۔ ! جس عمل پر انعام سے نوازا تھا، اسی پر سزائے موت۔۔۔ ! کچھ سمجھا نہیں۔۔۔ ؟‘‘چرواہے نے بڑے اطمینان سے سوال کیا۔
’’انعام والا فیصلہ، نا اہل بادشاہ کا تھا۔ اور موت کا فیصلہ، سمجھ دار عوام کا۔‘‘
’’وضاحت فرمائیں، جہاں پناہ۔‘‘
’’تم جانتے نہیں کیا؛ سیکس کے محور پر گھومتی ہے، یہ دنیا۔۔۔ ؟ پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے جس طرح انسان چیتھڑے گودڑے، کوڑا کرکٹ، جائز ناجائز، یہاں تک کہ اپنی اولاد تک کھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اُسی طرح سیکسی بھوک مٹانے کے لیے پاکیزہ رشتوں تک کی بے حرمتی کر ڈالتا ہے، یہ انسان۔ انسان تو انسان، جانور تک غیر جنسی جانوروں سے سیکسی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔۔۔ ۔ ؟ دیکھتے نہیں کیا اینیمل پلانٹ پروگرام اور فیس بک پر۔۔۔ ؟‘‘بادشاہ رک کر آگے بولا، ’’وہ تمھارا اپنا وفا دار کتا تھا، اس کا ہر طرح خیال رکھنا تمھارا فرض تھا۔ اس نے اپنی سیکسی خواہشات کی تکمیل مادہ بھیڑے سے کر کے، عِوض میں تمھاری بھیڑ دے کر اتنا بڑا جرم نہیں کیا تھا کہ تم نے اس کی جان لے لی۔ جرم تو تمھارا ہے کہ تم نے اپنے وفا دار کتے کی ضروریات کا خیال نہ کر کے اُس کو ایسا کرنے پر مجبور کیا۔
ہوا یہ تھا: دو روز پیشتر چرواہے سے درس کے بدلے ہیرے کی انگوٹھی دے کر بادشاہ نے اپنے ملک میں رشوت خوری، زناکاری، بے ایمانی اور چور بازاری کرنے والوں کو پھانسی پر لٹکانے کے لیے شہر کے ہر چوراہے پر پھانسی کے پھندے لٹکوا دیے تھے۔ جس کے جواب میں اگلے روز بادشاہ کے اپنے شاہی تخت پر خود کے لیے پھانسی کا پھندہ جھولتا ملا۔ جس کو دیکھ کر بادشاہ کو لگا کہ اتنی بڑی سازش بیرونی ممالک سے سانٹھ گانٹھ کے بنا ممکن نہیں۔ اُس نے سوچا اس سے پیشتر کہ وزرا، حکام اور عوام مل کر بیرونی طاقتوں کے اشارے پر اُس کو پھانسی پر لٹکا دیں، اُس نے گھبرا کر بنا کچھ کھائے پیے بھیش بدلا، اصطبل سے وفا دار گھوڑا نکالا اور دھندلکے ہی سرپٹ باہر نکل گیا۔ باہر یہ دیکھ کر اُس کی حیرانی اور بڑھ گئی کہ اس نے ملک کے ہر چوراہے پر پھانسی کے جو پھندے لٹکوائے تھے، ان سبھی پر بادشاہ کا نام لکھا ہے۔ بادشاہ نے سب سے چھپتے چھپاتے ایک سرائے میں پناہ لے کر بھٹیارن سے کھانا بنوا کر جیسے تیسے زہر مار کیا اور اپنی جان بچانے کے ارادے سے اسی سرائے میں شب گزار کر اگلی صبح دھندلکے ہی جنگل میں جا کر رہی سہی زندگی گزارنے کا عہد کر لیا۔
ملک میں اس حیرت انگیز بدلاؤ پر سرائے میں ٹھہرے مسافروں کے درمیاں جو بے ٹوک تبصرے ہو رہے تھے۔ ان سے بادشاہ اس نتیجے پر پہنچا کہ پھانسی کے سارے پھندوں پر رعایا نے جو بادشاہ کا نام لکھا ہے، وہ درست ہے۔
بادشاہ کو پھانسی کے پھندے پر لٹکائے جانے کا سبب ؛جب بادشاہ نے عام شہری کی حیثیت سے دریافت کیا تو مسافروں نے بتایا: ’’بادشاہ جب خود غلط روش اختیار کرتا ہے، تب ہی رعایا غلط قدم اُٹھانے کی ہمت کرتی ہے۔ بادشاہ کے پاس صرف دو آنکھیں ہیں اور رعایا کے پاس بے شمار۔ بادشاہ نے وضاحت چاہی تو مسافروں نے بتایا: ’’بادشاہ؛ قومی سربراہوں، سماجی تنظیموں، بڑے بڑے فلمی کلاکاروں کی مدد سے، عوام کو ورغلا کر، غریب رعایا کو جھوٹے سپنے دکھا کر، ڈرا دھمکا کر، یہاں تک کہ خاصی رقم خرچ کر کے حکومت بنا لیتا ہے۔ پھر بدیشی حکومتوں اور بڑی بڑی کمپنیوں سے معاہدوں کے تحت گھٹیا اور ناجائز مال کی بڑے بڑے فلمی کلاکاروں سے مشتہری کروا کر بھولی بھالی عوام کو لوٹتا ہے۔ تو کیا بنا کمیشن کے۔۔۔ ؟ رعایا یہ سب نہیں سمجھتی کیا۔۔۔ ؟‘‘کبھی کبھی تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بادشاہ ملک کے اندرونی خلفشار کو دور کرنے کے لیے سرحدوں پر دوسرے ملک سے نورا کشتی کے ذریعے ہزاروں نوجوانوں کی بھینٹ چڑھوا نے میں بھی کوئی عار نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ جوانوں کی لاشوں کے تابوتوں میں کمیشن لینے میں نہیں چوکتا۔
بادشاہ نے عوام کی رائے جاننے کے لیے سرائے کے مسافروں کو اپنا حال یوں سنایا: سننے میں آیا ہے کہ رشوت خوری، زناکاری، بے ایمانی اور چور بازاری کے باعث ہمارے ملک کا اقتصادی ڈھانچا ؛بیرونی ممالک کی سازشوں کے تحت صدام کے اسٹیچو کی طرح گر نے والا تھا۔ یہاں تک کہ بادشاہ نے جب اپنی بیماری سے نجات پا کر اپنے وزن کے برابر جو اشرفیاں صرف فقراء میں خیرات کے واسطے وزیر کو سونپیں، تو وزیر سے فقیر تک پہنچتے پہنچتے صرف ایک اشرفی رہ گئی۔ اس عمل سے بادشاہ پریشان ہو کر اپنا دل بہلا نے کے لیے اپنا وفا دار گھوڑا لے کر کسی کو بنا بتائے جنگل میں شکار کے لیے نکل گیا۔ وہاں اس کو ایک چرواہا بھیڑ یں چراتا ملا، چرواہے نے اپنے وفا دار کتے کو پھانسی پر لٹکا رکھا تھا۔ کتے کو پھانسی پر لٹکا نے کا سبب دریافت کرنے پر چرواہے نے بتایا: ’’میں نے اپنی بھیڑیں چرانے کی ذمے داری اپنے وفادار کتے کو سونپ دی تھی، کچھ دنوں بعد میرا کتا ایک مادہ بھیڑ یےسے اپنی سیکسی بھوک مٹانے کے عِوض میں میری ایک بھیڑ اس مادہ بھیڑیے کی نذر کرنے لگا۔ کتے کی اس غداری پر میں نے کتے کو پھانسی پر لٹکا دیا۔‘‘
چرواہے کے اس عمل سے بادشاہ کو اپنے ملک کا نظام چلانے کا راستہ ملا اور بادشاہ نے چرواہے کے ذریعے کوکتے کو پھانسی پر لٹکانے کے فیصلے کو جائز مانتے ہوئے اپنی انگلی سے ہیرے کی ایک انگوٹھی نکال کر چرواہے کو پیش کر دی اور واپس لوٹ کر اپنے ملک کے ہر چورا ہے پر پھانسی کے پھندے لٹکوا کر منادی کروا دی: جو بھی غلط اعمال میں ملوث پایا جائے گا، بیچ چورا ہے: پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے گا۔ بادشاہ کو یہ لگا کہ اس کے اس عمل سے ملک کا نظام سدھر جائے گا لیکن ہوا اس کے برعکس۔ اگلی ہی صبح بادشاہ کو اپنے شاہی تخت پر پھانسی کا پھندہ جھولتا ملا۔
’’بادشاہ نے اپنی بیماری سے شفا پانے کی خوشی میں جو اپنے وزن کے برابر اشرفیاں خیرات کیں۔ وہ کیا بادشاہ کی اپنی تھیں۔۔۔ ؟‘‘ بادشاہ جب کہانی سنا چکا تو ایک شخص نے دریافت کیا۔
’’ظاہر ہے اتنی زیادہ اشرفیاں تو خزانے کی ہی تھیں۔‘‘ بادشاہ نے جواب دیا۔
’’خزانہ ہمیشہ رعایا کا ہوتا ہے۔ جب ملک پر کوئی آفت آتی ہے، تو خزانہ عوام کے کام آتا ہے۔ بادشاہ کو اپنی بیماری سے ٹھیک ہونے کے عوض میں عوام کے خزانے کی اشرفیاں خیرات کرنے کا کو ئی حق نہ تھا۔ حکومت کرنے کا حق اسی کو حاصل ہے جو اپنی بہ نسبت رعایا کا زیادہ خیال رکھے۔‘‘ اس شخص نے بادشاہ کی آنکھیں کھول دیں۔ اور بادشاہ نے جب سرائے کے مسافروں سے حل دریافت کیا تو مسافروں نے بتایا: بادشاہ کو چاہیے کہ وہ اپنی محنت سے خزانے کی اشرفیاں پوری کرے۔‘‘
’’اور ابھی جو فیصلہ میں نے سنایا یہ بھی مسافروں یعنی عوام کا ہے۔ میں بھی اپنی محنت سے پیدا کر کے خزانے کی اشرفیاں پوری کروں گاہی اور تم بھی اپنے وفادار کتے کو پھانسی پر لٹکانے کے جرم میں مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘ بادشاہ نے گرج کر نیام سے تلوار کھینچ لی۔
’’وہ ساری اشرفیاں سرکاری خزانے میں پہنچ چکی ہیں جہاں پناہ۔ اب اپنی محنت سے خزانے کی اشرفیاں پوری کرنے کی ضرورت نہیں، آپ کو۔ رعایا ہمیشہ بادشاہ کے نقشِ قدم پر چلتی ہے ؛بے ایمانی میں بھی، اور ایمان داری میں بھی۔ یہی سمجھانے کے لیے سب کچھ کرنا پڑا مجھ کو، سرائے سے یہاں تک۔‘‘ بادشاہ جیسے ہی چرواہے کی گردن اُڑانے کے لیے آگے بڑھا، وزیر نے چرواہے کا چولا اُتارتے ہوئے تفصیل سنا دی۔
٭٭٭